امریکہ میں 2017ء کے صدارتی انتخابات اور ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد سے عالمی صورت حال ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں جہاں امریکی عوام مصیبت جھیل رہے ہیں، وہاں دنیا بھر کے حکمران ٹرمپ کی عجیب وغریب پالیسیوں سے پریشان ہیں۔ گزشتہ ادوار میں امریکی صدور جس طرح دنیا کو اپنے مکروفریب میں الجھائے رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہے، اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ شروع ہی سے کھلا معاندانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ایک طرف ٹرمپ کے رفقا صدر کے بے سروپا بیانات کی توجیہات پیش کرکر کے تھک گئے ہیں، دوسری طرف بعض امریکی عہدے دار اپنے ضمیر کی آواز پر مجبور ہوکر مستعفی ہوچکے ہیں۔ امریکی صدر نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں امریکا کے بہترین دوستوں کو دشمن بنالیا، جب کہ پاکستان، ایران اور یورپی یونین کے اکثر رکن ممالک نے امریکی صدرکے احمقانہ ٹوئٹر بیانات کے بعد اپنا رویہ تبدیل کرلیا ہے۔ٹرمپ نے برسراقتدار آتے ہی سب سے پہلے 2015 ء میں 200؍سے زائد ممالک کے اشتراک سے ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے پیرس معاہدے کو منسوخ کیا۔ اس کے بعد ایرانی جوہری معاہدہ اُن کا نشانہ بنا ۔ جرمن چانسلر انجیلامرکل اور فرانسیسی صدر عمانویل ماکروں اپنی پوری کوشش کے باوجود انہیں قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوپائے اور انہوں نے پوری دنیا کی مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے ایرانی جوہری معاہدے کو ختم کرکے ہی دم لیا۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر بدترین الزامات کے بعد عالمی ادارے سے امریکی علاحدگی اور اسرائیل کی ہمنوائی میں فلسطین بھر کو صہیونی ریاست میں تبدیل کرنے اور امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کر نے کی کارروائیاں چند ایسے حقائق ہیں ، جنہوں نے پوری امریکی قوم کے چہرے پر کالک مل دی ہے۔
ان مکروہ عزائم کے علاوہ ٹرمپ کی نظریں اب نیٹو کے رُکن ملک ترکی پر لگی ہوئی ہیں۔ ترکی اپنے دلیر رہنما رجب طیب اردوان کی قیادت میں اسلامی اقتدار کی پاسباں ترقی پذیر مملکت کے طور پر اُبھر کے سامنے آیا ہے۔ ترک صدر نے جہاں ملک کی تجارتی، معاشی و معاشرتی اور سیاسی پالیسیوں کی بدولت پوری ترک قوم کو اپنا گرویدہ بنایا، وہیں فلسطین اور روہنگیاپر اسرائیلی قبضے کے حوالے سے دوٹوک موقف اپنا کرامت مسلمہ کے دل جیت لیے۔ تاہم ترکی کے ساتھ جنگ مول لینے کے لیے واشنگٹن نے اپنے ایک پادری اینڈریو برونسن کی ترکی میں گرفتاری کو بہانہ بنایا ہے۔امریکی ریاست شمالی کیرولینا سے تعلق رکھنے والا اینڈریو برونسن بحیرہ ایجیئن کے کنارے واقع شہر ازمیر میں عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے کے ایک چرچ کا نگران تھا۔2016ء میں ترک فوج کی جانب سے بغاوت کی ناکام کوشش اور صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی ناکام سازش میں ملوث سرکاری ملازمین اور افراد کے خلاف سخت کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ اسی دوران ترک حکام نے اس پادری پر کالعدم کردستان ورکرز پارٹی ’ پی کے کے‘ کے ساتھ خفیہ تعلقات اور امریکا میں پناہ گزیں بغاوت کے کرتادھرتا فتح اللہ گولن کی حمایت کا الزام عائد کیا ۔ترک حکام نے اسے 2سال تک جیل میں قید رکھنے کے بعد ملک سے باہر جانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے اُسےازمیر میں اس کے گھر میں نظربند کردیا تھا۔ امریکا کا موقف ہے کہ ترکی کے پاس پادری کے خلاف عائد کردہ الزامات کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں ۔ جب کہ ترک صدر کا کہناہے کہ انہیں پابندیوں سے ڈرایا دھمکایا جاسکتا ہے نہ زیر اثر لایا جاسکتا ہے۔تاہم وہ اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ عیسائی پادری کا امریکی ریاست پنسلووینیامیں مقیم فتح اللہ گولن سے تبادلہ کیا جا نا ممکن ہوسکتا ہے۔واشنگٹن حکام دھمکیوں کے بعد ترکی اقتصادی طور پر دباؤ میں لانے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔اس سلسلے میں سب سے پہلے ترکی پراسٹیل اور المونیم کی برآمدات پر 20 اور 50 فیصد کسٹم ڈیوٹی لگاعائد کی گئی ہے۔ ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان حامی آق سوئے نے امریکاکی جانب سے ترکی پر اسٹیل اور المونیم پر لگائی جانے والی اضافی کسٹم ڈیوٹی کے بارے میں ٹرمپ کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کا عالمی تجارتی اصولوں کی پروا کیے بغیر ترکی پر ٹیکس لگانا ایک مہذب ملک کو زیب نہیں دیتا ۔
امریکی پابندیوں کے بعد سے ترکی کی معیشت مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس کے آغاز سے اب تک 40 فیصد کمی واقع ہوئی۔ترکی کی معیشت پر ایک دن ایسا بھی آیا ،جب ایک ہی دن میں لیرا کی قدر میں 20 فیصد کمی دیکھی گئی۔ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے بعد امریکی ڈالر 7 ترک لیرا کے برابر ہو گیا، جو ترک کرنسی کے لیے اس کی کم قدر کے لحاظ سے ایک نیا ریکارڈ تھا۔ کچھ دن بعد کرنسی مارکیٹوں میں لیرا کی قیمت کچھ بہتری کے بعد 6.36 لیرا فی امریکی ڈالر ہو گئی ، تاہم اسے کسی طرح بھی اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا۔اقتصادی ماہرین کے مطابق لیرا میںاس گراوٹ سے ترک معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس کی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی سے کاروباری حضرات کو شدید نقصان کا قوی امکان ہے۔ اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ آیندہ چند دنوں کے دوران لیرا کی قدر مزید گر سکتی ہے۔ 10 ؍اگست سے جس طرح لیرا کی قدر میں گراوٹ کا سلسلسہ شروع ہوا ،اس سے لگنے والے معاشی جھٹکے ممکنہ طور پر اگلے ہفتے کے دوران بھی محسوس کیے جاسکیں گے۔ ترک کرنسی کی قدر میں کمی سے یورپی مالی منڈیوں میں بھی بے چینی اور کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ علاقائی بینکنگ سیکٹر کو بھی خطرات لاحق ہیں کہ ترک امریکی تنازع کے منفی اثرات اْس تک پہنچ سکتے ہیں۔اس صورت حال میں ترک صدر نے عوام سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ وہ ترکی کے اقتصادی دشمنوں کے خلاف قومی جنگ کے لیے خود آگے بڑھ کر ترک کرنسی کو خریدنا شروع کردیں۔انہوں نے کہا کہ عوام کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ امریکی ڈالر ہمارا راستہ نہیں روک سکتا۔ انہوں نے امریکی صدر کا نام لیے بغیر کہا کہ ترکی کے اقتصادی دشمنوں نے انقرہ کے ساتھ اپنے تعلقات کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اردوان نے کہاکہ ترکی کو اس وقت اپنے اقتصادی دشمنوں کے خلاف ایک قومی جنگ کا سامنا ہے اور ترک عوام کواپنے پاس موجود سونے اور زرمبادلہ کو فروخت کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ترک لیرا خریدنا چاہیے تاکہ ملکی کرنسی کو مضبوط بنایا جا سکے۔ ترک صدرببانگ دہل کہا کہ امریکا کے ساتھ شروع ہونے والی اقتصادی جنگ میں انجام کار ترکی کو فتح اور امریکا کو شکست ہو گی۔