وزیراعظم نریندر مودی تین فروری کو ریاست جموں و کشمیر کے طوفانی دورے پر پہنچے ۔انہو ں نے پہلے ہی کے اعلان شدہ کئی اہم اور بڑے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور ریاست کی ترقی اورخوشحالی کیلئے ہر طرح کی معاونت کا وعد ہ بھی کیا ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کو جہاں یہ توقع تھی کہ وہ کشمیر کے نوجوانوں کی ناراضگی اور اشتعال کو کم کرنے کے لئے کو ئی پہل ضرور کریں گے وہاں وہ یہ بھی اندازہ کررہے تھے کہ وزیر اعظم اس بار اپنے ہمسایہ ملک کیخلاف انتہائی تند اور ترش لہجہ اختیار کریں گے کیونکہ انتخابات سر پر ہیںاور ان کی جیب میں دوہی کارڈ ہیں ایک رام مندر اور دوسرا کشمیر لیکن انہوں نے بہت محتاط الفاظ کے ساتھ کہاکہ سرحدوں پر اشتعال انگیزی کا منہ توڑ جواب دیا جارہا ہے ۔ انہوں نے سرجیکل سٹرائیک کی بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہم نے اپنی پالیسی کو پہلے ہی واضح کردیا ہے ۔ انہوں نے یہ احتیاط کیوں برتی، وہی جانتے ہیں تاہم جب انہوں نے کہا کہ ہم ملی ٹنسی کی کمر توڑ کے رکھ دیں گے تو ان کا مخاطب کشمیر کا ہی نوجوان تھا جو اس حد تک خفا ہے کہ اس کے ہاتھوں سے قلم چھوٹ کر بندوق آگئی ہے ۔ ریاست کے گورنر صاحب اُسے واپس لانے کے لئے باز آبادکاری کا منصوبہ بنارہے ہیں لیکن وزیر اعظم اس سے مختلف سوچ اور اپروچ کا اظہار کررہے ہیں ۔ملی ٹینسی کے خلاف کافی عرصے سے فوج اورنیم فوجی دستوں کا آپریشن چل رہا ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ سال کے اختتام تک ڈھائی سو کے قریب جنگجومارے گئے جن میں اعلیٰ کمانڈر بھی شامل ہیں لیکن جیسا کہ خود فوج کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ اسی سال ایک سو انیس نوجوان جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوئے ۔یہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہیں کہ ملی ٹینسی کو فوجی آپریشنوں کے ذریعے ختم کرنا اتنا مشکل اور طویل عمل ہے کہ اس کے دوران ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں جو ملی ٹینسی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں جیسا کہ گزشتہ سال میں ہی دیکھنے میں آیا کہ نوجوانوں کی نہتے ہاتھوں سے مزاحمت کی شدت نے فوج کیلئے ملی ٹینسی مخالف آپریشن بھی مشکل بنادئیے ۔ایسا لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم اور ریاستی حکومت نے اس دورے کیلئے کشمیر کی صورتحال کے تناظر میں سنجیدہ سوچ بچار کے ساتھ لائحہ عمل مرتب نہیں کیا تھا ۔نہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو ایس کے آئی سی سی میں بلایا گیا تھا اور نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کیلئے کوئی ٹھوس اقدام کیا گیا تھا ۔ کشمیر کی ویران شاہرائوں سے گزرتے ہوئے اور ڈل جھیل کی سیر کے دوران سفیدے اور چنار کے درختوں کے علاوہ برف پوش پہاڑیوں کے سامنے ہاتھ ہلاتے ہوئے وزیر اعظم کو وہ دن ضرور یاد آیا ہوگا جب شیر کشمیر کرکٹ سٹیڈیم میں لوگوں کا جم غفیر ان کے استقبال کے لئے موجود تھا ۔ مرحوم مفتی محمد سعید ان کے ساتھ کھڑے تھے مگر اسی جلسے میں انہوں نے مفتی صاحب کو بھی مایوسیوں کا گلدستہ تھما دیا ۔اُس وقت بھی وزیر اعظم کی سوچ وہی تھی جو آج ہے اور اسی سوچ نے آج انہیں کشمیر میں تنہا کردیا تھا ۔قومی دھارے کی قیادت بھی ان سے ملنے کے لئے نہیں پہنچی اور ان کے ارد گرد وہی لوگ تھے جو نئی دہلی کے اقتدار کے دست وبازو ہیں ۔کشمیر میں برہان وانی بھی ایک سچائی ہے اور نذیر احمد وانی بھی لیکن ملک کا سربراہ جب دونوں کی تقسیم پر فوکس کرے گا تو نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔کشمیر ہمیشہ دو انتہائوں کے پلڑوں میں ڈولتا رہے گا ۔برہان وانی بھی کشمیر کا ہی باشندہ تھا اور نذیر احمد وانی بھی۔جن حالات نے برہان وانی کو برہان وانی بنایا اور نذیر احمد وانی کو نذیر احمد وانی بنایا، ان کی گہرائیوں میں اتر کر معلوم ہوگا کہ وہی اپروچ اور وہی سوچ برہان وانی پیدا کرتا ہے جو آج بھی نئی دہلی کی پالیسیوں کا سرچشمہ ہے ۔وزیر اعظم حالیہ پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات میں ووٹوں کی مجموعی فیصد پر اطمینان کا اظہار کرکے غلط نہیں کررہے ہیں لیکن وہ اس بات کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں کہ ریاست کے ایک خطے میں پولنگ کی مجموعی شرح چند فیصد سے زیادہ نہیں تھی اور یہی خطہ حالات کے اعتبار سے بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہے اور سیاسی اعتبار سے بھی۔