عربی زبان عصر حاضر کی زندہ اور عالمی زبانوں میں سے ایک ہے۔یہ بائیس عرب ممالک میں سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ لکھی پڑھی ، بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی چھٹی سرکاری زبان ہے۔ساڑھے چودہ سو سال قبل قرآن کریم کے نزول نے اسے خلود ودوام کی سند عطا کردی ہے۔ دیگر اسلامی ممالک میں یا جہاں جہاں مسلمان مقیم ہیں عربی دینی زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ہندوستان میں یہ زبان عرب فاتحین کے توسط سے وارد ہوئی۔ فاتحین آئے اوراہالیان ہند نے جب اسلام قبول کیاتو ان پر کم از کم نماز کی بہ وجہ اتم واکمل ادائیگی کے لیے قرآن کریم کی سورتوں کو یاد کرنا ضروری قرار پایا۔لہٰذا انھوں نے نہ صرف اسے یاد کرنے کا اہتمام کیا بلکہ اس کی تعلیم وتعلم کا بھی سلسلہ شروع کیا۔ مساجد میں اس کی تدریس کا آغاز کیا۔ مدرسے قائم کیے اور باضابطہ عربی زبان سیکھنے سکھانے کی ریت قائم ہوگئی۔ حفاظ بھی پیدا ہوئے اور علماء بھی۔وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے عہد کے با غیرت علماء نے عربی زبان اور اس کے ساتھ دینی تعلیم کو سکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ عجمیوں کو عربی سے آراستہ کیا۔ حفاظ کرام کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ علماء کی ایک جماعت اور ٹیم تیار ہوگئی۔ قرآنی علوم کے ماہرین پیدا ہوگئے۔ دینی تعلیم کے علماء سامنے آئے۔ چھوٹے چھوٹے مکاتب نے مدارس اور جامعات کی شکل اختیار کی اور ہندوستان میں دینی تعلیم اور عربی زبان کی تدریس کا وہ کام ہوا جس کی مثال بہت سارے عجمی ممالک پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
ہر دور اور ہر زمانے کے تقاضے کے مطابق اور حسب حیثیت علمائے کرام نے کام کیا۔ دینی تعلیم اور عربی زبان کی تدریس کے لیے مختلف مناہج کو مد نظر رکھ کر کتابیں لکھیں اور آنے والی نسلوں کو دین سکھایا،انھیں عربی زبان سے آشنا کیا۔ آج ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ زمانہ یکسر بدل گیا ہے۔ کہاں محمد بن قاسمؒ اور ان کے بعد کا سیدھا سادھا زمانہ، سیدھے سادھے لوگ؟ کہاں آج کا سائنسی دور۔ اس عرصے میں بے شمار زبانیں پیدا ہوئیں اور تاریخ کے پردے میں کہیں جاکر روپوش ہوگئیں، مٹ گئیں۔ ابھی کل کی بات ہے ہندوستان میں فارسی کا طوطی بولتا تھا مگر آج فارسی زبان ہندوستان میں ماضی کا حصہ بن گئی ہے یا کم از کم فی الحال یہ زبان حالت ِنزع میں ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق ماضی قریب میں سینکڑوں زبانیں ختم ہوگئیں اور بہت ساری زبانوں نے بولیوں کی شکل اختیار کرلی مگر قرآن کریم کے عربی میں نزول ِاجلال نے، رب العالمین کی ضمانت و صیانت نے دنیا کے مختلف گوشوں میں کسی نہ کسی شکل میں زبان عرب کو محفوظ ومامون رکھا ہے۔ زمانے کے تھپیڑے اسے ہلا نہ سکے۔نہ اس کی آن بان شان میں کوئی کمی لا سکے۔ یہ زبان ہر دور اور ہر زمانے میں پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ رہی اور آج بھی ہے۔ بھلے عربوں نے اپنے علاقائی لہجوں کے زیر اثر عربی کی فصیح زبان سے کسی حد تک رشتہ توڑلیا ہے مگر جب تک اسلام زندہ ہے اس زبان کے شیدائی عالم اسلام میں اس کا پرچم لہراتے رہیں گے۔ یہ زبان کل بھی تہذیب وثقافت کی زبان تھی۔ علم و ادب کی زبان تھی۔ تاریخ کی زبان تھی۔اسلام کی زبان تھی اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی ان شاء اللہ۔کیونکہ اس کے جیالے اور اس کے شیدائی، اس سے محبت کرنے والے اس کی تحفظ کے لیے ہر طرح کا جتن کرتے رہے گے۔
