شبیر احمد مصباحی ۔دراس
بچوں کی تربیت پر جب بھی گفتگو ہوتی ہے تو لوگ ایسی ایسی تعریفیں کرتے ہیں کہ نئے اساتذہ و نوجوان والدین کےلئے تربیت اطفال ایک ایسا معمہ بن جاتا ہے کہ وہ اسی میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں کہ آخر تربیت کیا ہے۔کبھی کبھی تعلیم و تربیت ایک یکساں چیز نظر آتی ہے۔اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس تربیت کی تعریف کو آسان معنوں میں پیش کیا جائے۔اس سلسلے میں میری آگے کی گفتگو ہوسکےجو آپ کےلئے مددگار ثابت ہو ۔آسان لفظوں میں بیان کیاجائے تو ماہرین نفسیات یہ مانتے ہیں کہ ایک بچے کا دماغ کورا کاغذ اور خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے۔اس حساب سے دیکھا جائے تو اس خالی الذہن میں کیا بھرنا ہے، یہ اس بچے کے بڑے طے کرتے ہیں۔دوسری طرف عمر کے حساب سے بچہ گھر ،مکتب ،اسکول میں عمر کے مختلف مراحل میں مختلف لوگوں کے پاس ہوتا ہے تو وہ طے کریں گے کہ انہیں کن کن چیزوں کا انتخاب کرنا ہے۔اس ضمن میں کہیں پر پڑھی ہوئی ایک بات یاد آئی ،’’بچے وہ نہیں مانتے جو آپ کہتے ہیں بلکہ لاشعوری طور پر وہ کرتے ہیں جو آپ کرتے ہیں۔‘‘
دنیا کے ٹاپ فیشن ہائوسز کی بنیاد رکھنے والے مشہور فرنچ ڈیزائنر کرسچن ڈی آور نے کہا تھا ،’’حقیقی شائستگی کا راز عمدہ تربیت ہے، بیش قیمت ملبوسات، حیران کن زیبائش اشیاء اور خیرہ کن حسن کی تربیت عمدہ تربیت کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمدہ تربیت کیا ہے ؟بس اسی کو ذرا آسان لفظوں میں بیان کرنا ہے تو عمدہ تربیت یہ ہے کہ آپ بحیثیت والدین ،اساتذہ کے اس بچے کے اندر وہ تمام خوبیاں پیدا کریں جو آپ اپنے اندر یا ایک اچھے بچے کے اندر دیکھنا چاہتے ہیں۔
اب ان خوبیوں کو آپ اس کے اندر اپنے عمل سے ہی بیدار کرسکتے ہیں نہ کہ سختی و پابندیوں کے لا متناہی بوجھ ڈال کر ۔یہاں پر ایک بات کا خیال رہے کہ بے جا سختیوں سے بچے زیادہ تر ضدی بن جاتے ہیں دوسری طرف زیادہ لاڈوپیار بھی انہیں خراب کردیتا ہے، اس لیے میانہ روی اختیار کرتے ہوئے بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ آپ اس کے اندر یہ خوبیاں پیدا کرسکتے ہیں ۔تعلیم کی طرح تربیت کا مرحلہ بھی ایک صبر طلب امر ہے، جس میں نتائج بہت محنت کے بعد ہی نکلتے ہیں۔
بعض گھر کے بڑے بچوں کی موجودگی میں ہی لڑائی جھگڑے کرتے ہیں ،جھوٹ بولتے ہیں یا قہقہے کی مجالس منعقد کرتے ہیں ،ان سب کے منفی اثرات بچوں کی تربیت پر پڑتا ہے۔ بچے سوچنے لگتے ہیں کہ یہ عام سی باتیں ہیں۔دوسری طرف جن گھروں کا ماحول عمدہ ہو ،وہاں بچوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ،وہی بچے اسکول میں آ کر گھریلو ماحول کے اثرات کو ظاہر کردیتے ہیں تو اساتذہ کرام کو ان کے گھر کے ماحول کا چونکہ پتہ نہیں ہوتا یا سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے بھی وہ مجبور ہوتے ہیں تو بچے روز بروز تنزلی کی طرف چلے جاتے ہیں جس کی وجہ ایک بہترین سماج کی تشکیل بہت مشکل ہوجاتی ہے۔اس لیے سب کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کااحساس ہونا ایک بہترین تربیت یافتہ معاشرہ بنانے کے لئے بہت ضروری ہے۔