ریاست کے اندر آبادیوں کے بے ترتیب پھیلائو کے بہ سبب جو دنیا ترتیب پا رہی ہے ، آنے والے قتوں میں وہ لوگوں کےلئے نہایت تکلیف دہ مشکلات کا سب بن کر سامنےآ سکتی ہے، کیونکہ ان بستیوں کو کسی منصوبے سے ماوریٰ ہو کر آباد کیا جاتا ہے، جن میں نہ تو بنیادی شہری سہولیات موجودومیسر ہوتی ہیں اور نہ ہی انکے فروغ کی کوئی گنجائش ۔ ساتھ ساتھ اس سارے عمل کے دوران سماوی آفات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ۔ جبھی تو شہر سرینگر کے گردو پیش میںکئی ایسے خطے بستیوں اور کالونیوں میں تبدیل ہو گئے ہیں جنکی سطح زیریں تھی اور سیلابی ایام میں پانی ان کے اندر پھیل جاتا ہے اور عمومی بستیاں تباہی سے بچ جاتی ہیں۔ جہاں اس حوالےسے عوام کے ایک بڑے حلقے میں احساس ذمہ داری کا فقدان پایا جاتا ہے ، وہیں سرکاری سطح پر بھی ایسے اقدام کئے جاتے ہیں ، جو ماحولیاتی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں ایساہی ایک فیصلہ ریاستی حکومت اُس وقت لیا جب کشمیر میں انڈین انٹی چوٹ آف منیجمنٹ قائم کرنے کےلئے سرینگراور بڈگام کے درمیان واقع ناکرہ نمبل میں آٹھ سو کنال اراضی مختص کرکے اسکی بھرائی کرانے کا منصوبہ تیار کیا گیااور یہ کام آر اینڈ بی محکمہ کو تفویض کیاگیا ہے، جس نے اس نیم آب گاہ میں مختص شدہ اراضی کی بھرائی کرنے کی خاطر پروجیکٹ رپورٹ بھی تیار کیا ہے اور اس عمل میں ڈیڑھ سو کروڑ سے زائد رقم خرچ کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب اس علاقہ میں ایک زبردست اہمیت کا حامل ادارہ تعمیر ہوگا تو اسکے گردو نواح میں آبادیاں بسانے اور تعمیر و ترغیب کا ایک نیا ماحول پیدا ہوگا، جیسا کہ ماضی میں دیکھنے کو ملا ہے، جب ایسی ہی اراضی پر سرکاری کالونیاں اور دفاتر وغیرہ تعمیر کئے گئے۔تو انکے گردو پیش میں نئی نئی بستیاں اور تجارتی مراکز معرض وجود میں آئے۔ ظاہر بات ہے یہ علاقہ بھی ماضی کی روایات کے مطابق بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے بیرو کریٹ طبقے اور آگے چل کر لینڈ مافیا کا نشانہ بن سکتا ہے۔ حکومت کے ایسے فیصلے ایک منفی ماحول کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں، جسکا خمیازہ آنے والی نسلوں کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ریاستی عدلیہ نے فی الوقت اس اراضی کی جوں کی تو ں حالت برقرار رکھنے کی ہدایت دیکر حکومت سے اس حوالے سے مفصل رپورٹ طلب کی ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی جانب سے اسی نوعیت کے فیصلوں، جن کی وجہ سے نکاسی آب کے خطے مسدود ہو کر رہ گئے ، کے بہ سبب 2014کے سیلاب میں ایک تباہ کن صورتحال دیکھنے کو ملی ہے۔ فی الوقت نارہ کرہ نمبل نالہ ٔ دودھ گنگا کے اضافی پانی کو جذب کرکے ایک وسیع علاقہ کو سیلاب سے بچانے کا سبب بنتی ہے، اگر اسے ختم کر دیا جائے تو شہر اور اس سے متصل درجنوں بستیوں کے لئے تباہی کا پیغام ہوگا۔ حکومت وقت وقت پر شہر کی ترقی کےلئے منصوبے بناتی ہے، لیکن ان منصوبوں میں ایسی خطرناک سوچ سے گریز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ویسے ہی شہر کا حال کتنا درست ہے کہ اسے مزید خطرات سے دو چار کیاجائے۔ ان بے ترتیب بستیوں کے پھیلائو میں مفاد خصوصی رکھنےوالے عناصر کو سرکاری اداروں کی جانب سے تعاون اور اعانت میسر ہوتا ہے، جو ان منصوبوں کے نفاذ کےلئے ذمہ دار ہیں۔ اس سارے عمل میں کشمیر کو دوہرے نقصان سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ ایک طرف اقتصادی خود کفالت کے بنیادی ذریعہ زرعی اراضی اور آبگاہیں، جو صدیوں تک کشمیری عوام کی حریت فکر کا مسلمہ و سیلہ رہی ہے، کو ان بے ترتیب و گنجلگ بستیوں کے جنگل کی تشکیل کی بھینٹ چڑھا کر معیشی انحصار کے سیاہ ابواب تحریر کئے گئے تو دوسری جانب شہری منصوبہ بندی کے قواعد و اصولوں کو روند ھ کر ایک ایسے رجحان کو فروغ دیا گیا، جو لوگوں کے خون پسینے کی کمائی کو مٹی میں ملانے کا سبب بنا ہے۔ اس بات کا ذکر دلچسپی سے شاید خالی نہیں ہوگا کہ اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے مقامی سطح پر بہت ہی قلیل فوائد حاصل ہوتے ہیں کیونکہ تعمیری سرگرمیوں میں کام آنے والا بیش تر سازو سامان بیرون ریاست سے آتا ہے، حتاکہ اب اس میں کام آنے والے انسان وسائل کےلئے بھی ہمسایہ ریاستوں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کےلئے اگر چہ عام لوگوں کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن بہ ایں ہمہ منصوبہ بندعمل آوری کےلئے حکومت ہی ذمہ دار ہے۔ شہر سرینگر گزشتہ چند دہائیوں سے جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، اُس کے نتیجہ میں شہر کے مضافات میں متعدد مقامات پر واقع زیر یں سطح کی زمینیں، جو تاریخی اعتبار سے زائد پانی کو سنبھالنے کا کام دے کر بالائی بستیوں کو سیلاب جیسی ایمر جنسیوں میں بچانے کا سبب بنتی تھیں، آج کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ 2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد کم و بیش ایک سال تک ان بستیوں کے اند رکسی نہ کسی طور پانی کی سطح بلند رہی، جس سے وہاں کے باسیوں کو بے بیان مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ایسا کیوںہوا ہے، اس کا جواب سر کار اور سرکاری اداروں کو تلاش کرنا چاہئے۔لیکن اس کے بجائے سرکار کی طر ف سے ہی ایسی غلطیاں دہرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اب تک جس پیمانے پر تباہی ہو چکی ہے، اُسکا صد فی صد ازالہ تو ممکن نہیں ہے۔ لیکن مستقبل کو بربادی کے سیلاب بے پیکران سے محفوظ کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جاسکتی ہے اور اسکی ضرورت ہے۔ ورنہ آنے والے ایام میں یہ شہر جونپڑپٹیوں کی ایک ایسی بدنما د نیا میں تبدیل ہوگا، جہاں نہ سڑکیں ہونگی نہ نکاسی آب کا بندوبست ، نہ کھلی دھوپ اور نہ ضرورت کے مطابق ہوا اور نہ ہی ایمرجنسی کا سامنا کرنے کی صلاحیت میسر ہوگی اور ان بستیوں کے اندر انسانوں کے نام پر رینگتے سایوں کے مجموعے ہونگے۔ دریں حالات حکومت کو ایسی کسی سرگرمی کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے، جو مستقبل میں کسی ایسی ایمر جنسی کامؤجب بن جائے،جسکا مقابلہ کرنے کی سکت حکومتی ڈھانچے میں نہ ہو۔