سیّد آصف رضا
(ناربل)
کشمیر کو ”پیر وار“ یعنی ”سرزمینِ اولیاءؒ“کے نام سے جانا جاتا ہے ۔یہاں اسلام تلوار سے نہیں بلکہ صوفیاء کرامؒ کی کوششوں سے پھیلا جس کی ابتداء سہروردی سلسلۂ تصوّف سے منسلک حضرت سید عبد الرحمٰن المعروف بلبل شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی اور پھر حضرت امیر کبیر میر سیّد علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھ سات سو سادات کرام کی محنت سے یہاں کی اکثریت دولتِ اسلام سے مالامال ہوئی۔ وادی میں قریہ قریہ اولیاء کرامؒ سے منسوب زیارات اس کا بات کا بین ثبوت ہے کہ انہی بزرگانِ دین کی محنت سے ہی یہ سرزمین توحید کےنور سے منوّرہوئی۔
ڈاکٹر سید محمد فاروق بخاری (وفات: 1997ء) لکھتے ہیں:
”کشمیر …….یہاں اسلام کسی حاکم کی تلوار کے زور سے نہیں پھیلا بلکہ یہ اُن مبلغین اسلام کی کاوش کا نتیجہ ہے جو علم سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ متصوّفانہ افکار و خیالات کے مالک بھی تھے اور یہیں اِن مبلغوں میں ایک بھی ایسا نہیں ملتا جو روحانی زندگی سے مناسبت نہ رکھتا ہو بلکہ یہ سب حضرات شریعت کا جام ایک ہاتھ میں اور سندانِ عشق دوسرے ہاتھ لئے وارد ہوئے تھے۔ انہوں نے شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت کا بھی درس دیا۔ اُن کی حکمت مقبول ہوئی اور ہزاروں غیر مسلم بصدقِ دل دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ صوفیاء کرامؒ کے اِس طرزِ عمل سے اسلام پھیلنے میں بڑی سُرعت واقع ہوئی کیونکہ کشمیر میں بدھ مت اور فلسفۂ ویدانت نے صوفیاءؒ کو بڑی مدد دے دی۔ وہ جس عمارت کو یہاں بلند کرنا چاہتے تھے اس کے لئے میدان ہموار تھا۔ ریاضات، مجاہدات، عرفانِ نفس، تعین ذات، چلہ کشی، دنیا وما فیھا سے بے نیازی پر مختلف رنگ و روپ میں عمل ہوتا تھا۔ صوفیاءِ کرامؒ نے انہیں اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔“
(علمائے کشمیر کا شاندار ماضی، صفحہ: 55-54)
کچھ عرصہ سے یہاں کی سرزمین بھی ”تصوّف مخالفانہ“ سوچ کی وجہ سےزہر آلود ہورہی ہے اور یہ مخالفینِ تصوّف آئے روز ذرائع ابلاغ و اجتماعات کے ذریعہ تصوّف مخالف رجحان کو بڑھاوا دے رہےہیں۔ ان کی مجروح کرنے والی تحریریں اخبارات و سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔یہاں محترم عقیل قریشی کے مضمون ”ہمارا المیہ“ سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے جس میں موصوف نے تصوف کے حوالہ سے ہمارے رویےکا جس طریقے سے اظہار کیا ہے ،وہ چشم کشا ہونا چاہیے:
”ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بعض علماء و مشائخ نے اوائل عمر میں علم دانی کے جوش میں آکر تصوّف کی ضرور مخالفت کی لیکن بعد میں ان کو حقیقت سے آگاہی ہوئی تو نہ صرف تصوف کو عین اسلام ثابت کیا بلکہ اس پر عمل پیرا ہو کر مراتب قرب یعنی فنا فی اللہ اور بقا با للہ تک رسائی حاصل کی۔ ان حضرات میں مولانا جلال الدّین رومیؒ، حضرت امام غزالی ؒ،حضرت امام احمد بن حنبلؒ ،حافظ ابن قیم جو امام ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں اور خود امام ابن تیمیہ، ابن جوزی، قاضی شوکانی یمنی ،شاہ اسماعیل شہید اور علمائے دیوبند شامل ہیں۔