جمیل احمد محسن۔پونچھ
تعلیم ایک بہت بیش قیمت زیور ہے۔جس سے آراستہ ہونا ہر مرد و خاتون کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ یہ تعلیم انسان کو درجہ بدرجہ اپنے اساتذہ کرام سے ملتی رہتی ہے ،جس کے حصول میں جہاں کئی ساری چیزیں کارفرما ہیں ، اس لئےانتہائی اہمیت کے حامل ہمارے تعلیمی ادارے ہیں۔ تعلیمی ادارے طلبہ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، جہاں سے طلباء کی تعلیم و تربیت ہوتی ہے۔تعلیم سماج کے ہر طبقے کے لیے ضروری ہے جن میں امیر غریب دونوں شامل ہیں۔ آج کل جہاں سرکار کی طرف سے اَن گنت تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ ہر طبقے سے وابستہ بچےتک تعلیم کی رسائی ہوسکے،وہیں پر گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے یہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا قیام بھی عمل میں آیا، جہاں بچوں کو کافی اچھی اور معیاری تعلیم دی جاتی تھی۔ سرکاری اداروں میں سارا دارو مدار سرکار پر ہوتا ہے اور سرکار تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پر وسائل کو دیکھ کر اساتذہ کا تعین کرتی ہے،جس کی وجہ سے کئی جگہوں پر اساتذہ کرام کی آسامیاں خالی ہوتی ہیں ،جس کی وجہ سے بچوں تک تعلیم صحیح معنوں میں نہیں مل پاتی۔ لیکن اب تیز رفتار کے ساتھ نظام بدلتا جا رہا ہے اور سرکاری اداروں میں اکثر و بیشتر جگہوں پر اساتذہ کی مناسب تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔البتہ بعض جگہوں کمی بھی ہوتی ہے۔
پرائیویٹ اسکولوں کی آمدنی کا دار و مدار لوگوں کی جیبوں پر ہوتا ہے اور اکثر غریبوں کے بچوں کی رسائی ان اسکولوں تک کم ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود بھی بیشترمزدور پیشہ اور محنت کش لوگ اپنے بچوں کوان اسکولوں میں داخل کرتے ہیں۔ جہاںبدقسمتی سےاُن کا استحصال ہوتا ہے۔ عوام کی شکایات رہتی ہیں کہ اب پرائیویٹ اسکول تجارتی مراکز بن گئے ہیں، جہاں پر غریبوں کے بچوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بات بالکل برحق ہے کہ ان اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں اور باقی تمام تر اخراجات کا دارومدار عوام سے حاصل کئے گئے پیسوں پر ہی ہوتا ہے لیکن عوام سے اِس قدر مانگ کرنا جو وہ ادا نہ کرسکیں، قابل مذمت ہے۔ کیونکہ اس سے سماج میں غرباء اور امراء میں تقسیم ہو جاتی ہے اور غریب اور انکے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آج کل پرائیویٹ اداروں کی جانب سے کئی سارے ایسے منفی اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن کی وجہ سے عوام کا اعتمادمتزلزل ہورہا ہے۔جن میں بچوں سے فیس اور ماہانہ ٹیوشن کی شکل میں من مانی رقمیں وصول کرنا، جو کہ وہ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، اس کے علاوہ بچوں کو اُن کی گنجائش، ان کی برداشت سے زیادہ کتابیں لانے کو کہنا اور بچوں کے والدین کو مخصوص جگہوں سے وردی اور دیگر اسٹیشنری کا سامان وغیرہ خریدنا ہوتا ہے۔سکول منتظمین کی من مانیاں بچوں کے والدین کے پریشان کُن بنی ہوئی ہیں۔سرکاری انتظامیہ کی طرف سے اس سلسلے میںآرڈر تو نکلتے رہتے ہیں لیکن ان کو زمینی سطح پر لاگو نہیں کیا جاتا اور اس چیز کو لے کر والدین کو بھی مستعد رہنا چاہیے کہ اگر کوئی مقررہ فیس سے زیادہ مانگے یا بے جاکتابیں خریدنے کے لئے کہے تو اسکے خلاف شکایات درج کروائی جائے۔کئی والدین کا کہنا ہے کہ بچوں کو اتنی کتابیں و کاپیاں ا’ٹھا کربستوں میں لے جانے پڑتی ہیں جو اُن کے وزن سے زیادہ ہوتی ہے اور بعض اوقات ان بچوں کی کمر میں درد ہونے لگتا ہے۔ بچوں کو بھاری بھرکم بوجھ اٹھانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کا دل پڑھائی سے اُٹھ جاتا ہے اور اور وہ سکول جانے سے ڈرتے ہیں۔
ایک سماجی کارکن ذاکر حسین عمر کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں بالخصوص پرائیویٹ اسکولوں کی من مانیوں سے عوام کا استحصال ہورہا ہے ۔جہاں من مانی فیس اور دوسرے چارجز وصول کی جاتی ہیںوہیں بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ کتابیں دی جاتی ہیں ۔حالانکہ وہ کتابیں بورڈ کی طرف سے مقرر شدہ نہیں ہوتی ہیں۔غریبوں کی رسائی پرائیویٹ سکولوں تک رہی نہیں ہے۔ سرکاری احکامات کے باوجود ،سرکاری حکم ناموںپر عمل نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا صحیح طریقے پراستعمال کیا جاتا ہے۔یقینا ًیہ تعلیمی ادارے حصول علم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس دور میں یہ محض تجارتی مراکز بن گئے ہیں۔ کچھ ادارے جو مخلص اور صحیح طور پر کام کرتے ہیں، ان کےنام بھی ایسے فراڈ کرنے والے کچھ اداروں کے منتظمین کی وجہ سے بد نام ہوئے ہیں۔ بچوں کو صحیح سے تعلیم کے بجائے صرف ان پر کتابیں لاد دی جاتی ہیں اور ان سے رقمیں وصولی جاتی ہیں۔عوام کو چاہیے کہ سرکاری اداروں میں بھی اپنے بچوں کو داخل کروائیں تاکہ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی من مانیاں رُک سکیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ بچوں کو صرف سوالات و جوابات اور مختلف پروگرامز میں اچھا پرفارم کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے، اگر عام بچوں کی حالت دیکھی جائے تو ویسے کے ویسے ہی ہیں اور ان کو صحیح طریقے سے اپنی کتابوں پر اور اپنے مضامین پر عبور حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اس کی طرف توجہ دینے کی خصوصی ضرورت ہے، ورنہ عام بچے پڑھائی سے بھی دوری اختیار کریں گے اور ناخواندگی کی شرح میں اضافہ ہوتا رہےگا۔ (چرخہ فیچرس)