Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

ترنم ریا ض

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: February 22, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
13 Min Read
SHARE
 کشمیر سے تعلق رکھنے والی ترنم ریاض ایک اچھی شاعرہ ہیں اور ایک کامیاب افسانہ نگار اور ناول نگار بھی۔’’برف آشنا پرندے ‘‘ اور ’’مورتی‘‘ ان کے مشہور ناول ہیں۔اس کے علاوہ انہوںنے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں اور کچھ ترجمے بھی کیے ہیں۔ لیکن بحیثیت ایک افسانہ نگار  وہ  ایک منفردمقام رکھتی ہیں۔ ترنم ریاض کی تخلیقات پڑھنے سے بخوبی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا زندگی کو دیکھنے کا اپنا ایک الگ زاویہ ہے۔ترنم کے یہاں ماحول اور حالات کا عکس صاف د یکھا جا سکتا ہے ۔افسانہ ’’ مٹی ـــ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
   ’’اندر گھروں کی تلاشی ہو رہی تھی،تلاشیاں لینے والے ایک گھر میںآجا رہے تھے۔ایک وردی پوش جب ایک گھر سے نکل کر دوسرے گھر میں جانے والاتھا ۔اس کی پتلون کی پچھلی جیب میں سونے کی ایک زنجیر جھانک رہی تھی۔وہ جلدی میں شاید اسے اچھی طرح تھونس نہ پایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری۔۔۔۔۔میری بچی کی ہے۔۔۔۔اس کی شادی کے لیے ہلال احمد کا ہمسایہ  غلام حسن زور سے بولا اور بھاگ کر وردی پوش کے پاس پہنچ لڑکی باپ کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی گئی اور کچھ دوری پر رک گئی۔ــ‘‘
 افسانہ’’مٹی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ترنم ایک جگہ لکھتی ہے:
’’افسانہ ’’مٹی‘‘نے بھی ازحد رنجیدہ کیا تھا مجھے۔اس افسانے کو تحریر کرنے سے پہلے میں کچھ دیر کے لیے اس ماحول میں رکی۔وہاں کی گھٹن،درد،کرب اور ہر شے پر محیط مایوسی میرے اندر جذب ہوگئی تھی تب ’’مٹی‘‘ کا ظہور  ان باتوں میں کتنی صداقت ہے اس کا اندازہ افسانہ پڑھ کر ہی ہوتا ہے۔اگرچہ یہ افسانہ ایک مخصو ص ماحول اور مسائل کی پیداوار ہے لیکن ترنم کی تخلیقی بصیرت نے اس افسانے کو علاقائیت سے اوپر اٹھا کر ایک آفاقی عظمت عطا کی ہے۔نام نہاد دہشت گردی کے نام پر آج دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ان جنگوں میں ایک عام انسان بنا کسی قصور کے پسا جا رہا ہے اور عام انسان پر  ان  جنگوں کا کیا اثر ہو رہا ہے وہ ہم دیکھ بھی رہے ہیںاور محسوس بھی کر رہے ہیں۔ ’’مٹی‘‘ ْ افسانے میں افسانہ نگار نے جنگ سے متاثرہ ایک مظلوم انسان کے مظلومیت اور مسائل کو جس فنکاری سے پیش کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ہلال احمد کی گرفتاری اور کشن لال سے ہلال احمد کی گفتگو کو افسانہ نگار نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ہلال احمد  کی گرفتاری کے بعد اس کی ماں کی کیسی حالت ہوتی ہے،اس منظر کو آپ بھی ملاحظہ کیجئے:
’’ہلال احمد کی ماں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سڑک پر نکل آ تی ہے۔جینس ٹی شرٹ پہنے کسی لڑکے کو بغور دیکھتی ہے۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔ہلال احمد کے متعلق پوچھتی ہے۔پھر مایوس ہو کر رو پڑتی ہے۔کسی اور طرف چل دیتی ہے۔‘‘
 اس اافسانے کے کردار بہت جاندار ہیں اور کرداروں کی نفسیات  اورجذبات کی عکاسی میں افسانہ نگار نے بڑی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے اور واقعی یہ افسانہ اردو کے اچھے افسا نوں کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔
’’ اچھی صورت بھی کیا‘‘  میں ترنم ریاض  نے موجودہ دور کے ایک اہم مسئلے کو سامنے لایا ہے۔شہروں  میںبڑھتی بھکاریوں کی تعداد اور اس کے تحت معصوم بچو ں  کے  استحصال  نے اب ہمارے سماج میں ایک ناسور کی شکل اختیار کی ہے۔افسانے میں ایک معصوم بچے راہل کی کہانی پیش کی گئی ہے۔راہل کا اغوا بھیک مانگنے کے لیے کیا جاتا ہے۔افسانہ پڑھ کر ہم پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح حالات اور ماحول  معصوم بچوں کوچوری اور دوسرے جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں۔راہل کا باپ ایک شرابی ہوتا ہے جسے اپنے اولاد کی کوئی فکر نہیں۔وہیں دوسرا بھیک مانگنے والا بچہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔پولیس جب ان بچوں کو سرغنہ کے ساتھ  پکڑتی ہے تو خوف کے مارے ان  بچوںکے منہ سے یہ جملے نکلتے ہیں:
’’رضیہ بی ہماری سچی ماں ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔دیکھا رضیہ بی ہم نے اور کچھ نہیں بتایا نا؟۔۔۔ہم کو مت مارنا۔‘‘
ان جملوں سے یہ بات اچھی طرح مترشح ہوتی ہے کہ کس طرح یہ معصوم بچے خوف کے اندر پلتے اور جیتے ہیں۔خوف کے مارے یہ بچے سچ  بھی نہیں بول سکتے۔بلکہ ان کا کام  صرف  چپ چاپ بھیک مانگنا ہوتا ہے۔اور آج بھی ان بچوں سے ہماری ملاقات آئے دن ہوتی رہتی ہے۔
افسانہ  ’’برآمدہ ‘‘  موجودہ سوسائٹی کے ایک اہم مسئلے پر مبنی ہے۔افسانے کی ہیروئن شہلا کا شوہر سہیل دوسری عورتوں میں زیادہ دلچسپی  دکھاتا ہے۔شہلا کے لیے شوہر کا یہ برتائو اذیت سے کم نہیں۔وہ اسے روکنے کی بہت کوشش کرتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہو                                                                                                                                                                                                                                                                 پاتی۔شہلا کو اس ماحول سے گھٹن سی ہوتی ہے ۔ یہ ایک فطری چیز بھی ہے ا س عورت کے لیے جس کا  مرد  دوسری عورتوں میں دلچسپی لیتا ہے  ۔’’یہ سمجھنے میں مجھے خاصا وقت لگا کہ سہیل اس مہارت سے جھوٹ بولتا تھا کہ دوسرے جھوٹ تک ان پر شک کرنے کا کوئی جواز نظر نہ آتا تھا اور اب سوچتی ہوں کہ اگر انہیں جھوٹ بولنے پر اتنا ملکہ حاصل نہ ہوتا اور میں ان کے جھوٹ کو سچ نہ سمجھتی تو شائد اتنے برسوں کا تنائو جھیلنا میرے بس سے باہر تھا۔‘‘
 شہلا اپنے شوہر کی ان حرکتوں سے بہت تنگ آتی ہے۔اس سے پہلے کہ وہ خود بھی اپنے شوہر جیسی  حرکتوں پر اتر آئے،وہ اپنے آپ کو یہ سوچ کر روک لیتی ہے :
’’ جلدی سے زینہ طے کرکے اپنی خوابگاہ کی پنا گاہوں میں پہنچتے ہوئے میں یہ سوچ رہی تھی کہ آرزو کو  توکوئی نہ کوئی جواب مل ہی جائے گا۔۔۔۔۔اور خود مجھ 
ظاہر ہے کہ افسانے میں ہمارے معاشرے کے ایک اہم مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے جس نے اب  ایک  ناسور شکل اختیار کی ہے۔اس مسئلے نے  ایک ایسی شکل اختیار کی ہے کہ اسے اب’’ ہم جنس پرستی‘‘ کی طرح صرف قانونی حیثیت ملنے کی دیر ہے۔دوسری طرف ان جیسی مردوں کی بیویاں بھی پھر اسی چیز کی شکار ہوتی ہے اور ایک اچھے گھر کو بکھرتے دیر نہیں لگتی۔  آج یہی چیزیںسماج میںانتشار پھیلا نے میں آگے ہیں۔
