ترکی کے صدارتی انتخابات میں رجب طیّب اردوان کو کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔ اس خبر نے عالمی سطح پر ستم رسیدہ مسلمانوں کو خوشی سے سرشار کردیا اور دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں انسان بھی اس خوش خبری پر اپنی مسرّت کو چھپا نہیں سکے ۔ٹھیک اسی طرح بہت سوں کی طرف سے ترکی کے نیشنل الیکشن پرمنفی تبصروں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ یہ لوگ طیب اردوان کی خداواسطے مخالفت میں انہیںبدترین ڈکٹیٹر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور بہ طور ثبوت ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان کی فرضی کمزوریاں اور خیالی غلطیاں اچھال رہے ہیں ، جب کہ ان کی اپنی قوم انہیں قطعی اکثریت کے ساتھ منتخب کر چکی ہے ۔ کچھ لوگ ہیں جنہیں مخالفت برائے مخالفت سے بھی تسلی نہیں ہو رہی ہے اور جنہیں اسلامی اخلاق وکردار کے حاملین کسی ملک وقوم میں دیکھنا پسند نہیں ،وہ زہر میں بجھے طعن و تشنیع اور کذب بیانیوںکے تیر برساتے ہوئے طیب اردوان کی جانب سے خود کے لئے ’’امیر المومنین‘‘اور ’’سلطان الامہ‘‘ جیسے القاب منسوب کر رہے ہیں۔ہاں ہم مسلمانوں کو ترکی میں اردوان کی کامیابی سے خوشی ہوئی ہے ، محض اسی لیے نہیں کہ ترکی میں اسلام کا بول بالا اور وہاں تعمیر وترقی کے لحاظ سے ایک ماڈل مسلم اسٹیٹ بننے کی راہ ہموار ہونے کی ا میدیں بڑھ گئی ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ طیب اردوان عالمی سطح پر مسلمانوں کی خیرخواہی کے لئے مانے اور جانے جاتے ہیں اور جو مظلومان ِفلسطین کے لئے اسرائیل اور امریکہ سے پنگے لینے سے نہیں ہچکچاتے اور ان حوالوں سے’’ حق آگیا ہے اور باطل مٹ گیا ہے‘ ‘ کی عملی تفسیر پیش کر نے سے گریز نہیں کرتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ترکی میں اردوان کے ذریعے خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگئی ہے بلکہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ ان کی انتخابی کامیابی سے خد مت خلق اللہ کے چراغ روشن ہونے سے دنیا کو پتہ چلے گا ایمان اور عمل صالح حکمران طبقے مین رچ بس جائے تو عوام کو صحیح منزل مل سکتی ہے ۔ ہم اس لئے بھی خوشی مناتے ہیں کہ ترکی میں اسلام پسندوں کو فتح حاصل ہوگئی ہے اور اسلامی شریعہ سے بھد کنے والے پیروان ِ مغرب کو منہ کی کھانی پڑی ہے ۔ ہمیں اس انتخابی نتیجے سے خوشی اس لیے بھی ہوئی ہے کہ ترکی میں مصطفیٰ اتاترک کے دور سے اسلام کو جو دیس نکالا دیا گیا تھا اور مسلمانوں پر جو بدترین ظلم ڈھائے گئے تھے ، اس صورت حال کے خاتمے میں اردوان کی سیاسی بصیرت اور ایمان بالاسلام کا وافر حصہ ہے ۔ اللہ اس ضمن مٰن ان کی مزید مدد فرمائے تاکہ ترکی موجودہ دنیا میں ماڈل مسلم ریاست کے طور ابھرے اور ا س راہ میں پھل پھول کرخدا پرستی، انسان دوستی اور آخرت پسندی کے اُجالوں سے اہل عالم کو منور کر ے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 1924 میں خلافت عثمانی کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک ( جو یہودی الاصل تھا)کے ذریعے اسلام کا نام لینا ترکی میں جرم قرار پایا تھا ، شعائر اسلام پر پابندی عائد کردی گئی تھی ، مساجد کو اصطبل اور شراب خانوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا ، اذان دینا اور قرآن پڑھنا ممنوع ٹھہرا یا گیاتھا ، سیکولرازم یعنی لامذہبیت کو ریاست کا مسلک ومشرب قرار دیا گیا تھا ۔ کمالی حکومت کے زیر سایہ بدترین آمریت کے پردے میں اسلام کو کھرچ کھرچ ترک سماج میں کر پھینک دینے کی ناکام کوشش کی گئی تھی ، یہ ظلم وبر بریت اتاترک کے بعد بھی کئی دہائیوں تک جاری رہا ، اور اس مایوس کن ماحول میں جو اصحابِ ایمان اسلام سے اپنی وابستگی ظاہر کر تے، انہیں تختہ دار پر چڑھاکر موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا، ظلم و تشدد کی اس کالی رات کے باوجود قابل صد مبارک باد ہیں وہ خوش نصیب لوگ جنہوں نے ایمان سے کوئی سمجھوتہ کئے ان حوصلہ شکن حالات میں بھی اسلام سے دستبرداری اختیار نہ کی بلکہ جبر وقہر کے بدترین ماحول میں بھی اپنی نئی نسل کے دل میں اسلام کی شمع جلائے رکھی ۔ آج اردوان کی کامیابی انہی سعید روحوں اور پاک نفوس تُرک مسلمانوں کی دعوتی کاوشوں کی قبولیت پر دلالت کر تی ہیں، اس لئے ہم خوشی مناتے ہیں کہ ہم انہیں اس سلسلہ الذھب کی ایک کڑی سمجھتے ہیں جنہوں نے ہر دورِ ظلمت میں اسلام کی مشعل اخلا ق اور کردار کے بل پر فروزاں رکھی۔
طیب اردوان اور ان کے پیشرو سابق اسلام پسندترک وزیراعظم پروفیسر نجم الدین اربکان مر حوم دونوں کا مشترکہ مطالبہ تھا کہ تُرک مسلمانوں کے خلاف جبر کا یہ ماحول ختم ہونا چاہیے ۔ جب کسی ملک یا معاشرے میں قانونی طور تمام انسانوں کے لئے بنیادی آزادیاں حاصل ہوں جن کے تحت عوام کو کھلی چھوٹ ہو کہ وہ جو بھی غلط سلط کام کرنا چاہیں کر گزریں ، جس طرح سے بھی بے حیائی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہیں شوق سے کریں تو مسلمانوں کو یہ غیر مشروط آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے عقیدے اور دین کے تقاضوں پر بال روک ٹوک عمل کر سکیں ۔اربکان اور اردوان کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے کہ اربکان نے اپنی سیاست اسلام کے نام پر کی ، چنانچہ حسب توقع باطل کے کارپردازوں کی طرف سے ان کی پارٹی کو بار بار قانونی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ، ان کی حکومت کی برخواستگی کی نوبت تک آئی ، حتیٰ کہ سیاسی عمل میں ان کی شرکت پر روک بھی لگائی گئی ۔اس کے باکل برعکس اردوان نے زبانی طور پر اسلام کا نام لینے سے احتراز کیا ، اگرچہ اقدامات برابر ایسے کرتے رہے جن سے مسلمانوں کو شرعی آزادیاں نصیب ہوئیں ،وہ من حیث القوم اپنی مرضی سے ارکانِ اسلام پر عمل کر نے کے قابل ہوئے اور شعائر اسلام سے اپنے تعلّق کا اظہار کرنے کی آزادی پاگئے ۔ ان خطوط پر کام کر کے اردوان نے تُرک سماج میں ایک صالح انقلاب لایا۔اان کے کام اور مشن کا خلاصہ محب و مکرّم پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے ایک موقع پر ایک جملے میں بیان کیا تھا : ’’ اردوان نے ترکی کو جبری کفر سے اختیاری کفر تک پہنچادیا ‘‘ یعنی ترک شہری چاہیں تو اسلام کو آزاد ا نہ قبولیں اور چاہیں اللہ سے منہ پھریں ۔ لاکراہ فی الدین( دین میں جبر نہیں ) کا آفاقی اصول تُرک قوم کو بہت بھایا۔
ہمیں اردوان کی کامیابی پر اس لیے خوشی ہے کہ انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف وقتاًفوقتاً آواز اٹھائی ، شامی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کو اپنے یہاں پناہ دی ، فلسطینی کاز کی حمایت کی ، غزّہ کے محصور مسلمانوں کے لیے امدادی سامان بھجوایا ، مصر کی جائز منتخبہ حکومت کے سربراہ محمد مرسی کی اخلاقی حمایت کی اور اخوان المسلمون پر آمر سیسی حکومت کے مجرمانہ مظالم کے خلاف آواز بلند کی، بنگلہ دیش میں برما کے بے یار و مددگار مسلمانوں کے لیے امدادی سامان بھجوایا۔ بے لگام نیک عمل انسانوں کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن دنیا کو خالی الذہن ہوکرسوچنا چاہیے کہ کیا دوسرے مسلم حکمرانوں نے اپنے ہم مذہبوں کے تئیں اتنی مروت دکھائی ، بلکہ اُن ناہنجاروں کی نہ صرف ہمدردیاں بلکہ ان کا دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح کا تعاون ظالموں اور جابروں کو حاصل رہا ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اردوان نے ترکی میں اسلامی خلافت قائم کردی ہے ۔ اس کا دعویٰ خود اردوان کو بھی نہیں ہے ، ان کی پارٹی کا دستور لفظاً اسلام پر استوار نہیں ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اردوان کے تمام اقدامات معنا ً صرف اسلام سے جڑے ہیں ، ان کی حکومتی کاوشوں سے تُرک مسلمان دینی اعتبار سے ان آزادیوں سے بہرہ ور ہوئے ہیں جن سے وہ یکسر محروم تھے ۔ ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا جب تُرک قوم میں کھلم کھلا اسلام کا نام لیا جا سکے گا اور ترکی کے حکمرانوں کے لیے کتاب و سنّت کے مطابق نظم ِمملکت کو چلانے کا عوامی اور قومی مطالبہ ٹالنا ناممکن العمل نہ ہو گا ۔ہمیں افسوس ہے کہ اردوان کے مغرب زدہ ناقدین وہ لوگ ہیں جو یا تو اسلام کے حسن جمال اور ہمہ گیریت سے ناآشنا ہیں یا اس مغالطے میں ہیں کہ وہ کتاب و سنت کے علمبردارہیں۔یہ انہی دو طبقات کا ذہنی فساد ہے جو دنای میں کہیں بھی اسلام کی مخالفت میں ان کی زبان پر آجاتا ہے ۔ اردوان کی کامیابی پر خوشیاں منانے والوں نے تُرک قائد کو کبھی اصطلاحی معنیٰ میں ’’امیر المومنین‘‘ قرار نہیں دیا ، نہ انہیں اس سے کو ئی غرض ہے ۔اسلام پسند اور دین دار لوگوں کا وتیرہ ہے کہ انہیں کہیں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہونے کی خبر ملے تو جسد واحد ہو نے کے ناطے غمگین ہوجاتے ہیں اور کہیں مسلمانوں کو راحت ، آسانی اور کامیابی نصیب ہو تو اس کی اطلاع پاکر وہ شادماں ہوجاتے ہیں ۔ اللہ تُرک قوم کو اردوان کی سربراہی اور قیادت میں مزید دینی ودنیوی کامرانیاں عطا کر ے۔ آمین