فکرو فہم
محمد امین اللہ
علم کی بنیاد پر ہی غاروں میں رہنے والا انسان خلاؤں کا سفر کر رہا ہے ، سمندر کی گہرائیوں میں سیر گاہیں تعمیر کر رہا ہے ۔ زمین کا سینا چیر کر اس میں مدفون خزانوں کو نکال کر آسمان سے باتیں کرنے والی پر اشائس جنت نظیر مکانات بنا کر مزے کر رہا ہے ۔ تیز رفتار ریل اور ہوائی جہاز کے ذریعے مہینوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر رہا ہے ۔ یہ تو علم کے نافع ہونے کی دلیل ہے ۔ مگر یہی انسان اب اتنا ہلاکت خیز بارودی اور ایٹمی ہتھیار بنا چکا ہے جس سے چند منٹوں میں شہر کے شہر ملیا میٹ ہو جاتے ہیں جبکہ ایٹم بم کی تباہی کو جاپانی دوسری جنگ عظیم میں بھگت چکے ہیں جبکہ آج انسانیت کش ہتھیار کی شدت ہزاروں گنا بڑھ چکی ہے ۔
گو کہ تعلیم ذریعہ معاش بھی ہے جس کا اہتمام و انتظام حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور آج تمام تر دنیا میں سرکاری سطح پر قائم تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم کا اہتمام ہے ۔ مگر برا عظیم ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں میٹرک سطح تک تو مفت تعلیم دی جا رہی ہے ۔ مگر سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی پیشہ ورانہ خیانت نے ان اسکولوں کے معیار کو بہت ہی نیچے درجے تک پہنچا دیا ہے ۔ تاکہ طلباء ان اساتذہ سے پرائیویٹ ٹیوشن پڑھیں جس سے ان کی آمدن میں اضافہ ہو ۔ دنیا کے تمام ملکوں میں یکساں نظام تعلیم اور ذریعے تعلیم ان کی قومی زبان میں دی جاتی ہے ۔ یورپ میں برطانیہ کے علاوہ تمام یوروپین ملکوں میں ان کی اپنی قومی زبان میں تعلیم دی جا رہی ہے اس کے ساتھ ان ملکوں میں اپنا تعلیمی نصاب ملکی بیانیہ کے مطابق دی جاتی ہے اس کے بعد دیگر بین الاقوامی رابطے کی زبان با الخصوص انگریزی نصاب میں شامل کیا جاتا ہے ۔ جاپان ، چین ، بھارت ، وسط ایشیا کے ممالک ، ساؤتھ ایشین ممالک ، بنگلہ دیش سب اپنی قومی زبان کو ہی ذریعے تعلیم بنائے ہوئے ہیں اور ترقی یافتہ ہیں یا ترقی کے منازل تیزی سے طے کر رہے ہیں ۔ یہاں سرکاری اسکولوں اور پرائیوٹ اسکولوں دونوں کا نصاب اور معیار ایک جیسا ہے ۔ میرٹ کی بنیاد پر سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں میں اساتذہ کی تقرریاں کی جاتی ہیں اور پرائیوٹ ٹیوشن مراکز کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، کیونکہ اسکولوں میں ہی طلباء کی تعلیمی استعداد کو بڑھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں یہ نقل کا کینسر بڑے پیمانے پر موجود ہے جس کو سیاسی سرپرستی اور اساتذہ کی بد دیانتی اور خیانت شامل ہے ۔ پاکستان اس معاملے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، یہاں تو ایک دن پہلے ہی امتحانی پرچے آؤٹ ہو جاتے ہیں اور ہر سطح کے بورڈ کے امتحانات میں نقل مافیا اسکولوں اور امتحانی مراکز پر قبضہ جمع لیتے ہیں۔اساتذہ اس کار بد میں ملوث ہوکر تعلیمی معیار کی قبریں کھود رہے ہوتے ہیں ۔
ہندوستان میں مدرسہ بورڈز کے تمام امتحانات عصری تعلیم کے نصاب کے ساتھ ہوتا ہے ،اسی طرح کی صورتحال اب بنگلہ دیش میں بھی مرحلہ وار اپنائی جا رہی ہے ۔ جبکہ پاکستان میں مدارس کے بورڈ مسلکی بنیادوں پر قائم ہیں، جہاں عصری تعلیم سے کوئی ہم آہنگی نہیں ہے ۔ درس نظامی مکمل کرنے اور دور حدیث مکمل کرنے والوں کو ماسٹر ڈگری کے مساوی سرٹیفکیٹ جاری کئے جاتے ہیں ۔ ہندوستان میں تسلیم شدہ ملکی زبانوں میں ہر سطح کے مقابلے کے امتحانات دینے کی اجازت ہے ۔ بنگلہ دیش میں بھی بنگلہ زبان ہر سطح پر رائج ہے ۔ پاکستان میں یہ اس وجہ سے نہیں ہوتا ہے کہ حکمراں طبقہ O level اور A level کو ترجیح دیتا ہے جبکہ وہ اشرافیہ میں اس وقت شمار ہوتے ہیں جب وہ روز مرہ کی زندگی میں بھی اپنے گھروں میں انگریزی بول چال کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہاں طبقاتی افراط و تفریط نے شعبہ تعلیم کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں بر صغیر میں سب سے کم شرح تعلیم موجود ہے ۔ سب سے کم بجٹ تعلیم کے لئے مختص کی جاتی ہے اور اس کا بڑا حصہ شعبہ تعلیم کے حکومتی اہلکار خرد برد کر لیتے ہیں، لہذا سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار اتنا کم ترین ہے کہ سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں کئی گنا پرائیویٹ تعلیمی ادارے تجارتی بنیادوں پر کھل چکے ہیں اور انہوں نے غیر ملکی نصاب کے ساتھ تعلیم دینے والے بڑے chain of school کے ساتھ فرنچائز حاصل کرکے تعلیمی ادارے تجارتی بنیادوں پر بڑی بڑی فیسوں کے ساتھ اسکول کھول لئے ہیں ۔ یہ ایک پر کشش تعلیمی صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے ۔ سوشل سائنسز کے تعلیم کی اہمیت کم اور فنی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ والدین اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اپنے بچوں کو ڈاکٹر ، انجینئر بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں ۔اور ایک ایسا انسان تیار کیا جاتا ہے جو پیسہ کمانے کی مشین کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ انجینئر کی تعمیر کردہ پل ، سڑکیں اور عمارتیں سب کی سب نا پائیدار ہوتی ہیں ، ڈاکٹر صاحبان تو اب مریضوں اور گھر والوں کے لئے قصابوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔ غیر ملکی تبصروں اور رپورٹس میں یہ بات کھل کر کہی جا رہی ہے کہ ڈاکٹر مریض کے لئے نہیں بلکہ دوا کمپنیوں کے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے دوا تجویز کرتے ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جب تعلیم عبادت کے بجائے تجارت بن جائے گی تو پیسہ کمانے والے مشین ہی تیار ہوں گے ۔
اساتذہ کو نسلوں کو معمار اور روحانی باپ کا درجہ حاصل تھا جو اپنے شاگردوں کو قدرت کے سر بستہ رازوں سے نہ صرف آشنا کرتے تھے بلکہ وہ شاگردوں کے مفادات کو اولیت دیتےتھے ۔ پڑھانے سے پہلے وہ خود یہ جانتے تھے کہ کیسے پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے سے زیادہ سکھانے پر زور دیتے تھے۔ آج زندگی کے ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے فرد نے اپنی مہارت کو خریدا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اسے دگنی قیمت پر بیچتا ہے ۔ مدارس کا پورا نظام زکوٰۃ ، صدقات اور عطیات کی مرہون منت ہے اور اس سے فارغ التحصیل علماء اسی میدان سے اپنی روزی روٹی کمانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ آج صنعتی دنیا میں اس کی کھپت کم ہے ۔عصری اور فنی تعلیم کے لئے امدادی اداروں کی بہت کمی ہے اگر ہے بھی تو اعلیٰ درجات کی تعلیم فراہم کرنے کے لئے ان کے پاس وسائل کم ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ ادارے بھی اپنے ذمہ داروں کے شفافیت سے محروم ہیں ۔
آج تعلیم کے شعبے میں خواتین کی اکثریت موجود ہے کیونکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے مرد اساتذہ کو وہ تنخواہیں نہیں دے پاتے جو ان کی ضرورت ہے مگر خواتین بڑی تعداد میں میسر ہیں ۔ میٹرک تک تعلیمی اداروں میں اکا دکا ہی مرد اساتذہ نظر آتے ہیں ۔ اس کے وہ مخفی اثرات پیش کرنے کی جسارت کروں جس پر ماہرین کی نظر نہیں جا رہی ہے یا محسوس کرتے بھی ہیں تو نظریہ ضرورت کے تحت نظر انداز کر رہے ہیں ۔
ایک بچہ عنوان بچپن سے لے میٹرک تک 12 سال خواتین اساتذہ کے زیر تعلیم ہو تو کس قدر ٹیلی پیتھی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ جبکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے وقت سے پہلے ہی بچوں کو بالغ بنانا شروع کر دیا ہے ۔ مخلوط تعلیم نے مزید بیڑا غرق کر دیا ہے ۔ چھ سال کا بچہ اور ساٹھ سال کا بوڑھا ایک جیسی دیوانگی کا شکار ہو چکا ہے اس پریہ تعلیمی ماحول ۔ اب تو اسکولوں میں ہی dating اور setting کے قصے عام ہیں کالج اور یونیورسٹیاں تو الاماں الحفیظ ۔ برائلر مرغیوں کی طرح اب بچے بھی وقت سے پہلے جوان ہو رہے ہیں ۔
انگریزی نصابی تعلیم انگریزی تہذیب کے ساتھ رائج ا لعمل ہے ۔ مقصد تعلیم شرف انسانیت کا فروغ ہے ۔یوں تو درد مندوں نے اس زوال تعلیم پر اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ لائبیریا موجود ہے، بات مختصر کہ کس پر کروں سنگھار کے پیا مورے اندھا ۔