شعیب رضا فاطمی
ہم آج ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں ضرورت سے زیادہ مادیت کی بھوک ہی ہمارا کلچر بن کر رہ گیا ہے ۔ ہمارا ماحول امیر اور باطن غریب ہوچکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ دنیا بدل رہی ہے جو صرف ایک بکواس ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مادیت کی بھوک نے ہمیں اس قدر خود پسند بنا دیا ہے کہ ہم سب اپنی اپنی آسائشوں کے حصول کی تگ ودو میں ایک دوسرے کے سامنے بطور حریف کھڑے ہو گئے ہیں اور ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جسے مسابقہ یا ہیلدی کمپیٹیشن کا نام دے کر خود کو بہلانے میں مصروف ہیں ۔اور اس مسابقے میں ہماری مادی بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارا سکون غارت ہو چکا ہےاور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ذہنی خلجان سے لے کر نہ جانے کتنے عوارض نے ہمارے جسم کو اپنی رہائش گاہ قرار دے لیا ہے ۔ترقی یافتہ کہلانے اور ماڈرن تہذیب کا فرد ہونے کا فخر حاصل کرنے کی دھن میں ہم سے ہمارا کیا کچھ غائب ہو گیا ہے اس کا ہمیں احساس بھی نہیں ہے ۔لیکن خود کو ہم اپ ڈیٹ سمجھتے ہیں ہمارا یقین ہے کہ ہم جس گلوبل ویلیج کے فرد ہیں اس میں مواسلات کے ذرائع اتنے کارگر ہیں کہ کوئی کسی سے کچھ چھپا ہی نہیں سکتا ۔سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ،لیکن پھر بھی ہم یہ دیکھ نہیں پارہے ہیں کہ امریکہ میں 18 فیصد بالغ افراد نیند کی گولیاں کھا رہے ہیں۔ پوری آبادی میں سے تین میں سے ایک شخص کو نیند کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ فرانس میں 32 فیصد لوگ اس بیماری کا شکار ہیں۔ سویڈن میں 2000 سے 2022 کے درمیان بالغوں میں اس بیماری میں 71 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فرانس میں یہ تعداد 32 فیصد ہے۔ کوئی امیر ملک نہیں جو اس بحران سے نہ گزر رہا ہو۔ اعداد و شمار میں اتار چڑھاؤ ہو سکتا ہے، کیونکہ مختلف ادارے تحقیق کرتے ہیں اور انہیں شائع کرتے ہیں، لیکن اس کے پھیلاؤ پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔
امریکہ میں نیند کی گولیاں لینے والوں میں گورے 10.4 فیصد اور کالے 6.1 فیصد ہیں۔ ایشیائی لوگوں کی تعداد صرف 2.8 فیصد ہے۔ نیند سے متعلق کاروبار پوری دنیا میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا، سنگاپور، ملائیشیا، ہندوستان وغیرہ ممالک میں ذہنی اور طرز عمل کا عدم توازن تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھر میں 20 فیصد بچے اس کا شکار ہیں۔ گزشتہ دہائی کے مقابلے اس بیماری میں تیرہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آسٹریلیا میں 45 فیصد بالغ افراد اس بیماری کا شکار ہیں۔ ملائیشیا میں 2.92 فیصد نوجوان اس سے نبرد آزما ہیں۔اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیاریاں بھی جاری ہیں۔ ڈاکٹروں، ادویات اور ماہر نفسیات کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ ایسے لوگوں کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ یہ بیماری خودکشی اور موت کی صورت میں بھی نکلتی ہے۔ یہ دنیا میں کل اموات کا 3.7 فیصد سبب بنتا ہے۔ اس بیماری اور اس کے نتائج میں ہندوستان بھی پیچھے نہیں ہے۔ کچھ تعلیمی ادارے، جہاں بچوں کو اپنے کیرئیر کو سنوارنے کے لیے بھیجا جاتا ہے، وہ انھیں سنبھال نہیں پاتے۔ خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ہمارے ملک میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی خود کشیاں بھی ہمیں ڈرا رہی ہیں ۔ کوئنز لینڈ برین انسٹی ٹیوٹ کی تحقیق چونکا دینے والی ہے۔ اس کے مطابق دنیا کی نصف آبادی اس ذہنی بیماری کا شکار ہو گی۔
لیکن ہم جو خود کو بہت باخبر سمجھتے ہیں اس مسلے سے نبرد آزما ہونے کے لئے کیا تیاری کر رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سہولتوں، امنگوں اور مادیت پسند رجحانات میں اضافے کے ساتھ انسان اپنے ذہن پر کنٹرول کیوں کھو رہا ہے؟ نو لبرل مادیت نے مسابقتی زندگی کو بازاری زندگی سے جوڑ دیا ہے۔ بیرونی دنیا، جس میں بازار سب سے نمایاں ہے، ہماری زندگی کی ثقافت کا تعین کر رہی ہے۔
مارکیٹ اور مادی وسائل کا فیصلہ ضروریات کے مطابق کیا گیا۔ اب مارکیٹ اور انتہائی مادیت کی بھوک ہماری ضروریات کا ایک مصنوعی کلچر بنا رہی ہے۔ ہمارا ماحول امیر اور باطن غریب ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرے کی یہ یک طرفہ شکل کیوں ابھر رہی ہے؟ اس خوفناک مسئلے کا حقیقی حل سماجی شعور، روحانی حساسیت اور مقامیت سے جڑی ثقافت کی ترقی ہے۔ روحانیت میں لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ روحانی دنیا میں رسمی فطرت کا فروغ ہے۔ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کا ہمارے اس ماضی سے کتنا رشتہ باقی بچا ہے جس ماضی میں نیند کے لئے نیند کی گولی نہیں کھانی پڑتی تھی ۔طالب علم خودکشی پر آمادہ نہیں ہوتے تھے ۔دولت کی فراوانی کے باوجود انسانیت بھی باقی تھی ۔لیکن آج ہم اپنے اپارٹمنٹ کے تمام مکینوں کے ساتھ مل کر کوئی خوشی سیلیبریٹ نہیں کرتے ۔