اس خطے کو نظر انداز کرکے یا کچل کر پولنگ کی شرح میں اضافہ تو نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ اس خطے کی ناراضگی دور کرکے ایسا ضرور کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے ایسے اپروچ اور ایسی سوچ کی ضرورت ہے جو اٹل بہاری واجپائی نے اختیار کی تھی اور یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ اس سوچ اوراس اپروچ کو غارت کرکے وزیر اعظم انہی کے نقش قدم اختیار کرنے کا دعویٰ بھی کررہے ہیں ۔اٹل بہاری واجپائی دہائیوں سے ریاست جموں و کشمیر کے ہر تغیر و تبدل کو دیکھ بھی رہے تھے اور بہتر طور پر سمجھ بھی رہے تھے ۔انہیں غصہ اس بات پر قطعی نہیں تھا کہ کشمیر کے نوجوانوں نے بندوق ہاتھ میں کیوں اٹھائی۔ انہیں افسوس اس بات پر تھا کہ ہم نے انہیں یہاں تک کیوں پہنچایا ۔
زیادہ مدت نہیں گزری جب ہندوستان کا ایک سرکردہ لیڈر، جو کبھی بی جے پی کا اہم رکن تھا، ایک روز بارہمولہ کی طرف کسی دوست سے ملنے جارہا تھا ۔ ہڑتال تھی اور سڑکوں پر الو بول رہے تھے۔ کہیں کہیں کوئی پرائیویٹ گاڑی چلتی ہوئی نظر آرہی تھی ۔ بارہمولہ پہنچے کر اس نے بڑی بڑ ی پتھر کی چٹانوں ، دکانوں کے شٹروں ، درختوں کے تنوں اور دیواروں پر لکھا ہوا دیکھا’’ go india go back‘‘ تو اس نے اپنے کشمیر ی ساتھی سے پوچھا ۔ دوست :یہ وہی جگہ ہے نا جہاں شیروانی کو کیلیں ٹھونک کر مار ڈالا گیا تھا ۔ساتھی نے کہا ’’ ہاں ۔ یہی وہ جگہ ہے ‘‘۔واجپائی نے یہ کہانی پڑھی نہیں تھی بلکہ خود اس کا مشاہدہ کیا تھا ۔اس لئے وہ بس میں بیٹھ کر لاہور پہنچاتھا اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ایک سمجھوتے پر متفق بھی ہوا تھا ۔لیکن افسوس کہ کرگل جنگ نے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ۔آج جب پاکستان میں یوم کشمیر بڑے پیمانے پر منایا جارہا ہے تو مسلم لیگ (ن)کے ایک لیڈر،جو اس وقت وزیر تھے، نے یہ بات دہرائی کہ جنرل پرویز مشرف نے کرگل جنگ اس وقت شروع کی جب حکومت مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ سمجھوتے پر دستخط کرنے والی تھی ۔ حکومت اس بات سے بالکل بے خبر تھی کہ آرمی چیف نے کرگل منصوبہ کیوں اورکب شروع کیا ۔ وہ نواز حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہتے تھے اور جب خود برسر اقتدار آئے تو مسئلہ کشمیر حل کرنے کا کریڈٹ لینے کے لئے وہ چار نکاتی فامولا پیش کیا جو اس معاہدے کے مقابلے میں پاکستان کے مفادات کے خلاف تھا جو نواز شریف اور واجپائی کے درمیان طے پایا تھا ۔بہر حال یہ ماضی کا قصہ ہے ۔ اس وقت جہاں ہندوستان میں اٹل بہاری واجپائی صرف استعمال کا نام رہ گیا ہے اور کشمیر کے بارے میں ان کی سوچ کے برخلاف پالیسیاں بھی بن رہی ہیں اور طریقہ کار بھی اس کے برعکس وضع ہورہا ہے ۔دور جاتے ہوئے کشمیر کو واپس لانے کے بجائے اور زیادہ دور کرنے کے طریقے اپنائے جارہے ہیں اور پاکستان میں بھی اسی طرح سوچ کے دو الگ الگ دھارے ایک دوسرے سے ٹکرارہے ہیں ۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے زیر اہتمام ہونے والی قومی کشمیر کانفرنس میں مقررین کا اس بات پر تقریباً اتفاق تھا کہ موجودہ دور میں اسی طرح سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا جارہا ہے جس طرح جنرل مشرف کے دور میں پہنچایا جارہا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ بدتر صورتحال ہے ۔ مولانا فضل الرحمان، جو کشمیر کمیٹی کے چیرمین رہ چکے ہیں ،کا بھی یہی کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کشمیر کاز کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ منتہائے مقصد یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کشمیر معاملے میں مفاہمت کا رویہ اختیار کررہی ہے۔ وہ مفاہمت نہیں چاہتے پھر کیا چاہتے ہیں ،اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پاکستان میں اگر اقتدار کے ایوان مفاہمت چاہتے ہیں تو ہندو ستان میں اقتدار کے ایوان مفاہمت کے دروازے بند کررہے ہیں ۔ وقتاً فوقتاً یہی ہوتا رہا ۔ کبھی پاکستان کی حکومت مفاہمت کی روادار تھی مگر بھارت کی حکومت مفاہمت نہیں چاہتی تھی تو کبھی اس کا الٹ تھا ۔ بیچ بیچ میں کچھ وقت کے لئے دونوں طرف سے مفاہمت کا رویہ ابھرتا تھا لیکن ایسے وقتوں میں برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگوں کی بدقسمتی سے کسی نہ کسی وجہ سے بات بنتے بنتے بگڑ جاتی تھی ۔
بشکر یہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر