یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری گھر کے دو افراد ایک ماں اور دوسرے باپ کے اوپر عائد ہوتی ہے لیکن باپ کی ذمہ داری گھر کے باہر بھی ہوا کرتی ہے جیسے کاروبار وغیرہ کی ذمہ داری۔ اس بنا پر اس کا بچوں کی تعلیم و تربیت پر مکمل توجہ دینا ممکن نہیں ہے ۔اس لئے بچوں کی اصل تربیت کی ذمہ داری ماں کے اوپر عائد ہوتی ہے کیونکہ بچہ ابتدا ہی سے آغوش مادر میں پرورش پاتا ہے اور ماں کی گود سے ہی بچوں کی زندگی پروان چڑھتی ہے اور بچوں کا تعلق خاص طور سے ماں کی ذات سے ہوتا ہے ۔
اسی لیے ماں کے عزائم،خیالات اور افکار کا اثر لازمی طور سے اولاد پر پڑتا ہے ہے ۔گویا ماں ایک درخت ہے تو اولاد اس کی شاخیں اور پھل۔ماں ایک پھول ہے تو بچے اس کی خوشبو ہیں۔ اولاد ماں کے خوابوں کی تعبیر اور اس کی سیرت و کردار کا نمایاں عکس ہوتی ہے۔
حقیقت میں ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ اور تربیت گاہ ہے۔ یہیں سے اس کی ذہن سازی ہوتی ہے، یہیں سے انسانی خوبیاں لیاقتیں صلاحیتیں اور فطری جبلتیں پروان چڑھتی ہیں، یہیں سے داعیان دین کی تربیت ہوتی ہے۔ بچوں کی یہ تربیت گاہ جتنی پاکیزہ ہوگی تربیت پانے والے اتنے ہی بہترین سیرت و کردار کے حامل ہوں گے ۔
عمر بن عبدالعزیز کو کون نہیں جانتا ہے جن کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی خلافت کا زمانہ انصاف عام تھا ۔گویا شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے کیونکہ ان کی تربیت میں ان کی والدہ کا اہم کردار تھا ۔عمر بن عبدالعزیز کی والدہ ایک صالح خاتون تھیں جن کی ماں نے فاروق اعظمؓ کے زمانے خلافت میں جب دودھ میں پانی ملانے کا حکم دیا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ امیر المومنین نے اس سے منع فرمایا ہے۔اس نے کہا امیرالمومنین تو یہاں حاضر نہیں ہیں تو بیٹی نے جواب دیا وہ اللہ دیکھ رہا ہے جس نے امیر کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔
اسی طرح امام بخاریؒ کی تربیت ایک صالح خاتون کی آغوش میں ہوئی۔ امام بخاریؒ ابھی بہت کمسن تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ان کی والدہ بہت ہی صبر و حوصلے کے ساتھ اپنے بیٹے کی پرورش و تربیت کے لیے یکسو ہو گئیں۔ ان کو اس وقت صدمہ ہوا اور غم زدہ ہوگئی جب انہوں نے اپنے لخت جگر کو دونوں آنکھوں سے محروم پایا ۔بچے کو نابینا دیکھ کر اس کے مستقبل کے تعلق سے ماں بہت پریشان ہوں گئیں۔اپنے بیٹے کے لیے تمناؤں کی عدم تکمیل سے بہت زیادہ فکر مند تھی ۔وہ اپنے بیٹے کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کا بڑا عالم بنانا چاہتی تھی۔ انہوں نے اللہ کی رحمت کے دروازے کو کھٹکھٹایا اور دعا کرنے لگیں کہ اے اللہ میری تمناؤں کو پورا کردے ۔بالآخر اللہ نے ان کی دعا سن لی اور ان کی بینائی واپس کردیں اور پھر وہی بچہ آگے چل کر حدیث کا سب سے بڑا امام بنا۔یہ اس عظیم المرتبت صالح خاتون کی کی تربیت اور پرورش کا نتیجہ تھا۔
ٹیپو سلطان شہید کی والدہ نے ابتدا ہی سے طے کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لخت جگر کی بہترین تربیت کریں گی۔ اپنے بیٹے کو مرد صالح و مرد مجاہد بنانے کے لیے جہاں اللہ سے دعا کرتی ہیں وہیں عملی طور پر اس کے لئے کوشش بھی کرتی۔ انہوں نے ٹیپو سلطان کی ایسی تربیت کی کہ وہ انتہائی بہادر ونڈر حکمراں بنے ۔ایسے بہادرجن کے نام سے انگریز خوف کھاتے تھے۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ٹیپو سلطان نے سر کٹانا تو گوارا کر لیا مگر جھکانا گوارا نہیں کیا اور ملت کے جوانوں کو یہ پیغام دیا کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ ٹیپو سلطان کے اندرجرأت وشجاعت کا جوہر اور احکام الٰہی کی اطاعت کا جذبہ بلاشبہ ان کی پاکباز اور دیندار ماں کی بہترین تربیت کا ثمرہ تھا۔
آج پھر ملت اسلامیہ کو ان جیسی قابل فخر آغوش مادر کی ضرورت ہے۔کاش ہماری بہنوں کے اندر ایسی مائیں بننے کا جذبہ پھر سے پیدا ہوتا لیکن افسوس کہ آج کی مائیں اپنے بچوں کی اس کے برعکس تربیت کرتی نظر آتی ہیں۔ آج وہ اپنے بچوں کو جرأت و جواںمردی اور پاکبازی سے معمور ہستیوں کے واقعات سنانے کے بجائیخرگوش، کھچوا،چوہا، بلی، اور جن بھوت کی کہانیاں سناتی ہیں اور جب بچہ بولنا سیکھتا ہے تو بچے کو گانا گانے اور ڈانس کرنے جیسی تربیت دے کر خوش ہوتی ہیں۔ خاص طور سے آج کے اس نازک دور میں لڑکیوں کی دینی تعلیم کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ دوسرے کے گھر کی زینت بنے گی اور دینی تعلیم اس لئے ضروری ہے تاکہ ان کے کوکھ سے جنم لینے والا بچہ قوم کا رہبر و رہنما ۔بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لئے ایک تربیت یافتہ دیندار ماں کا ہونا بہت ضروری ہے، اس لیے کہ بچے کی اولین تربیت گاہ ماں کی گود ہے۔
ماں ایک مشین کی حیثیت رکھتی ہے ۔جس طرح ایک مشین بالکل صحیح سالم ہو، اس میں کسی طرح کی کوئی خامی و خرابی نہ ہو تواس سے تیار ہونے والی تمام چیزیں ٹھیک اور درست ہو گی لیکن اگر مشین میں خرابی ہو تو اس سے تیار ہونے والی چیزوں میں بھی خرابی ہوگی۔اسی طرح ماں اگر تہذیب یافتہ ،دیندار اور پرہیزگار ہو گی تو اس کی گود میں پرورش پانے والا بچہ بھی نیکو کار و پر ہیز گار ہوگا ورنہ اس کے برخلاف ہوگا۔
مذکورہ حقائق و واقعات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں صحیح رول ایک تعلیم یافتہ ماں ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک عورت تعلیم یافتہ اور با ادب ہونے کے ساتھ ساتھ فرمانبردار اور باشعور ہو اور اسلامی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ ہو ،صوم و صلوٰۃ کی پابند، صبر و تحمل کی پیکر ہو کیونکہ بچوں کی تعمیر و ترقی اور شجاعت و بہادری میں اہم کردار ماں ہی ادا کر سکتی ہے ۔
آج کی ماؤں پر لازم ہے کہ وہ اپنی اصلاح کے ساتھ اپنی نئی نسل کی پرورش کریں جن کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہے اور ان کو برے ماحول سے دور رکھیں اور ہمیشہ ان کے سامنے صحابہ و تابعین اور اسلامی شخصیتوں کی شجاعت و بہادری کے واقعات کو بیان کریں تاکہ یہ نئی نسل ان کے نقش قدم پر چلنے کے لائق بن سکے۔