پروفیسر محمد اسداللہ وانی
راجندر پارک کے بیچوں بیچ ایک نہر بہتی ہے جس کے دونوں کناروں پر طرح طرح کے آرائشی پیڑاستادہ ہونے کےعلاوہ رنگ برنگے پھول کھلے ہوئےہیں۔ پارک میں جگہ جگہ فوارے لگے ہوئے ہیں جن کے ارد گرد سیلانیوں کے بیٹھنے کے لیے بینچ نصب کیے گئے ہیں۔ فواروں سے پانی کا بکھر بکھر کر سمٹنابہت ہی خوبصورت نظارہ پیش کررہا ہے۔
راجندر پارک، بازارکی بھیڑ بھاڑاور شور و غل سے الگ تھلگ تھوڑے سے فاصلے پرذراایک تنہا مقام ہےجہاں اگرچہ دن بھر کے کام کاج سے تھکے ماندے لوگ تفریح طبع اور سستانےکے لیے آتے ہیں لیکن ملنے جلنے والے حسین جوڑوں کا رُخ اس پارک کی طرف خصوصی طور پرکچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔
ماجد اور ساجد بچپن کے دوست تھےاور دونوں اس شہر کے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ بچپن سے دونوں ساتھ ساتھ پلے بڑھے،پروان چڑھے،تعلیم بھی ایک ساتھ حاصل کی اوراب بے کاری کے ایام بھی دونوں ایک ساتھ گزار رہے تھے۔ ان دونوں کے گھر ساتھ ساتھ تھےاوردونوں کے ہاں خوش حالی اور فارغ البالی تھی۔ ان کے گھروں میں قدیم اورجدید نظریات کے سنگم کی وجہ سے کوئی خاص اصول نہیں تھے۔ چنانچہ آزاد خیالی ہر شخص کا شعار تھا جس کا سب سے زیادہ فائدہ ماجداورساجداُٹھا رہے تھے ۔ لہٰذاتعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ہوٹلوں، کلبوں، کافی ہاؤسوں اورپارکوں کا طواف کرنا ان دونوں کا روز مرہ کا مشغلہ بن گیا تھا۔
ایک دن غروب ِآفتاب سے ذرا پہلے ہی ماجد اور ساجد راجندر پارک کی طرف آنکلے۔گرمی کی تمازت میں کافی کمی آگئی تھی۔پارک میں سیلانی اِدھراُدھرٹہل رہے تھے ۔کہیں کہیں حسین جوڑے پیڑوں کے نیچےرنگ برنگے پھولوں کے درمیان سرگوشیوں میں محو تھے۔ ماجد اورساجد ان مختلف مناظر سے لطف اندوزہوتے ہوئے دورنکل گئے۔ اتنے میں یکبارگی ماجد کی نگاہیں پارک کے بیچوں بیچ مچلتی، بل کھاتی، بہتی ہوئی نہر کے دوسرے کنارے پر ایک کونے کی جانب اُٹھ گئیں جہاں ایک فوارے کے قریب اُس نے دولڑکیوں اوردولڑکوں کو دیکھاجوچلوؤں میں پانی بھربھرکے ایک دوسرے پرپھینک رہے تھے۔
ماجد نے ساجد کا ہاتھ دباتے ہوئے فوارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ساجد وہ دیکھو “مال”
ساجد نےفوارے کے قریب ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہوئے لڑکیوں اور لڑکوں کو دیکھ کر کہا۔
واہ !ساجد واہ!کیا خوب مال ہے ایک دم کشمیری۔ ساجد نے اُس جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا،یار ماجد! چلو نزدیک جاکراپنی آنکھیں ٹھنڈی کرلیں اوردل کا غبار بھی ذ راہلکا کریں۔ یہ حسین اور رومان پرور ماحول، خوبصورت مال اور شام کا دھندلکا۔واہ کیا بات ہے؟
کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟ساجد نے رومانی انداز میں کہا اور وہ دونوں اُس فوارے کی طرف چل دِیےجہاں وہ لڑکیاں اور لڑکے ایک دوسرے پر پانی پھینک رہے تھے ۔یہ دونوں ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ اُن لڑکیوں نے اپنےاپنے برقعے اوڑھے اوراپنے ساتھی لڑکوں کےساتھ پارک کے دوسرے کنارے سے باہرکی طرف نکلنے والے راستے پر گیٹ کی جانب تیزقدموں سےچلنا شروع کیا۔
اتنے میں ماجد نے ساجد کے شانے پرزورسے ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
ارے کم بخت وہ دیکھو مال تو ہاتھ سے نکل رہاہے۔
ہاں یار، ہاں، چلو ہم بھی ادھر ہی چلتےہیں ،ساجد نے کہا
ماجد نےتیزقدم اٹھاتے ہوئےلڑکیوں پر پنجابی میں آوازکستے ہوئےکہا
“او سوہنیو”ساڈے وَل وی ویکھو۔ کسے نے سچ ای آکھیا اے
“رَناں والیاں دے پکن پرونٹھے تے چھڑیاں دی اَگ نہ بلے”
ماجد کی یہ بات سنتے ہی لڑکیوں نے اپنی رفتار تیز کردی۔ انھوں نے پارک سے باہرنکل کر اپنے ساتھی لڑکوں کوہاتھ کے اشارے سے الودع کہا اورجلدی سےایک ٹیکسی میں بیٹھ کر شہر کی طرف چل دیں۔
اسی اثنا میں ماجد اور ساجد بھی پارک سے باہر آگئےاور لڑکیوں کے تعاقب میں ایک ٹیکسی کا میٹرڈاؤن کرکے اُس میں بیٹھ گئے۔انھوں نے ٹیکسی ڈرائیورکولڑکیوں والی ٹیکسی کے پیچھے پیچھے چلنے کو کہا۔لڑکیوں کی ٹیکسی شہرمیں داخل ہونے کے بعد ایک موڑ پر رُکی اوروہ ٹیکسی سےاُترکرایک محلے کی گلی میں داخل ہو گئیں۔ جب وہ ایک مکان کے دروازے پرنقاب اُلٹ کردستک دینے لگیں تو اُس وقت تک امجداور ساجد بھی گلی کے نکّڑپرپہنچ گئے۔
جوں ہی ماجد اور ساجد کی نظریں لڑکیوں پرپڑیں تو اُن پرسکتہ طاری ہوگیا۔
نقاب اُلٹ کر دروازے پر دستک دے رہی لڑکیاں امجد اور ساجد کی بہنیں نجمہ اور سعیده تھیں۔
���
جموں،موبائل نمبر؛9419194261