جموں ۔سرینگر شاہراہ پر چنینی سے ناشری تک ٹنل بننے سے جہاں یہ طویل مسافت قدرے کم ہوئی ہے اور مسافروں نے قدرے راحت کی سانس لی وہیں اس سے یہ منفی نتائج بھی برآمد ہوئے کہ کد ، بٹوت اور پتنی ٹاپ میں رہ رہے لوگوں کا روزگار متاثر ہو گیا ہے اور وہ آج سیاحوں اور مسافروں کی راہ توتک رہے ہیں لیکن کوئی نظر نہیں آرہا۔ماضی میں جون کے مہینے کے دوران پتنی ٹاپ پر سیاحتی سرگرمیاں شباب پر ہوا کرتی تھیں اورگرمیوں کی تعطیلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جموں خطے سے بڑی تعداد میںلوگ گرمی بچنے کیلئے پتنی ٹاپ جایاکرتے تھے اور ساتھ ہی بیرون ریاست کے سیاح بھی اس مقام کو دیکھنے کیلئے آتے لیکن رواں برس جون کے مہینے میں سیاحوں کی آمد میں ریکار ڈ گراوٹ آئی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق سیاحوں کی آمد میں پچاس فیصد گراوٹ ہوئی ہے ۔چنینی ناشری ٹنل کی تعمیر کے ثمرات تو کسی سے پوشیدہ نہیں اور اس ٹنل کی تعمیر نے جموں سرینگر شاہراہ پر سفر کو آسان بنادیا لیکن پتنی ٹاپ اور سناسر و گرد نواح میں سیاحتی شعبے سے وابستہ سینکڑوں کنبوں کیلئے روزی روٹی کا مسئلہ پیدا ہوگیاہے اور قدرتی حسن سے مالامال اس علاقے میں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے ۔ پتنی ٹاپ ،سناسر ،کد اوربٹوت میں محکمہ سیاحت کے چار سیاحتی ڈاک بنگلوں اور کئی سنگل و ڈبل بیڈ روم والے خوبصورت ہٹس کے علاوہ سینکڑوں چھوٹے بڑے ہوٹل اور ریستوران بھی ہیں جن کے مالکان اور ان میں کام کرنے والے ملازمین کیلئے ان دنوں روزی روٹی ایک بہت بڑا مسئلہ بناہواہے ۔ سیاحتی شعبے سے وابستہ لوگ دن بدن اپنے کا رو بار کی حالت دیکھ کرسخت تشویش و فکر مندی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ان علاقوں میں سیاحتی سرگرمیاں بحال کرنے اور ہوٹل مالکان کو روزی روٹی کمانے کیلئے ٹنل کے ذریعہ آمدورفت کوتو بند نہیں کیاجاسکتاتاہم ایسے اقدامات ضرور کئے جاسکتے ہیں جن سے نہ صر ف ملکی بلکہ بیرون ملک کے سیاح بھی اس جانب راغب ہوں اور مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش چلتارہے ۔حکومت نے کئی مرتبہ اس علاقے کے لوگوں کو اس بات کا یقین بھی دلایاہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جائے گی اور روزی روٹی کا کوئی نہ کوئی بندوبست کیاجائے گا۔اگرچہ کد او ر دیگر مقامات پر دوکانوں کے ذریعہ کاروبار کررہے کچھ لوگوں نے اپنا کاروبار سمیٹ کرسمرولی اور دیگر نچلے علاقوں میں منتقل کردیاہے لیکن بہت بڑی تعداد میں لوگ ایسے ہیں جو کہیں کے نہیں رہے اوران کے پاس دوسری جگہ پہنچ کر نئے سرے سے کام شروع کرنے کیلئے نہ وسائل ہیں اور نہ ہی زمین ۔ایک ایسے وقت میں جب ریاست بھر میں بیروزگاری کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوتاجارہاہے ، جموں خطے کے اس علاقے کے نوجوانوں کے روزگار کیلئے کوئی نہ کوئی انتظام ضرور کرناہوگانہیں ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ پتنی ٹاپ اور گردونواح میں سیاحتی سرگرمیوں کو بڑھاوادینے کیلئے اقدامات کرے اور بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کیاجائے ۔ساتھ ہی ساتھ سیاحوں کو راغب کرنے کیلئے بھی اقدامات کئے جائیں تاکہ ذریعہ معاش چلتارہے اور لوگ روزی روٹی کیلئے دربدر بھٹکنے پر مجبور نہ ہوں ۔