مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں بہانہ بے عملی کا بنی شرابِ الست
دانائے راز، رومی ہند، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کا شمار دنیا کے معتبر، کثیر الجہات اور جامع الصّفات شخصیات میں ہوتا ہے۔ علمی ،فکری اور نظری بنیادوں پر انہوں نے جو وسیع و عریض تخلیقی میرات اُمت مسلمہ کو تفویض کیا۔ اُس سے یہ بات بلا خوف و تردد کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اقبال کے قدآور اور مایۂ افتخار ہستی ہونے کی یہ احسن دلیل ہے کہ وہ انسانی تاریخ کے تمام پُر اسرار گوشوں سے واقف تھے۔ایک وسیع المطالعہ، دقیق النظر، سربرآوردہ مفکر کی حیثیت سے وہ اقوام وملل کے مدوجزر کے تمام عوامل و عواقب کا تجزیہ و تحلیل کرچکے تھے۔ اقبال تنہا ایسے مفکر تھے جو اپنی قوم کو تیغ بُرّاں دیکھنے کے آرزومند تھے ۔ اقبال کی قلب و روح ملتِ اسلامیہ کے لئے دھڑکتی تھی ۔ وہ اعلیٰ انسانی قدروں کے وارث و امین تھے۔ اُنہوں نے اپنی خلاقانہ صلابت کو بروئے کار لاتے ہوئے تنزل و پستی کا شکار امتِ مسلمہ کے جسد مردہ میں ایک نئی روح پھونکی اور اسے جادئہ انقلاب پہ گامزن کیا۔
اقبال نے دورِ اوّل میں کلاسیکی شعراء کا تتبع اختیار کیا ہے۔ بانگِ درا میں اُن کا لہجہ زیادہ تر روایتی نظر آتا ہے۔ جہاں اُن کی شاعری میں فطرت کی رنگ اَمیزی بھی ملتی ہیں۔وہیں تاثراتی نوعیت کی مختصر نظمیں بھی سامنے آتی ہیں۔ مثلاً ہمالہ، ماہِ نور، حقیقت ِ حسن، ایک شام وغیرہ ۔جیسی نظمیں اقبال کے ابتدائی دور کے شعری تجربات کی آئینہ دار ہے۔ اقبال نے ۱۹۰۵ء میں یورپ کا سفر کیا اور ۱۹۰۸ء تک وہاں مقیم رہے۔ یہ تین سال اقبال کی شخصیت پر اس طرح اثر انداز ہوئے کہ اُن ہی کی زبان میں ’’ ریزہ الماس شو‘‘ ،شبنم مشو کے مترادف واپس لوٹ آئے۔ تو اُن کا اندازِ سُخن، طرزِ فکر یکسر تبدیل ہوچکا تھا۔وہ ایسا اشہب قلم ساتھ لے کر آئے تھے جس کی نوک تلوار سے تیز اور نشتر سے گہری تھی۔ اُنہوں نے اپنے طرزِ اسلوب سے شکست خوردہ مسلم قوم کے اندر حرکی جذبات پیداکئے اور اُنہیں اپنی شاعری سے عمل کی تلقین کی۔
اقبال نے اپنی شاعری کو انسانی افکار و نظریات میں انقلاب پیدا کرنے اور فردِ واحد کی سیرت و شخصیت کی صالح اور مثبت تعمیر کے لئے استعمال کیا۔اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اقبال کی شاعری کا غائرانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ صداقت مرشح ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں رسمی اور روایتی نوع کے مضامین نہیں باندھے بلکہ نئے اور انقلاب آفریں خیالات کو شعری اسلوب سے مزین کیا۔اقبال نے مسلمانوں کی انحطاط و تنزلی ،پستی و انفعالیت کے عوامل و عواقب پر جب تفکر کیا تو انہیں اِس ماہیت کا ادراک حاصل ہوا کہ مسلمانوں کی تنزلی کا بنیادی سبب اُن کا بے عمل ہونا ہے۔