کوئی بھی زبان بچوں کو سکھانا ’کارے دارد والا‘ معاملہ ہے۔اور اگر یہ زبان ان کو سکھانے کی بات کی جائے جن کی یہ مادری زبان نہ ہو۔ جسے وہ بولتے نہ ہوں تو یہ’’ کار خیر‘‘جوئے شیر کے مترادف ہوجاتا ہے۔کسی عرب بچے کو عربی سکھانا کوئی بڑی بات نہیں۔ اسے ترجمے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کسی جملے یا کسی لفظ کا مطلب زبان سے نکلتے ہی اس کے دل ودماغ میں راسخ ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اس کی لفظیات سے واقف ہوتا ہے۔ اس کے معانی ومفاہیم سے متعارف ہوچکا ہوتا ہے لیکن کسی ایسے بچے کو عربی سکھانا ،جس کی زبان عربی نہ ہو، جو عربی کی ابجدیات سے واقف نہ ہو واقعی کارے دارد والا معاملہ ہے۔ ایسے لوگوں کو زبان سکھانے سے پہلے یہ سوال خود بخود معلم کا دماغ کھجانے لگتا ہے کہ انہیں وہ زبان سکھانے کے لیے کیا منہج اپنائے۔ کس اسلوب میں زبان سکھانے کی کوشش کرے۔ کیا میڈیم اختیار کرے۔پہلے زبان سکھائی جائے یا پہلے گرامر ۔ پہلے نحو پڑھایا جائے یاصرف۔ پڑھنے کے بعد لکھنا سکھایا جائے یا دونوں ساتھ ساتھ ۔وہ زبان اسی زبان میں سکھائی جائے یا اس طالب علم کی مادری زبان میں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن پر علمائے لسانیات نے بڑی ماتھا پچھی کی مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ کوئی متعین اصول وضوابط تک پہنچا نہیں جاسکا۔ ہر ایک نے اپنی صواب دید کے مطابق اپنی رائے دی ۔ ادھر مدارس ومکاتب کے ذمے داران نے اساتذہ پر جو کتاب اور جو اسلوب تدریس لاد دیا وہی وحی کی طرح مستلزم ہوگیا خواہ اس منہج کو وہ استادیا طالب علم متحمل ہو یا نہ ہو۔یہ مشق ومزاولت صرف عربی کے ساتھ نہیں کی گئی۔ یا صرف عربی کو ہی اس کا تختۂ مشق نہیں بنایا گیا بلکہ ہر زبان میں یہی حال رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریزی یا فرانسیسی زبانوں کے غیر انگریزی اور فرانسیسی داں حضرات نے زمانے کے تقاضوں کا جلدادراک کر لیا اور جدید ذہنوں کے لیے جدید طریقہائے تدریس کا انتخاب کیا۔ مسلمان تو ٹھہرے ہی پس ماندہ، بیک ورلڈ، دبے کچلے، فقر و غربت کے شکار۔ کسی سرکاری سرپرستی سے محروم۔خاص طور سے ہندوستان میں مگر وہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتے رہے اور اپنا فریضۂ منصبی ادا کرتے رہے۔ ہندوستان میں ہمارے مدارس اور دینی مکاتب میں بھی عربی اور دینی تعلیم کے نصاب میں وقتا فوقتا تبدیلی لائی جاتی رہی۔ مختلف اسلوب میں مختلف کتابیں لکھی جاتی رہیںاور مدارس میں پڑھائی جاتی رہیں۔غیر عربی داں حضرات کو عربی سکھانے کے سلسلے میں موجودہ زمانے میں کوششیں بہت تیز ہوئیں۔ ڈھیر ساری کتابیں لکھی گئیں۔ یہ الگ بات ہے کہ صاحبان مدارس اس میدان میں ذرا لکیر کے فقیر ہی رہے۔ انہوں نے عربی کو دینی تعلیم کے خول میں بند کرکے سکھایا۔ زبان سکھائی، بول چال پر دھیان نہیں دیا۔ ادب تو صرف متنبی و امرؤ القیس کے کچھ قصیدوں اور ابو تمام کے دیوان کی کچھ نظموں تک بحیثیت فرض کفایہ شامل نصاب رہا۔مدرسے کا فاضل عربی سمجھنے اور لکھنے پر قادر توہوا مگر بول چال میںاسے مہارت نہیں حاصل ہوئی۔ ادبیات سے تو ناواقف ہی رہا۔لیکن گذشتہ دو تین دہائی سے عصری جامعات میں عربی پر بحیثیت زبان زیادہ دھیان دیاگیا۔ ان جامعات سے وابستہ پروفیسروں نے نہ صرف جامعات کی اعلی تعلیم کی سطح پر عربی زبان یا عربی ادب کی تدریس کا خاکہ تیار کیا،کتابیں لکھیں، جدید مناہج کو مد نظر رکھ کر تعلیم پر دھیان دیا بلکہ اس میدان میں مدارس سے کہیں زیادہ نئے ہونے کے باوجود وہ مدرسوں پربازی لے گئے اور ان جامعات سے وابستہ اساتذہ نے عربی سکھانے کے لیے بہت ساری کتابیں لکھیں۔ مدارس میں پہلے منہاج العربیۃ، القراء ۃ الرشیدہ ،القراء ۃ الواضحہ ، معلم الانشاء، نحو میر، صرف میر، ہدایۃ النحو، شرح مائۃ عامل، میزان منشعب، پنج گنج، کتاب النحو اور کتاب الصرف جیسی کتابیں عربی زبان کی اساسیات کی تعلیم کے لیے پڑھائی جاتی تھیں مگر اب کئی اور کتابیں بالکل جدیدانداز میں لکھی گئی ہیں۔ ایسا اسلوب تدریس اختیار کیا گیاہے کہ زبان کے ساتھ ساتھ غیر شعوری طور پر صرف ونحو بھی طالب علم کے شانہ بشانہ چلتے نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں مدینہ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر میرے استاد گرامی قدر ڈاکٹر ف عبد الرحیم حفظہ اللہ کی کتاب ’’دروس اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بہا‘‘ کو اللہ رب العالمین نے جو مقبولیت عطا کی وہ کم ہی کتابوں کے نصیب میں آتی ہے۔ اس کتاب کے دو درجن سے زائد نقلی اور غیر نقلی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے علاوہ ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں یہ کتاب داخل نصاب ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے بھی جامعات کے اساتذہ کی ایک کمیٹی کے ذریعے ایک کتاب مرتب کرائی ہے جو اس سے منظور شدہ مراکز میں پڑھائی جاتی ہے۔ذاتی کوششوں کے طور پر بھی کئی اساتذہ نے کتابیں لکھیں۔ خود عرب ممالک کی مختلف یونیورسٹیوں میںبھی غیر عربی داں حضرات کو عربی سکھانے کے لیے بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں۔ ہندوستان میں جن لوگوں نے اس موضوع پر قابل ذکر کام کیااور عربی زبان سکھانے کے لیے کچھ الگ انداز میں سوچا اور لکھا ان میں شیخ شمیم احمد ریاضی اور شیخ محفوظ الرحمن خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ان دو مولفین نے تعلم اللغۃ العربیۃ للاطفال کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے۔ اگر ہندوستان میں علم وادب کی خدمات کے سلسلے میں کی جانے والی ذاتی اور انفرادی کوششوں کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ کتاب ایک کوشش نہیں معجزاتی کارنامہ ہے۔ ان دو فاضل مولفین نے عربی سکھانے والی کتابوں کی جانی پہچانی شاہراہوں سے ہٹ کراس کتاب کو مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کو دیکھ کرپہلی نظر میں ہندوستان کے بڑے بڑے انگریزی اسکولوں میں انگریزی سکھانے کے لیے لکھی گئی کتابوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ آکسفورڈ پریس اور دیگر مشہور انگریزی ناشرین کی وہ مطبوعات نظر کے سامنے آجاتی ہیں جو بچوںکو انگریزی سکھانے کے لیے مرتب کروائی گئی ہیں۔یہی اس کتاب کی سب سے پہلی خوبی اور معراج ہے۔اس کو دیکھ کرانسان محو حیرت ہوجاتا ہے کہ اس کے مولفین نے کس طرح اس کتاب کی اسکیم تیار کی۔ اس کا خطہ بنایااور بالکل آکسفورڈ کی کتابوں کی طرح، صوری اور معنوی اعتبار سے خوشنما انداز میں اسے مرتب کیا۔ اس موڈرن اسٹائل میں کتاب لکھنے سے قبل اس کی اسکیم بنانا، اس کا خطہ تیار کرنا بہت بڑے تجرے، مشاہدے اور علم کا متقاضی ہے۔جس کی جھلک کتاب میں نظر آتی ہے۔ اگر یہ بھی کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ کم از کم ہندوستان میں اس طرز پر عربی سکھانے کے لیے کوئی کتاب ابھی تک مرتب نہیں کی گئی ہے۔