ان حضرات نے ابتدائی عمر میں تصوف کی مخالفت کی لیکن آخر حقیقت حال سے آگاہ ہوئے اور پھر تصوف کی حمایت میں کتابیں لکھیں لیکن افسوس ہے کہ ظاہر بین حضرات ان بزرگوں کی اوائل عمر کی تصانیف کا مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن اواخر عمر کی تصانیف پڑھنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے۔مثال کے طور پر ابن جوزی تصوف کے شدید ترین مخالف سمجھے جاتے ہیں اور تصوف کی مخالفت میں ان کی ابتدائی کتاب ”تلبیس ابلیس“ پیش کی جاتی ہے لیکن ان کی آخری عمر کی کتاب” صفوۃ الصفوۂ“ کو کوئی نہیں دیکھتا جس میں تصوف کی حمایت کی گئی ہے۔اسی طرح حافظ ابن قیم کی سابقہ عمر کی کتابوں کو دیکھا جاتا ہے لیکن آخری عمر کی کتب”الفوائد“ ،”مدارج السالکین“ او”کتاب الروح“ کو کوئی نہیں دیکھتا ۔اسی طرح شاہ اسماعیل شہید کی ابتدائی کتاب” تقویۃ الایمان“ کو مخالفین تصوف پیش کرتے ہیں ،لیکن انکی آخری عمر کی کتاب”صراط مستقیم“ اور”عبقات“ کو نظر انداز کرتے ہیںجو علم اور وحدت الوجود سے لبریز ہیں۔اسی طرح امام ابن تیمیہ کی اوائل عمرکی کتابوں میں اگرچہ تصوف کی مخالفت ہے آخری عمر کی کتابوں میں آپ نے مقدمین صوفیاء کی تائید اور تعریف فرمائی ہے۔نیز یہ بات بھی اب پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ امام ابن تیمیہ سلسلہ قادریہ سے منسلک تھے اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے ایک خلیفہ کے مرید تھے۔“۔۔۔۔(یہ مضمون انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔)
مشہور محقق اور شارحِ کلام اقبالؒ پروفیسر یوسف سلیم چستی (پ: 1895ء/ م: 1984ء) اپنی تصنیف ”تاریخِ تصوف“ میں تصوف کے معترضین کو اس طرح سمجھاتے ہیں:
”جو تصوف مسلمانوں میں شائع ہوا، اس کی دو قسمیں ہیں:
(۱) اسلامی تصوف جو قرآن و حدیث اور آثار صحابہ ؓ سے ماخوذ ہے۔
(۲) غیر اسلامی تصوف جسے اُس بوتل سے تشبیہ دے سکتے ہیں جس کے لیبل پر شربت گلاب لکھاہوا ہو مگر اندر بنگ و افیون بھرا ہوا ہو۔
بدقسمتی سے تصوف مخالفین نے (جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں برابر کے شریک ہیں) اسلامی تصوف پر اعتراض کرتے وقت غیر اسلامی تصوف کو مدّنظر رکھا اور اس طرح حق و صداقت ہی کا خون نہیں کیا بلکہ لاکھوں مسلمانوں کو تصوف کی برکات سے محروم رکھا۔ ان نادان دوستوں نے قبائح تو مدنظر رکھے غیر اسلامی تصوف کے اور ہدف بنایا اسلامی تصوف کو۔ تصوف سے بدظن کرنے کے لئے ان حق ناشناسوں نے تصوف کی اسلامی اور غیر اسلامی قسم کو یکسر نظر انداز کر دیا۔……..“
آگے لکھتے ہیں:۔
”…… میں ….. تصوف کے معترضین سے کہتا ہوں کہ آپ صاحبان کے جملہ اعتراضات غیر اسلامی تصوف (تصوف کے غیر اسلامی ٹائپ) پر تو بالکل بجا اور درست ہیں مگر دنیا میں ایک تصوف ایسا بھی ہے جو آپ کے اعتراضات کا ہدف نہیں بن سکتا اور وہ ہے اسلامی تصوف جو سراسر قرآن و حدیث و اُسوۂ رسول اللہ ﷺ اور اُسوۂ صحابہؓ سے ماخوذ ہے۔“۔۔۔(تاریخِ تصوّف، ص ۱۰۳۔۱۰۲، ۱۰۰)
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی(پ:1903ء/م: 1979ء) ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں:
