ترکی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ختم ہوئے اور جیسا کہ اندازہ تھا طیب اردوان ترکی کے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی جماعت نے اپنی اتحادی جماعت کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ میں اکثریت (600میں سے 344نشستیں) حاصل کر لی ہیں۔ طیب اردوان نے کرشمہ کر دکھایا ہے، اپنے مخالفوں کی سرتوڑ کوشش، مغربی میڈیا کی واضح متعصبانہ پروپیگنڈہ مہم اور امریکی اور برطانوی حکومتوں کی ناپسندیدگی کے باوجود وہ جیت گئے۔اردوان جدید ترک تاریخ کے مقبول ترین اور سب سے طاقتور لیڈر بن کر ابھرے۔ جدید ترکی بانی مصطفی کمال ا تاترک کے بعدپہلی بار کسی حکمران کو اتنی آئینی قوت، اختیار اور عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔اتوار کی شام بلکہ رات گئے جب کولمبیا فٹ بال ورلڈ کپ میں پولینڈ کے پرخچے اڑا رہا تھا، اس وقت عالمی نیوز چینلز ترک لیڈر کی فتح کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ الجزیرہ، بی بی سی، سی این این اور بعض آن لائن ویب سائٹس کو دیکھتے ہوئے میں طیب اردوان کی اس شاندار فتح سے یہ ثابت ہوگیا کہ طیب اردوان ترک سیاست کے اہم ترین لیڈر ہیں۔ ان کے بغیر سیاسی منظرنامہ مکمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی ترکی میں ان کا سیاسی متبادل سامنے آ سکا ہے۔حالیہ صدارتی الیکشن نے یہ بات اچھی طرح سے سمجھا دی ہے کہ ترک عوام کی بہت بڑی (پچاس فیصد سے زیادہ ) تعدادطیب اردوان کے ساتھ ہے۔ اپوزیشن کے پاس کوئی ایسا امیدوار نہیں جو طیب اردوان کی طرح مختلف حلقوں کے لئے قابل قبول ہوسکے۔ اس بار سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ری پبلکن پیپلزپارٹی(CHP)کی جانب سے محرم انسے یا انجے(Ince)کو پرکشش ، کرشماتی شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا۔طیب اردوان کے بہت سے ناقدین کا خیال تھا کہ ترکی کو ایک بے باک، شعلہ بیان اپوزیشن لیڈر مل گیا ہے جو اردوان کو مشکل میں ڈال دے گا۔بعض مبصرین کی پیش گوئی یہ تھی کہ طیب اردوان کے لئے قومی الیکشن جیتنا آسان نہیں ہوگا، معاملہ رن آف الیکشن میں جانے کے قوی امکانات ہیں لیکن نتائج نے سب اندازے اور قیاسات غلط ثابت کر دئے۔
ترک سیاست کو سمجھنا بھی آسان نہیں، اپنے انتخابی نظام کی طرح اس کی داخلی سیاسی حرکیات بھی پیچیدہ اور تہہ در تہہ ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ طیب اردوان کو عام طور پر اسلامسٹ لیڈر سمجھا جاتا ہے ، مغرب میں بھی میڈیا اور لکھنے والوں کا بڑا حلقہ ان کی یہی تصویر پینٹ کرتا ہے۔اس کے باوجود یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ ترکی کی معروف اسلامسٹ جماعت ’’سعادت (Felicity)پارٹی‘‘ نہ صرف طیب اردوان کی سخت مخالف ہے بلکہ اس نے ان انتخابات میں ترکی کی سب سے بڑی سیکولر جماعت( محرم انجے کی)CHP سے ا تحاد کیا تھا۔ رفاہ پارٹی ممتاز اسلامسٹ ترک لیڈر نجم الدین اربکان کے شاگردوں اور ساتھیوں پر مشتمل ہے۔ اربکان مرحوم ہی اس پارٹی کے فکری گرو تھے۔ یاد رہے کہ یہی نجم الدین اربکان ہی طیب اردوان کے بھی سیاسی اُستاد اور لیڈر رہے ہیں۔ اردوان نے اپنا سیاسی کیر ئر اربکان کی پارٹی سے شروع کیا اور جب ترک اسٹیبلشمنٹ نے ان پر پابندی لگائی تواردوان نے عبداللہ گل اور دیگر نوجوانوں کے ساتھ مل کر اپنی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(Ak)بنائی، جس نے دو ہزار دوکا الیکشن جیت کر حکومت بنائی اور اب تک وہ مسلسل حکمران چلی آ رہی ہے۔ جماعت اسلامی کا دنیا کی دیگر اسلامی تحریکوں کی طرح نجم الدین اربکان کے ساتھ بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ مرحوم قاضی حسین احمد ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ نجم الدین اربکان کی وفات کے بعد جماعت طیب اردوان کے قریب آئی۔ وہ انہیں مسلم دنیا کے ہیرو گردانتے ہیںاور مغرب کے خلاف ایک استعارہ کی حیثیت دیتے ہیں۔ یہ لوگ اردوان کی کامیابی کے ماڈل کو دیگر مسلم ممالک میں منطبق کرنے کے خواہاں ہیں،مگر ترکی کی اپنی’’ جماعت اسلامی ‘‘ یعنی سعادت پارٹی والے ایسا نہیں سوچتے۔ ان کے خیال میں طیب اردان مغرب نواز اور استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اردوان کو ناکام بنانے کے لئے ان ترک اسلامسٹوں نے ترک سخت گیر سیکولرسٹوں سے بھی ہاتھ ملا لیا اور ان کے ساتھ باقاعدہ سیاسی اتحاد بنا کر تازہ الیکشن لڑا۔سیکولرپارٹی سی ایچ پی نے بھی یہ سمجھ کر اتحاد کیا کہ شاید سعادت پارٹی طیب اردوان کے کچھ فیصد ووٹ توڑ لے مگر ایسا ہوا نہیں، الٹا سعادت پارٹی کے امیدوار کو انتہائی کم ووٹ ملے۔ طیب اردوان کے ترپن فیصد، دو کروڑ باسٹھ لاکھ ووٹ کے مقابلے میں سعادت پارٹی کے امیدوار نے ایک فیصد سے بھی کم ،چار لاکھ ووٹ لئے۔پارلیمانی الیکشن میں توایک لحاظ سے ترکی کی اس اسلامسٹ پارٹی کے ووٹوں سے کٹر سیکولر لوگوں کو فائدہ پہنچا۔
کرد فیکٹرترک سیاست کا ایک اہم عنصر ہے۔ کرد ایران، عراق، شام اور ترکی میں پھیلے ہوئے ہیں۔بدقسمتی سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی وجہ سے کردوں کا ایک الگ ملک نہیں اور ہر ملک میں انہیں دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ کہیں یہ آزادی کی تحریک نہ چلا دیں۔ ترک عوام اور سول ملٹری اشرافیہ کرد آزادی کے نعرے کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ترکی میں یہ بڑا حساس ایشو ہے اوراسلامسٹ، سیکولر، نیشنلسٹ غرض مین اسٹریم ہر سیاسی قوت پرو کرد سیاسی جماعت یا سیاسی قوتوں سے فاصلے پر رہتی ہے۔ اس بار صدارتی انتخابات میں کرد لیڈر صلاح الدین دیمرتاش بھی امیدوار تھے، وہ پچھلے دو برسوں سے غداری کے الزامات میں جیل میں اسیر ہیں اور الیکشن وہیں سے لڑا۔ انہوں نے اکتالیس لاکھ(تقریباساڑھے آٹھ فی صد)ووٹ لئے۔ طیب اردوان کے سب سے بڑے حریف محرم انسے نے ایک کروڑ تیس لاکھ یعنی تیس فیصد کے لگ بھگ ووٹ لئے، تیسرے نمبر پر کرد امیدوار دیمرتاش رہے، جب کہ چوتھے نمبر پر ایک اہم خاتون امیدوار میرل اکسینر(Aksener) تھیں، انہوں نے چھتیس لاکھ یعنی ساڑھے سات فیصد کے قریب ووٹ لئے۔ اگر محرم انسے کے ساتھ میرل اکسنیر اور دیمرتاش کے ووٹ اکٹھے کر لیں تو یہ تقریباً ترتالیس 43%بن جاتے ہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ کرد ووٹ کسی کرد علیحدگی پسند یا پرو کرد لیڈر ہی کو ملیں گے، اگر دیمرتاش نہ کھڑے ہوتے اور محرم انسے کے حق میں مہم چلاتے تب بھی ضروری نہیں کہ یہ ووٹ انسے کو مل سکتے۔ یہ وہ خلا ہے جس سے طیب اردوان اور حکمران جماعت فائدہ اٹھا رہی ہے۔اسی کرد فیکٹر کی وجہ سے ترکی کی اہم ا ور پرانی نیشنلسٹ پارٹی MHP نے اردوان کے ساتھ اتحاد کیا اوراردوان کی جماعت کواس بار پارلیمنٹ میں اکثریت صرف ایم ایچ پی کی وجہ سے حاصل ہوئی ، ورنہ ان کی پارٹی سات نشستیں کم ہونے کے باعث سادہ اکثریت نہیں لے پائی تھی۔ یہ جماعت کردوں کے سخت خلاف ہے۔کچھ عرصہ قبل طیب اردوان نے کرد شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا تھا،یہ فیکٹر ہی ان دونوں جماعتوں کے اتحاد کا باعث بنا۔
طیب اردوان اب ایک اور بار ترکی کے منتخبہ صدر بن چکے ہیں۔ پچھلے سال ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی اختیارات میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ اب ترکی میں وزیراعظم کا عہدہ ختم ہوگیا اور صدر ہی چیف ایگزیکٹو ہوں گے۔ وہی کابینہ تشکیل دے گا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی نامزدگی کا اختیار بھی صدر کے پاس ہے، وہی آرمی چیف، ٹاپ بیوروکریسی کی ٹرانسفرپوسٹنگ وغیرہ کرے گا، نائب صدر بھی اسی نے نامزد کرنا ہے۔ملکی بجٹ بھی ایوان صدر میں بنے گا، پارلیمنٹ نے اگر اس کی منظوری نہ دی تو پھر مالی بحران پیدا ہونے کے بجائے پچھلے سال کا بجٹ نافذ العمل ہوگا، یعنی پارلیمنٹ کا بجٹ نامنظور کرنا بے سود ہی جائے گا۔ پارلیمنٹ اگرچہ دو تہائی اکثریت سے صدر کا مواخذہ کر سکتی ہے، مگر آخری فیصلہ آئینی عدالت کرے گی، جس کے پندرہ میں سے بارہ جج صدر ہی نامزد کرتا ہے۔ترک اپوزیشن نے اتنے طاقتور صدارتی عہدے کی سخت مخالفت کی تھی مگر ان کی مخالفت کا فائدہ کچھ نہیں ہوا۔ اس الیکشن میں اپوزیشن نے ایمرجنسی فوری ہٹانے کا وعدہ کیا، وہ ملک میں جمہوری اصلاحات، آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور سیاسی جبر کے خاتمے کی باتیں اور وعدے کرتے رہے۔ طیب اردوان نے معاشی خوشحالی کی باتیں کیں، اپنی کامیابیاں گنوائیں اور ترقی کے نئے خواب دکھائے۔ ترک عوام نے جمہوری اصلاحات اور آمریت مخالفانہ تقریروں کو مسترد کر کے خوشحالی، ترقی کے ماڈل کو ووٹ ڈالا اور بتا دیا کہ عام آدمی کیا چاہتا ہے۔ بہر صورت مسلم دنیا میں بہت لوگوں نے طیب اردوان کی کامیابی کا جشن منایا،مگر نام نہاد لبرل حلقے اس پر چیں بہ چیں نظر آ رہے ہیں۔ حق یہ ہے کہ تُرک عوام نے طیب اردوان کو بھاری منڈیٹ دے کر ان کی معاشی ترقی ،سیاسی بیداری اور اصلاح معاشرہ کے خوابوں کی پذیرائی میں اپنا شعوری حصہ ڈالا۔