اس کتاب کا پورا نام تعلم اللغۃ العربیۃ للأطفال ہے۔ یہ کل تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ تین جلدوںپر مشتمل ہے۔اور بالکل انگریزی کے اسلوب میں نرسری یعنی حضانۃ، ایل کے جی یعنی روضۃ الاطفال السفلی اور یو کے جی یعنی روضۃ الاطفال العلیامیں ان تین جلدوں کو تقسیم کیا گیا ہے۔ تیسرا حصہ پانچ جلدوں پر منقسم ہے۔الصف الاول سے لے کر الصف الخامس تک۔ ان دونوں حصوں کے درمیان جو دوسرا حصہ ہے اسے عربی لکھاوٹ سکھانے کے لیے خاص کیا گیا ہے۔ یہ حصہ حسب سابق پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔
انگریزی سکھانے والی کتابوں میں آج کل یہ اسلوب اپنایاجاتا ہے کہ اس کے لیے طالب علم کو الگ سے کاپی یا نوٹ بک رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کتاب سے طالب علم زبان بھی سیکھتا ہے اور پنسل کے ذریعے کتاب ہی میں لکھنابھی سیکھتا ہے اور لفظوں وتصویروںمیں رنگ بھرنا بھی ۔اس کا ایک کمرشیل فائدہ یہ ہے کہ ایک بار کتاب پڑھ لی گئی تو اس کی وراثت نہیں لگ سکتی۔ جس طرح ہمارے طلبہ اپنے سینئر ساتھیوں سے کتابیں اور مذکرات وراثت میں حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کتابوں میںلکھو پڑھوسیکھو اور پھینکو کا اصول اپنایا جاتاہے یعنی اگر ایک بار بچے نے کتاب پڑھ لی تو اس کے بعد آنے والا کوئی اور طالب علم اس سے استفادہ نہیں کرسکتا۔ یعنی اگر کسی اور کو اسی کتاب کے ذریعے عربی پڑھنی اور سیکھنی ہو تو اسے اس کتاب کا نیا نسخہ خریدنا پڑے گا۔ یعنی ہر سال ناشر یہ کتابیں شائع کرے گا اور اس کے خریدار سال بہ سال فکس رہیں گے۔ اس کی یہ تجارت ever green رہے گی۔یہ تجارتی نقطۂ نظر اس کتاب میں بھی جھلکتا ہے۔ لیکن مولف بے چارے کیاکریں جب یہی رواج عام ہوگیا ہے۔ یہی مزاج سکۂ رائج الوقت بن گیا ہے یہی طریقۂ تدریس حرف آخر بن گیا ہے تو پھر تقاضہ بھی یہی تھا کہ اس کتاب میں بھی اسی اسلوب کو ملحوظ خاطر رکھاجائے۔کتاب کے پہلے حصے کی تین جلدوںکو نرسری ، ایل کے جی اور یو کے جی کے لیے خاص کیا گیا ہے۔ان میں بچے کو مختلف اشکال وتصاویر کے ذریعے الفاظ کی شناخت اور لکھنے کی مشق کرائی جائے گی۔ یعنی طالب علم حروف کی شناخت بھی کرتا جائے گا ،لکھنا بھی سیکھتا جائے گااور ہر حرف سے متعلق الفاظ اور vocabularyکو بھی بڑھاتا جائے گا۔ لیکن یہ کام بڑی خاموشی سے تصویروں کے خول میں انجام پاتا ہے۔ان تینوں جلدوں میں حروف تہجی پر فوکس کیاگیا ہے۔ حروف تہجی کے ساتھ کچھ الفاظ بھی سکھائے گئے ہیں۔یہ کام فاضل مولفین نے بڑے دلکش اسلوب میں انجام دیا ہے کہ بچے کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ عربی لکھاوٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس حصے کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔عرب ممالک میںبچوں کو اسی طرز پر لکھاوٹ سکھائی جاتی ہے۔ میری نظر سے بھی اس طرح کی کئی کتابیں گذری ہیں۔ اس حصے کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں لکھاوٹ سکھانے کے بہانے املا کے قواعدکی بھی مشق پر دھیان دیا گیا ہے۔
رابطہ :صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں وکشمیر
�����