”تصوف کسی ایک چیز کا نام نہیں ہے بلکہ بہت سی مختلف چیزیں اس نام سے موسوم ہوگئی ہیں۔ جس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں وہ اور چیز ہے جس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں، وہ ایک دوسری چیز اور جس تصوف کی ہم اصلاح چاہتے ہیں وہ ایک تیسری چیز۔ ایک تصوف وہ ہے جو اسلام کے ابتدائی دور کے صوفیا میں پایا جاتا تھا۔ مثلاً فضیل بن عیاض، ابراہم ادہم، معروف کرخی وغیرہم (رحمہم اللہ)۔ اس کا کوئی الگ فلسفہ نہ تھا، اس کا کوئی الگ طریقہ نہ تھا۔ وہی افکار اور وہی اشغال و اعمال تھے جو کتاب و سنت سے ماخوذ تھے اور ان سب کا وہی مقصود تھا جو اسلام کا مقصود تھا یعنی اخلاص للہ اور توجہ الیٰ اللہ۔وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ۔ اس تصوف کی ہم تصدیق کرتے ہیں اور صرف تصدیق ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو زندہ اور شائع کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا تصوف وہ ہے جس میں اشراقی اور رواقی اور زردشتی اور ویدانتی فلسفوں کی آمیزش ہوگئی ہے۔ جس میں عیسائی راہبوں اورہندو جوگیوں کے طریقے شامل ہوگئے ہیں جس میں مشرکانہ تخیلات و اعمال تک خلط ملط ہوگئے ہیں۔ جس میں شریعت اور طریقت اور معرفت الگ الگ چیزیں… ایک دوسرے سےکم و بیش بے تعلق، بلکہ اوقات باہم متضاد… بن گئی ہیں۔ جس میں انسان کو خلیفۃ اللہ فی الارض کے فرائض کی انجام دہی کے لیے تیار کرنے کی بجائے اس سے بالکل مختلف دوسرے کاموں کے لیے تیار کیاجاتا ہے۔ اس تصوف کی ہم تردید کرتے ہیں اور ہمارے نزدیک اس کو مٹانا خدا کے دین کو قائم کرنے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جاہلیت جدیدہ کو مٹانا۔ ان دونوں کے علاوہ ایک اور تصوف بھی ہے جس میں کچھ خصوصیات پہلی قسم کے تصوف کی اور کچھ خصوصیات دوسری قسم کے تصوف کی ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اس تصوف کے طریقوں کو متعدد ایسے بزرگوں نے مرتب کیا ہے جو صاحب علم تھے، نیک نیت تھے مگر اپنے دور کی خصوصیات اور پچھلے ادوار کے اثرات سے بالکل محفوظ بھی نہ تھے۔ انہوں نے اسلام کے اصلی تصوف کوسمجھنے اور اس کے طریقوں کو جاہلی تصوف کی آلودگیوں سے پاک کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس کے باوجود ان کے نظریات میں کچھ نہ کچھ اثر جاہلی فلسفہ تصوف کے اور ان کے اعمال و اشغال میں کچھ نہ کچھ اثرات باہر سے لیے ہوئے اعمال و اشغال کے باقی رہ گئے، جن کے بارے میں ان کو یہ اشتباہ پیش آیا کہ یہ چیزیں کتاب و سنت کی تعلیم سے متصادم نہیں ہیں۔ یا کم از کم تاویل سے انہیں غیر متصادم سمجھا جاسکتا ہے۔علاوہ بریں اس تصوف کے مقاصد اور نتائج بھی اسلام کے مقصد اور اس کے مطلوبہ نتائج سے کم و بیش مختلف ہیں۔ نہ اس کا مقصد واضح طور پر انسان کو فرائض خلافت کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور وہ چیز بنانا ہے جسے قرآن مجید نے لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاس کے الفاظ میں بیان کیا ہے اورنہ اس کا نتیجہ ہی یہ ہوسکا ہے کہ اس کے ذریعے سے ایسے آدمی تیار ہوتے جو دین کے پورے تصور کو سمجھتے اور اس کی اقامت کی فکر انہیں لاحق ہوتی اور وہ اس کام کو انجام دینے کے اہل بھی ہوتے۔ اس تیسری قسم کے تصوف کی نہ ہم کلی تصدیق کرتے ہیں اور نہ کلی تردید۔ بلکہ اس کے پیروؤں اور حامیوں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ براہِ کرم بڑی بڑی شخصیتوں کی عقیدت کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے آپ اس تصوف پر کتاب و سنت کی روشنی میں تنقیدی نگاہ ڈالیں اور اسے درست کرنے کی کوشش کریں۔ نیز جو شخص اس تصوف کی کسی چیز سے اس بنا پر اختلاف کرے کہ وہ اسے کتاب و سنت کے خلاف پاتا ہے تو قطع نظر اس سے کہ آپ اس کی رائے سے موافقت کریں یا مخالفت، بہرحال اس کے حق تنقید کا انکار نہ فرمائیں اور اسے خواہ مخواہ نشانہ ملامت نہ بنانے لگیں۔“۔۔(ترجمان القرآن، فروری 1952ء، بحوالہ رسائل و مسائل )