           ترنم ریاض نے شہری زندگی کے مسائل پر بھی افسانے لکھے ہیںجس کی نمائندہ مثال افسانہ’’ شہر ‘‘ہے۔امان کو شہر آنے کی بڑی  آرزو ہوتی ہے اور ایک دن اس کی یہ آرزو پوری بھی ہوتی ہے۔شہر میں آ کر امان اور اس کی بیوی بابرا ایک فلیٹ میں رہنے لگتے ہیں۔امان دو دن کے لیے کسی کام کی غرض سے باہر جاتا ہے۔امان کی غیر حاضری میں اس کی بیوی کی موت ہوتی ہے ۔ امان کی بیوی کب مر گئی یہ صرف اس کے بچے جانتے ہیں کیوں کہ دو دن سے اس کے فلیٹ میں کوئی نہیں آتا۔افسانہ نگار نے یہاں شہری زندگی کی بے حسی دکھائی ہے ۔ایک لاش دو دن سے کمرے پڑی رہتی ہے اور اس کے ہمسایوں کو پتا بھی نہیں۔اس طری یہ افسانہ شہری زندگی  پر،جس میں جذباتوں کی اب کوئی قدر نہیںرہ گئی ہے  اور ہر طرف مادیت ہے  ، ایک بھرپور چوٹ ہے  ۔ترنم نے اپنی بیشتر کہانیوں کی بنیاد روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر رکھی ہے۔ گھریلو مسائل اور عورت مرد کے رشتے پرانہوںنے بڑے اچھے اور کامیاب افسانے لکھے ہیں۔بعض کہانیوں میں انہوںنے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نفسیاتی مسائل کو موضوع بنایا ہے۔افسانے’’آدھے چاند کا عکس‘‘اور ’’ گنچے‘‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔’’میرا پیا گھر آیا‘‘ میں ایک ایسی عورت کی کہانی پیش کی گئی ہے جو اپنی  ہر برائی کو خوشی سے برداشت کر لیتی   ہے  اور کبھی اف تک نہیں کرتی۔شمع ایک پاکباز اور صبر والی عورت ہے اور اس کا شوہر شہیر شادی کے بعد دوسری عورتوں میں دلچسپی لیتا ہے۔شہیر کی ان حرکتوں سے شمع ذہنی طور پر کافی  پریشان رہنے لگتی ہے۔وہ اپنے درد کا درماں خواجہ کے دربار میں ڈھونڈ لیتی ہے ۔خواجہ کے دربار میں جانا اس کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتا ہے جہاں اسے تھوڑا بہت سکوں ملتا،جس کے لیے وہ گھر میں ترستی ہے۔
ترنم ریاض کے افسانوں کا کینوس کافی وسیع ہے۔ وہ اپنے افسانوں کی بنیاد  روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے  واقعات پر رکھتی ہیں۔لیکن یہ واقعات اہم ہیں اور ہمارا سامنا روز ان سے ہوتا رہتا ہے۔وہ اپنے افسانوں میں رندگی کے عام  مسائل کو بڑی فنکاری سے پیش کرتی ہیں۔ وہاب اشرفی، ترنم ریاض کی تخلیقی انفرادیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:   
 ’’ ترنم ریاض ایک فعال افسانہ نگار اور شاعرہ کی حیثیت سے احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہیں۔انہوںنےعورتوں کے مسائل کے ساتھ ساتھ اْن رخوں پر بھی توجہ کرنے کی کوشش کی ہے جن سے ہم کسی نہ کسی طور پر متاثر ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج کے منظرنامے پر محیط اْن کے افسانے اپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ زندگی شادمانیوں کے اطراف بھی پیش کرتے ہیں۔‘‘ ترنم ریاض آج بھی بڑی انہماک سے لکھ رہی ہیں ۔ان کا قلم ابھی تھکا نہیں ہے اور اس میں اب بھی پہلی جیسی ذرخیزی موجود ہے۔  زبان اور کردار نگاری پر توجہ دینی کی ضرورت ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ کشمیر میں پچھلے تیس سال سے جو ـنامساعدحالات چل رہے ہیں، انہیں موضوع بنا کر مصنفہ کے قلم سے کوئی بڑی تخلیق سامنے آئے گی تاکہ اردو کے قارئین بھی اُس گمراہ کن سحر سے باہر آجائے جو میڈیا اور رومانی ادب نے کشمیر کے تناظر میں پھیلا رکھا ہے ۔فکشن کی دنیا میں ترنم ریاض سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔
رابطہ :جواہر لال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی
ای میل[email protected]
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پی ایم او کے مشیر ترون کپور کا لالچوک دورہ | تاجروں اور مقامی لوگوں سے ملاقات
صنعت، تجارت و مالیات
چیمبر آف کامرس کاپیوش گوئل کو میمورنڈم پیش | مرکزی وزیرکاکشمیر میں آئی ٹی سیکٹر کو ترقی دینے پر اتفاق
صنعت، تجارت و مالیات
ڈیجیٹل سکلنگ پلیٹ فارموں کا فروغ ناگزیر:ستیش شرما
صنعت، تجارت و مالیات
سرینگر میںٹی آئی آئی ٹریڈرس کنکلیو ۔2025 | جموں و کشمیر کی روایتی صنعتوں کیلئے ٹیکس میں چھوٹ زیر غور:پیوش گوئل
صنعت، تجارت و مالیات

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?