برماکے ارکان خطے میں مقیم روہنگیائی مسلمانوں پر برمی فوجیوں کی جانب سے ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جانے کی خلاف ساری دُنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے اور سوشل میڈیا کے توسط سے خون کے آنسو رُلانے والی جو تصاویر اور ویڈیو سامنے آئے ہیں، انہیں دیکھ کر وحشیانہ پن کے حقیقی مفاہم کا ادراک ہوتا ہے کہ جب انسان انسانی اقدار کو ترک کرتا ہے تو وحوش بھی شرمسار ہوجاتے ہیں۔ فی الوقت ڈیڑھ لاکھ کے قریب روہنگیائی لوگ فوجی تشدد سے بچنے کے لئے اراکان صوبہ سے متصل بنگلہ دیشی سرحد کے قرب و جوار میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں سے وہ سرحد عبور کرکے اپنی جانین بچانے کئے لئے متفکر ہیں لیکن انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں مل رہی ہے۔ برما کے اراکان صوبے میں مسلمان چھ سو برسوں سے آباد ہیں اور انگریزوں کی طرف سے 1938میں برما کو آزاد کئے جانے کے بعد برمی حکومت نے خطہ اراکان کی خودمختاری کو ختم کرکے اس علاقہ کو ضم کرکے مسلمانوں کے انخلاء کی مہم شروع کردی، جو جب سے جاری ہے۔ گزشتہ پون صدی کے عرصہ میں انہیں رفتہ رفتہ تمام شہری حقوق سے محروم کرکے غیر ملکی درانداز جتلایا گیا اور سرکاری تشدد سے بچنے کے لئے وقفوں وقفوں کے ساتھ انکی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا۔1982ء میں روہنگیائی مسلمانوں کو شہریت کے حقوق سے یکسر محروم کرنے کے بعد انکی آبادی گھٹا نے کے لئے انکی شادی کی عمر 25 اور 30 برس کی گئی بلکہ شادی کرنے کے لئے بھی حکومت سے پیشگی اجازت کی طلبی ضروری قرار دی گئی۔ اسی طرح ان کی زمینیں اور جائدادیں چھین کر انہیں اقتصادی طور پر بے یار و مدد گار کردیا گیا۔ اس پالیسی کے نتیجہ میں خطہ سے بڑے پیمانے پر مہاجرت کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا اور لاکھوں لوگ اپنی جان بچا کر بنگلہ دیش و بھارت کے علاوہ تھائی لینڈ اور کچھ عرب ممالک میں بطور مہاجرین منتقل ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے انکی مہاجرت کی رجسٹریشن تو کی ہے لیکن کچھ ممالک اس رجسٹریشن کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، جبکہ بھارت میں بھی اس وقت مقیم روہنگیائی مہاجرین کو واپس بھیجنے کی پالیسی کے تار و پود تیار کئے جارہے ہیں اور حکومت ہند کا یہ ماننا ہے کہ وہ مہاجرین نہیں بلکہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں، لہذٰ انہیں واپس بھیجنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہورہا ہے جب ساری دنیا میں روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے ظلم و تشدد پر ہیجان میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے کیونکہ اس صورتحال سے علاقہ میں مذاحمتی تشدد برپا ہونے کے شدید خطرات درپیش ہیں۔ چونکہ ترکی اور ایران نے اقوام متحدہ سے یہ مظالم بند کروانے پر زور دیتے ہوئے خبر دار کیا ہے کہ وہ تشدد بند نہ ہونے کی صورت میں سرحدیں عبور کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں، اس وجہ سے بھی خطہ میں صورتحال مذید کشیدہ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگر چہ مختلف ممالک اور اقوام متحدہ کی جانب سے برمی حکومت سے اپیلیں کی گئی ہیں لیکن وہاں کی فوجی قیادت ان اپیلوں کو درخور اعتناء سمجھنے کے لئے تیار نہیں بلکہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مظالم کی نئی نئی صورتیں سامنے آرہی ہیں، جن میں معصوم بچوں، بوڑھے بزرگوں اور بے کس خواتین تک کو نہیں بخشا جاتا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو مظالم کی یہ نئی داستان دنیا کے دیگر جنگ زدہ علاقوں میں دہرائے جانے کے خدشات ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ روہنگیائی مہاجرین کی کچھ تعداد جموں و کشمیر میں بھی مقیم ہے اور اب تک انہیں عوامی حلقوں کی جانب سے معقول پذیرائی حاصل رہی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے جموں کے کچھ علاقوں میں ان مہاجرین کے خلاف ماحول گرم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور کچھ انتہا پسند گرپوں کی جانب سے اس انسانی مسئلے کو مقامی مسائل کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں کر کے فرقہ وارانہ رنگت دینے کی سعی کی جارہی ہے۔ ریاستی حکومت کو چاہئے کہ وہ فراخ دلی کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لے کر ایسی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دے اور ریاست میں مقیم ان مظلوموں کے تحفظ کی ہر ممکن کوشش کرے۔