سید مصطفیٰ احمد
زندگی ایک مسلسل کاٹ ہے۔ کُھردرے راستوں کے بیچ میں دریا کی مانند اپنا راستہ بنانے کا نام زندگی یا ترقی ہے۔ برتنوں کو ایک ساتھ رکھیں تو ان کا ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانا یقینی ہے۔اسی طرح زندگی کے معاملات میں لوگوں کا ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہونے سے اختلافات اور لڑائیاں ہونے کے امکانات اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں لوگ ایک دوسرے کو گرانے میں لگتے ہیں ،جس سے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کا صرف یہی منشا ہے کہ مختلف افکار کے درمیان ترقی تب ہی ممکن ہے جب ایک ٹہنی میں لچک کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ بالفاظ دیگر جب اپنی بنیادوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کے باوجود بھی دریا کی روانی کے ساتھ بہا جائے، وہی دائمی ترقی کہلاتی ہے۔ اختلافات کے باوجود مجھے یہاں وحید الدین خان صاحب کی کچھ باتیں یاد آرہی ہیں۔ ان کی چند کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے ایک سبق نچوڑ لیا ہے کہ زندگی کا دوسرا نام ہے اختلافات کے درمیان ایک لچک دار ٹہنی کی طرح حالات کے مطابق اپنی آپ کو جھُکا لینا۔ یعنی حالات کے مطابق غور و فکر کرنے کے بعد ہی کسی کی مخالفت کرنے میں ہی زندگی اور ترقی کا راز پنہاں ہے۔اس سے بڑھ کر خان صاحب کہتے ہیں کہ ترقی کا راز بھی اس بات میںچُھپا ہے کہ تم اپنے آپ کو غلط ٹھہرانے سے کبھی بھی نہ ہچکچائو۔ اس قسم کی سوچ ہی اعلیٰ ذہن کی نشانی ہے اور یہی سوچ ترقی کی راہوں کو کھول دیتی ہیں۔
اگر ہم اپنے چاروں طرف نظردوڑائے تو یہ بات صاف دکھائی پڑتی ہے کہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہٹ دھرمی اور اَنّا کا زہر ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی گاڑی کو ایک دو قدم پیچھے لینے کے لیے تیار ہی نہیںہے۔ ہر کوئی limelight میں آنا چاہتا ہے۔ اپنی تعریفیں اپنے ہی منہ سے سننا چاہتا ہے۔ دوسروں کو گرانے میں رس آتا ہیں۔ غلط ہونے کے باوجود اپنی غلطی کو دوسروں کے کاندھوں پر رکھ کر اپنے آپ کو بری کر دیتا ہے۔ جب اس سے اپنے سے مخالف کی بات سننے کی تلقین کی جاتی ہے تو وہ طیش میں آتا ہے اور آناً فاناً الٹا سیدھا بول کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔ غرض یہ کہ لچک کی خصوصیت سے ایسا انسان کوسوں دور ہوتا ہے اور اَنا پرستی کے دلدل میں دُھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ اس انسان کی ترقی کی راہیں محدود ہوجاتی ہیں۔ یہ پورے سماج کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔ اس سے بدبو کے زہریلے کیڑے جنم لیتے ہیں۔ یہ صاف و شفاف پانی میں ناپاکی کے گندے قطرے ڈال کر سارے پانی کو گندہ کر دیتا ہے۔
جیسا کہ اوپر اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ترقی کا راز ندامت اور دوراندیشی میں پنہاں ہے۔ دوررس نتائج کے خاطر دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہی اصل ترقی کی بنیاد مضبوط کرتا ہے۔ کچھ قومیں دوسروں کی باتوں میں آئے بغیر اپنا کام بڑی خوبصورتی سے انجام دیتی ہیں کیونکہ ان کی منزل دائمی ترقی ہوتی ہے اور وہ ہر رکاوٹ کا لچک دار انداز میں اس طرح جواب دیتے ہیں کہ شاخ بھی بچ جاتی ہے اور پھل کے ڈھیر بھی لگ جاتے ہیں۔ انسانی وسائل کا بھی سب سے زیادہ پائیدار استعمال اسی ماحول میں ممکن ہے ،جس ماحول میں لچک اورجُھکنے کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جُھکنے سے رشتوں میں نکھار آتا ہے۔ جوجُھکتا ہے وہی جیت کا حقیقی جشن منا سکتا ہے۔
یہ اب انسان تک ہے وہ کیسے اپنی زندگی کا ڈھانچہ کھڑا کرتا ہے۔ ایسا ڈھانچہ بھی کھڑا کیا جاسکتا ہے جو جہالت اور اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہو، اس کے برعکس ایسے ڈھانچے کی بھی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے جو نرمی اور لچک کے نفیس خصوصیات سے لبریز ہو۔ اب انسان کو خود اپنے اندر کر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کونسا راستہ ترقی کی طرف اور کونسا تباہی اور مصیبتوں پر منتہج ہوجاتا ہے۔ یہاں پر Peblo Neruda کی ایک نظم Keeping Quiet کا ذکر موزوں لگتا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی،the silent introspection ہی دنیا میں امن و سکون اور ترقی کی نوید ہے۔ Blaise Pascal بھی اسی ڈگر پر چلتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ لمحات کی خاموشی ہمارے ترقی کے بند دروازوں کو کھولنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہر کوئی بولے جارہا ہے لیکن سُننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ جاتے جاتے مجھے انٹرنیٹ پر سُنےہوئے ایک واقع کی یاد آرہی ہے۔ کہتے ہیں کہ کسے زمانے میں لوگوں کو یہ خبر موصول ہوئی کہ آسمانوں میں بھی ہمارے طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ تو اس ضمن میں یہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ سارے لوگ ایک جگہ جمع ہوکر اس دورِ دنیا میں آباد لوگوں کو آواز لگائے تاکہ آواز اُن تک پہنچے، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ سارے لوگ یہ سوچ کر چپ رہیں کہ ہم بھی سُنیں کہ ایک ساتھ ہزاروں لوگوں کی آواز میں کتنی گونج ہے۔ یہ سوچ کر کسی نے بھی آواز نہیں لگائی۔ سارا ماحول شانتی اورسُکھ سے بھر گیا۔ اس حقیقی یا غیر حقیقی واقع میں ہمارے لئے اسباق کے ڈھیر چھپے ہیں۔ ترقی کے معنی شانتی ہے۔ اپنے کام سے کام رکھنا ہی ترقی ہے۔کائنات کے نظام میں رکاوٹ بننے سے پرہیز کرنا ہی اصلی ترقی کی ترجمانی ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!
رابطہ۔7006031540
[email protected]