رواں ہفتہ میں تعلیمی اداروں میں فورسز جوانوں کے داخلہ کے دو واقعات پیش آئے ہیں، جس پر تعلیمی حلقوں کے ساتھ ساتھ سما ج کے دیگر طبقوں میں انتہائی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی ادارے بچوں کی ذہنی نشو نما اور عملی تربیت کےلئے ایک وسیع کائنات ہوتے ہیں، جہاں کھلےدل و دماغ ، وسیع القلبی اورو سیع النظری کی ضرورت ہوتی ہے، سماج کی طر ف سے بھی اور انتظامی اداروں کی جانب سے بھی۔ اس حقیقت کو دنیا بھر میں نہ صرف پذیرائی حاصل ہے بلکہ اسے ہر سماج میں ترقی کا بنیادی زینہ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر ان ہی تعلیمی اداروں میں خوف وہراس او رسراسمیگی کا ماحول پیدا ہو تو یقینی طور پر وہاں زیر تعلیم بچوں کے ذہنی نشو و نما کا ارتقائی عمل بُری طرح متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس تناظر میں سرینگر کے ایچ ایم ٹی علاقہ میں اور پہلگام کے ینٹر گائوں میں اسکولوں کے اندر فورسز اہلکاروں کی طرف سے داخل ہو کر وہاں عملے اور بچوں کی ہراسانی پر زبردست غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اطلاعات مظہر ہیںکہ دونوں واقعات میں بظاہر سکول والوں کا کوئی قصور نہیں کیونکہ ایچ ایم ٹی واقعہ میں سکول کے متصل سڑک پر کسی ٹریفک معاملے پر بحث و تکرار اور ینڑ میں سکول کی بیرونی دیوار پر پر لکھے قابل اعتراض نعروں کو بنیاد بنا کر سکول کے اندر داخل ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ان واقعات پر سرکاری ملازموں کی انجمن ایجیک اور پرائیوٹ سکول ایسوسی ایشن نے زبردست احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے واقعات کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کیونکہ اس طرح نہ صرف تعلیمی ماحول متاثر ہونے کا اندیشہ ہے بلکہ بچوں کے ذہنی فروغ پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، جو آنے والے ایام میں نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک طرف حکومت تعلیمی اداروں میں جدید سوچ کے فروغ کے لئے طول طویل پروگرام منعقد کر رہی ہے اور اس میں فوج اور پولیس جیسے سیکورٹی ادارے کسی سے پیچھے نہیں بلکہ فوجی اداروں کی جانب سے آپریشن سدبھاونا پروگرام کے تحت نہ صرف کھیل کوداور ذہنی آزمائش کے مقابلوں اور کمپیوٹر سائنس کے جدید موضوعات پر طلبہ کی نشو و نما اور انہیں باہری دنیا سے متعارف کرانے کےلئے ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں اگر اسی ادارے سے وابستہ اہلکاروں کی جانب سے تعلیمی اداروں کے اندر ایسی غیر ضروری حرکات سرزد ہوں تو اس سے اس پروگرام کی افادیت ہی ختم ہوجاتی ہے، جس پر نہ صرف کروڑوں روپے صرف ہو ر ہے ہیں بلکہ اسے انتہا پسندی کے رجحان پر قابو کرنے کے لئے ایک تعمیریمہم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات کے لئے ایک معیاری ضابطہ کارموجود ہے، جسکے مطابق ایسی کسی بھی کاروائی کےلئے مقامی پولیس کی ہمراہی ضروری ہوتی ہے اگر اس ضابطہ کار کو بالائے طاق رکھا جائے تو کیا یہ معصوم ذہنوں کے اندر تنائو کے فروغ کا سبب نہیں بن سکتا؟ کیا اس طرح انتہا پسندانہ سوچ کو قابو کرنے کے بجائے اسکو فروغ نہیں مل سکتا ہے؟ یہ ارباب حل و عقد کے لئے لمحہ فکر یہ ہے۔ خاص طور پر وزیراعلیٰ، جو ریاست کی متحدہ کمان کونسل، جس میں سبھی سیکورٹی ادارے شامل ہیں، کی چیرمین ہیں ، کو اسطرح کے واقعات کا سنجیدہ نوٹس لیکر معاملہ متعلقہ ذمہ داروں کے ساتھ اُٹھانا چاہئے تاکہ یہ آنے والے ایام میں ایک مستقل صورت اختیار نہ کرے۔ تعلیمی اداروں کے قیام ساتھ ساتھ انکے اندر اور باہر خوف و ہراس سے پاک امن و سکون کاماحول قائم کرنا صرف سماج کی ہی نہیں بلکہ انتظامیہ اور اسکے دست و بازوں اداروں کی بھی ذمہ دری ہے، لہٰذا اسکی جانب کسی بھی قسم کی پہلو تہی برداشت نہیں کی جانی چاہئے۔ فوج اور نیم فوجی اداروں کے ذمہ داروں کو بھی اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ایسا کچھ کیوںہو رہا ہے، جس میں فروغ امن کے بجائے نقص امن کے خدشات زیادہ ہیں۔