دسمبر1997 میں ابھرتا سیاستدان طیب اردوان لاکھوں کے مجمع کے سامنے ایک نظم پڑھ رہا تھا،مجمع وفور جذبات اور کثرت ارتعاش سے حالت وجد و جنون میں تھا۔ نظم کے الفاظ سوشل میڈیا پر وائرل، آج کے اردوان کا بیانیہ سمجھیں۔’’مساجد ہماری چھاؤنیاں ہیں، مسجدوں کے گنبد ہمارے ہیلمٹ،مینار ہماری سنگینیں اور اہل ایمان نمازی ہماری فوج ، جنگ ہم ہی جیتیں گے‘‘ ،اردوان جنگ جیت چکا۔نظم پر 1999 ء میں چار ماہ جیل کاٹی،تاحیات سیاسی پابندی لگی جو 2003ء میں پارلیمنٹ نے ختم کی اور وزیر اعظم بننے کا راستہ ہموار ہوا۔ صدر طیب اردوان کی فتح ، میری زندگی کا بہترین دن ہے ۔ ترکی کا صدیوں پر محیط شاندار ماضی،خلافتِ عثمانیہ کی میراث روایت پوری طرح انگڑائی لے چکی۔ اردوان کے 16 سالہ اقتدار کی یہ پہلی فتح نہیں ، طرفہ تماشہ یہ کہ ’’ بین الاقوامی خلائی مخلوق‘‘ ان پر اپنی گرفت اور نرغہ تنگ کرنے کے لئے پچھلے دس سال سے ہر داؤ پیچ آزما رہی ہے۔ صدر پیوٹن نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر رات کو ہی صدر اردوان کے منتخب ہونے پر تہنیتی پیغام بھیجا:’’یہ فتح نہ صرف آپ کی عظیم سیاسی مہارت وخودمختاری کی مظہر ہے،ترک عوام میں آپ کی مقبولیت کی توثیق ہے‘‘۔نئی دنیا میںچین ،روس، ترکی ،ایران اور پاکستان حقیقی پارٹنر بنے ہیں ۔جب سے اردوان خطے میںمتحرک ہیں ،امریکہ اور اس کے حواریوں نے صدر اردوان پر سرخ نشان لگایا ہے کیونکہ اُن کاتصور الواحد اسلامیہ ( خلافتِ عثمانیہ )کی نشاۃ ثانیہ ہے مگرپرعزم اور باہمت صدر اردوان بغیر حوصلہ ہارے ملت اسلامیہ اور خطے کے لئے واضح لائحہ عمل اور وژن کےساتھ بے خوفی کے ساتھ ’’ شہادت گہہ الفت ‘‘ میںقدم جمائے ہیں۔پچھلے دس سال میں انہیں فوجی بغاوت، قتل کی سازش،کرپشن کے میگاا سکینڈل کیا کیا نہ آزمایا جاتا رہا مگر سب بےسود ۔ کچھ سال پہلے ترکی کے ممبران پارلیمنٹ جوفتح اللہ گولن کی حزمت موومنٹ کے ارکان اور اردوان کی AKP پارٹی کے کولیشن پارٹنر تھے، نے صدر اردوان پر بے ہودہ الزامات دئےکہ انہوں نے۱۰۷ بلین ڈالر چوری کئے ،اُن کے بیٹے پر انواع واقسام کے جرائم میں ملوث ہیں،ایران ( جو اس وقت بین الاقوامی تجارتی پابندیوں میں جکڑا تھا) سے غیر قانونی روزانہ لاکھوں بیرل تیل کی اسمگلنگ اور کئی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں ، کئی محلات کی تعمیر اوربیرونی ممالک سرمایہ کی منتقلی جیسے جرائم کا ارتکاب کر چکے ہیں۔مغربی ذرائع ابلاغ نے صدر اردوان کے5کروڑ80ہزار ڈالر کے اثاثوں کے جھوٹے انکشافات بھی کئے اور سوال کیا ترکی کا امیر ترین سیاستدان ایک معمولی ’’کوسٹ گارڈ‘‘ کا بیٹا طیب اردوان، جس کا بچپن سڑک کنارے ڈبل روٹی کے بن اور سکنجبین بیچتے کٹا، امیر ترین سیاستدان کیسے بن گیا؟ برطانوی اخبار ڈیلی میلز،گارڈین ٹائمز، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز،و اشنگٹن پوسٹ، جرمن اخبار فرینکفرٹراالجمین ژی ٹنگ Allgemeine Zeitung فرانسیسی اخبارi Le Mond،LE Figaroارا مغربی میڈیا ایک تسلسل اور عرصے سے اردوان کی فرضی کرپشن ، بادشاہت،طرزِ حکمرانی ، سیکولر ریاست کو اسلامیانے کے بارے میں معاندانہ پروپیگنڈہ میں رطب اللسان ہیں۔2016ء میں فوجی بغاوت جیسی خوفناک سازش ایسی کہ F-16 کی بمباری سمیت ٹینک ،توپ خانے سارے سڑکوں پر اردوان کے خلاف نکل آئے، مگرجسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، عوام نے اپنی ہی مسلح افواج کو شکست فاش دی۔ مخالفین اورمعاندین سب مل کر بھی اس مرد آہن کا کچھ نہ بگاڑ پائے بلکہ الٹا ان میںہرریشہ دوانی کے خلاف اپنا عزم،استقلال، یقین، ایمان کئی گنابڑھ گیا۔اپنے کالموں میں کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ چین کے صدرشیجن پنگ، روس کے صدر پیوٹن او رترکی کے صدراردوان بالترتیب ماوزے تنگ، لینن اور کمال اتاترک سے کہیں بڑے مدبر ،سیاسی نابغے و رہنما ہیں ۔ قدرت کی اپنی تدبیریںو ترکیبیں ہوتی ہیں، کتاب حکمت یہی کہتی ہے کہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو پالا پوسا اور بالآخر موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہی وہ غرقآب ہوا۔بعینہٖ بچپن سے مذہبی روایتی تربیت یافتہ طیب اردوان جوانی میں ہی امریکی CIAکا منظور نظر رہا ۔بیک وقت استاد نجم الدین اربکان کی سیاسی رہنمائی میں اسلامی جماعت و سیاسی نظریہ سے انسلاک ، گولن کی رفاقت میں CIA کے چہیتے بنے رہے۔1953ء میں اCIA نے انتہا پسند یہودیوںکے ساتھ مل کر ایک آپریشن GLADIOوسطی ایشیائی اسلامی ممالک جو روس کے تسلط میں جا چکے تھے، کے لئے ترتیب دیا۔ تھیم یہ تھا کہ ــ" Use Islam To Get What You Want"۔اسی موٹو کے تحت افغان جہاد ترتیب دیا گیا، روس کے حصے بخرے ہونے پر جب کئی مسلم ریاستیں وجود میں آئیں تو نیا آپریشنGLADIO B وجود میں آیا۔آپریشن GLADIO B پر خطیر سرمایہ کاری ہوئی، بیشتر رقوم افغانستان سے اسمگل منشیات ذریعہ حاصل کی گئیں۔25ملین ڈالر کی ابتدائی خطیر رقم کے ساتھ فتح اللہ گولن کو سینٹرل ایشیائی ممالک اور ترکی میں تعلیمی ادارے،رفاہی کام ،ہوسٹل وغیرہ کا جال بچھانے پر متحرک رکھا گیا۔طیب اردوان بیک وقت ایک طرف استنبول کی بلدیاتی سیاست میں مذہبی رنگ گھولتے ویلفیئر پارٹی کی سیاسی ساکھ بنا رہے تھے دوسری طرف آپریشن GLADIO B میں گولن کا ہاتھ بٹا کرعزت و تکریم وصول کر رہے تھے مگر اپنی وسعت نظر، چابکدستی اورسیاسی مہارت سےCIA کو جھانسہ نہ دیتے تو کسی طور وزیر اعظم کا منصب نہ پاتے ۔امریکہ کی بد قسمتی ہے کہ صدر پیوٹن کو بھی اپنے عروج کے لئے اسےایسے ہی جھانسے دینے پڑے،CIA پیوٹن کو سالوں امریکہ دوست سمجھتی رہی،جب تک اردوان اور پیوٹن کے بارے میں سی آئی اے کو حتمی اندازہ ہوا،بہت دیر ہوچکی تھی۔ اب امریکہ دونوں کی جان کے در پے ہیں اور دونوں اپنے ملکوں کو امریکہ سے محفوظ رکھنے پر تن من دھن لگا چکے ہیں۔ 2014ء میں حسن نثار کے ساتھ ترکی کا دورہ کیا۔ دورے کا اہتمام گولن موومنٹ کے دوستوں نے کیا تھا۔ استنبول کی ایک بڑی یونیورسٹی میں گولن موومنٹ کے تھنک ٹینک کے ساتھ لمبی گفتگومیںنامی گرامی ترک دانشور سے سوال کیا کہ آپ ترکی میں CIAکو کتنا مضبوط و موجود پاتے ہیں؟ جواب ملا ’’ مسٹر نیازی !جب میں صبح سویرے اپنے غسل خانے میں جاتا ہوں تو اپنے غسل خانے میں CIA کو موجود پاتا ہوں ‘‘یعنی ، ترکی میں CIA ہر کونے کھدرے میں موجود ہے۔ایسے نامساعد حالات میں اردوان کا امریکہ اور یورپ سے ٹکر لینا ،اپنے بیانیے کو آگے بڑھانا،گھمبیر الزامات سے بے پرواہ ڈنکے کی چوٹ پر بین الاقوامی خلائی مخلوق سے ٹکر لینا ، تاریخ کامعمولی واقعہ نہیں۔صدر اردوان سازشوں ،مہروں میں گھری امت مسلمہ میں امید کی واحد کرن ہیں۔ اور اردوان کی جیت آج امت مسلمہ کی جیت ہے،ہم سب اس سےسرشار ہیں،ہماری امیدیں ساتویں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔گڈلک اردوان ،خدا تمہارا حامی و ناصر ہو !!!