معاذ عاصم ؔخان
خواتین کے ساتھ تشدد ،زیادتیاں اور اُن کی عزت سے کھیلنے والے لوگ زیادہ تر مجرمانہ نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کے اندر حیوانیت ہوتی ہے۔ وہ زیادہ تر منشیات کے عادی ہوتے ہیں اور فحش فلمیں دیکھنا انکا مشغلہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کاضمیر مردہ ہوجاتا ہے ،انسانیت ختم ہوجاتی ہے اورحیوانیت پیدا ہو جاتی ہے۔اگر ایسے لوگوں کے ماضی کے ا وراق پلٹے جائیں تو ایسے لوگ عموماًپہلے بھی خواتین کی عزت کے ساتھ کھیل کر اُن کی ہلاکت کے واقعات میں ضرور ملوث ہوتے ہیں۔ ایسی ذہنی حالت کے حامل مجرموں میں بچپن سے لے کر جوانی تک پائی جانے والی اقدار اہم کردار ادا کرتی ہیں، کئی بار وہ خود بھی جنسی ہراسانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے ایسی ذہنی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس میں دوسروں کے جسم کو استعمال کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات میںاکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ 35 سے 40 سال کی عمر کے لوگ ہی شامل ہوتے ہیں۔اسکی سب سے بڑی وجہ ہے ،وہ جسمانی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اور انکی جنسی خواہشات شدید ہوتی ہے۔ اسطرح کے مجرم اندر سے مایوس ہوتے ہیں اور معاشرے میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتے ہیں۔یہ لوگ جیسے ہی کوئی آسان ہدف دیکھتے ہیں اسے اپنا نشانہ بنا لیتے ہیں اور اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ کئی باریہ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے بچوں کی زیادتیاں کرتے رہتے ہیںاور یہ گھناؤنے جرائم کو انجام دینے والا کوئی دوسرا نہیں بلکہ انکا کوئی اپناقریبی ہی ہوتا ہے۔ یہ لوگ بچوں کو اس لئے نشانہ بناتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بچے شکایت نہیں کریں گے یا ان س سے مزاحمت نہیں کرینگے۔ کئی بار ایسے لوگ اپنے آپ کو جنسی طور پر کمزور پاتے ہیں، اس صورت میں وہ بچوں کے ساتھ جسمانی تعلق بنا کر اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح کے جرائم کو کم کرنے کے لیے اب اسکولوں سے لے کر گھروں تک بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ (Good Touch & Bad Touch)جیسے عمل سکھائے جا رہے ہیں جو ایک مثبت قدم ہے۔ ان کویہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ اگر کوئی ان کے ساتھ ایسا سلوک کرے تو وہ فوراً اپنے والدین یا اسکول کی ذ مہ داران کو بتائیں۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں سے بدتمیزی کرنے والے فحش نگاری سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔آج اس طرح کا مواد انٹرنیٹ اور بازاروں میں باآسانی دستیاب ہیں جسے دیکھ کر ایسے بُرے رجحانات ذہن میں آتے ہیں۔ ایسے ماحول کے لئے بہت حد تک فلمیں بھی ذمہ دار ہیں۔ آج کی فلموں میں جس طرح کی کشادگی پائی جاتی ہے، جس طرح خواتین جسم کی عکاسی کرتی ہیں، بقول نفسیاتی ماہرین ایسے جرائم میں اضافے میں مددگار سمجھتے ہیں ۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ان مجرموں کے والدین نے ان کی پرورش ایسی کی ہے کہ وہ اس طرح کی حرکت کریں؟ شاید نہیں، والدین کبھی غلط پرورش نہیں دے سکتے ،لیکن وہ انکے ماضی کی کرتوتوں کو چھپا کر ایک طرح سےان کی حوصلہ افزائی ضرور کرتے ہیں۔جس کے نتیجےمیںاب جس گھر میں لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں ، انہیں ان درندوں کی وجہ سے خوف کے ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔ خواتین بہت سے کاموں کے لیے باہر نکلتی ہیں لیکن وہ معاشرے کے اس گندے ماحول سے خوفزدہ ہیںکہ کہیں کوئی شکاری انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر ان کی زندگی کو اندھیروں سے نہ بھر دے ۔ جس کے لئے عام خیال یہی ہے کہ ملک بھر میںخواتین کے خلاف تشدد اور زیادتوںپر سخت قوانین نافذ کیے جائیں تو ایسے گھناؤنے جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جنوبی کوریا میں عصمت دری کے خلاف سخت قانون ہے۔ایسے مجرم کو سیکورٹی فورسز کے ذریعے سرِ عام گولی مار دی جاتی ہے۔سعودی عرب میں عوام کے سامنے بیچ چوراہے پر ایسے مجرم کا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔چین میں عصمت دری کرنے والوں کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔ بہت سے واقعات میں ملزمان کے جنسی اعضاء کاٹ کر سزا دی جاتی ہے جبکہ عراق میں مجرموں کو سنگسار کر کے سزا دی جاتی ہے۔ یہاں ریپ کرنے والے کو اس وقت تک سنگسار کیا جاتا ہے جب تک وہ مر نہیں جاتا۔چاہے جتنے بھی احتجاج کیے جائیں، جب تک اس کے خلاف کوئی سخت قانون نہیں بنتا، تب تک اس سماج کو گھنائونے واقعات سے نجات ملنا مشکل ہے۔ ہر معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ تربیت دیں کہ لڑکیوں کی عزت آپکا اولین فرض ہے تاکہ یہ ممکن ہو سکے کہ سماج کی بیٹیاں خود کو محفوظ محسوس کر سکیں۔