مولانا ابو الکلام آزاد(پ: 1888ء/م: 1958ء) سورۃ الانعام کی آیت مبارکہ ۱۲۰ کی تفسیر میں تصوف کے بارے میں لکھتے ہیں:
”ظاہری گناہوں میں وہ گناہ بھی داخل ہیں جو انسان اپنے ظاہری اعضاء سے کرے، مثلاً جھوٹ، غیبت، دھوکا، رشوت، شراب نوشی، زنا وغیرہ، اور باطنی گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جن کا تعلق دل سے ہوتا ہے مثلاً حسد، ریا کاری، تکبر، بغض، دوسروں کی بد خواہی وغیرہ، پہلی قسم کے گناہوں کا بیان فقہ کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم وتربیت فقہاء سے حاصل کی جاتی ہے اور دوسری قسم کے گناہوں کا بیان تصوف اور احسان کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم وتربیت کے لئے مشائخ سے رجوع کیا جاتا ہے، تصوف کی اصل حقیقت یہی ہے کہ باطن کے ان گناہوں سے بچنے کے لئے کسی رہنما سے رجوع کیا جائے افسوس ہے کہ تصوف کی اس حقیقت کو بھلا کر بہت سے لوگوں نے بدعات وخرافات کا نام تصوف رکھ لیا ہے۔“
مکتبہ فکر اہلحدیث سے تعلق رکھنے والے مولانا عبد المجید سوہدروی صاحب (پ: 1901ء/م: 1959ء) نے ”کرامات اہلحدیث“ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں مولانا موصوف نے بہت سے علماء اہلحدیث کی ”کرامات“ کو جمع کیا ہے۔ اس کتاب میں ”تصوف“ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
”ائمہ حدیث نے جس حدیث کو”ام الاحادیث“ یا ”ام الجوامع“ کے نام سے تعبیر کیا ہے،اس میں مذکور ہے کہ جبرائیل امین ؈ نے آنحضرت ﷺ سے احسان کے متعلق سوال کیا تو حضور ﷺ نے جوابا فرمایا: اَلْاِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (صحیح مسلم کتاب الایمان، حدیث: ۹۳) اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے احسان (یعنی اخلاص) کےدو درجے بیان فرمائے ہیں۔ اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ عبادت میں ایسا حضور اور دل لگی ہو کہ گویا اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہو، اسے ”مشاہدہ“ کہتے ہیں۔ اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ تصور اور یقین کرے کہ اللہ مجھے دیکھتا ہے، اسے ”مراقبہ“ کہتے ہیں۔آج جسے تصوف اور درویشی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے، زبانِ نبویﷺ سے اسے ”احسان“ کہا گیا ہے۔ عوام اور بعض صوفیاء قسم کے لوگ ظاہری احکام کو ”شریعت“ اور تصفیہ باطن کو ”طریقت“ اور مشاہدہ و مراقبہ کو ”حقیقت“ کہتے ہیں۔ مگر اس حدیث میں حضور ﷺ نےتینوں مقامات کا تفصیلی ذکر فرمادیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں کامل وہی شخص ہے، جو ان تینوں کا جامع اور عامل ہو۔ اگر کوئی شخص پہلی پانچ باتوں پر جما رہے اور آگے قدم نہ اٹھائے اور ”احسان“ کی عملی تفسیر بن کر نہ دکھائے تو وہ بھی ناقص الایمان ہے۔“
(کراماتِ اہلحدیث، صفحہ ۵۳۔۵۲)
ای میل۔[email protected]
(مضمون جاری ہے ۔اگلی قسط انشااللہ کل یعنی سنیچروار کے شمارے میں شائع کی جائے گی)
(نوٹ:یہ مضمون علمی نوعیت کا ہے اور اس کے مندر جات سے ادارے کا کلی یا جزوی طور متفق ہونا لازمی نہیںہے۔کسی بھی قسم کی وضاحت کیلئے مضمون نگار سے فون نمبر7006566679پر رابطہ کیاجاسکتا ہے۔)