اقبال بنیادی طور پر اُس تصوف کے شدید مخالف تھے جس کو صوفیاء کے ایک گروہ نے ’’وحدت الوجود‘‘ کے فلسفے کی صورت میں پیش کیا۔ ان صوفیاء کے نزدیک دنیا بے حقیقت اور حقیر ہے۔ انسان بھی ان کے نزدیک بالکل بے حقیقت تھا اس تصور کا ایک منفی اثر شعور و ادراک پر یہ ہوا کہ جبر وقدرکے مناقشہ نے زور پکڑا اور ہمہ اوستی کے نظریہ کی تقلید کرنے والے اس بات پر قانع رہے کہ انسان مجبورِ محض ہے۔ ان کے نزدیک جو کچھ انسان کے مقدر میں ازل سے لکھا ہوا ہے ۔ وہی ہوکے اور مل کے رہے گا۔ یہ تصور مسلمانوں کے اندر اس قدر پیوستہ ہوگیا کہ وہ جہدمسلسل ،عملِ پیہم اور سعی محکم سے بے نیاز ہوگئے۔ حالانکہ علامہ اقبال نے ان عناصر کو مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی کا راز بتایا ہے۔
یقیں محکم ، عمل ِ پیہم ، محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں مردوں کی شمشیریں
لیکن مسلمانوں کے اندر یہ بے عمل اور تن آسانی کئی وجوہات کی بنا پر پیدا ہوئی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ عجمی تصورات و افکارات اور غیر اسلامی نظریات و خیالات کے غلبے نے اسلامی تصورات و خیالات کی قباپہن کر ان کا تعلق مضمحل کردیا تھا۔
تمدن، تصوف، شریعت، کلام بُتان عجم کے پجاری تمام
سلوک و تصوف کا اساسی مدعا یہ ہے کہ انسان شریعت مطہرہ کی مکمل پاسداری کرے اور اپنے قلب و باطن کو تطہیر و تزکیہ کے منازل سے ہمکنار ہوکر قرب و رضا الٰہی کے ارفع و اعلیٰ درجات پر متمکن ہوسکیں۔اقبال اُس تصّوف کے ہر گز برخلاف نہیں تھے جس کا تعلق اسلام کے اُس آفاقی نظام کے ساتھ ہے جو انسان کو ہمہ وقت شریعت کے تتبع میں دیکھنے کا خواہاں ہے۔ یعنی تصّوف درحقیقت مرضیات الٰہی اور احکام شرع کی رہ نوردی ہے۔تاکہ انسان عملی طور پر اس شعر کا آئینہ دار نظرآئے۔
خواہم کہ ہمیشہ درہوائے تو زیم خاکے شوم و بزیر پائے تو زیم
مقصودِ من خستہ ز کونین توئی ازبہر تو میرم و از برائے تو زیم
علامہ اقبال نے مذکورہ بالا افکار و تصورات کو بنیاد بنا کر ایسے مفکرین اور صوفیا کے خلاف صاعقہ بردوش بغاوت کی ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’اسرارِ خودی‘‘ اور ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں کھل کر فلسفہ ’’وحدت الوجود‘‘ کی شیدید مخالفت کی۔ اقبال کا یہ ماننا ہے کہ اس عقیدے کی وجہ سے مسلمان مجہول و بے عمل بن گئے۔ اقبال کے نزدیک کائنات کی تمام اساسی صداقتوں کے لئے کسوٹی قرآن ہے۔ تصوف ہو یا فلسفہ، فقہ ہو یا علمِ کلام سب کو قرآن کی کسوٹی اور حضور کی سنّت کی روشنی میں دیکھنا چاہئے۔ جو کھری اُترے اس سے لے لینا چاہیے اور جو کھوٹی ہو اُسے رد کرنا چاہیے۔
الغرض اقبال کے ان افکار و خیالات کی وجہ سے انہیں مفکرو مصلح ہونے کی حیثیت سے عصری تاریخ میں امتیازی مقام حاصل ہے۔علامہ اقبال کا طرئہ امتیاز یہ ہے کہ وہ پیغامِ عمل کے شاعر ہیں اور یہی پیغام کلام ِ اقبال کی اصل روح ہے۔
(مضمون نگارمتعلم شعبہ اردو سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیرہیں)
پتہ ۔ شیری ناروائو،بارہمولہ کشمیر
رابطہ۔9906820951