شوکت احمد ڈار
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ،جن کا تعداد لامحدود ہے اوراگر کوئی ان کا شمار کرنا چاہئے تو نہیں کر پائے گا ۔ان ہی نعمتوں میں بنی نوع انسان کے لئے اولاد بھی اعلیٰ نعمتوں میں شمار ہوتی ہے ۔ا س نعمت کی قدر وقیمت کا اندازہ صرف وہ لوگ لگا سکتے ہیں جن کادامن اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے محروم رکھا ہو ا۔ یہ ایک ایسی نعمت جس کی پرورش کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی صحیح تربیت کرنا والدین کا اہم فریضہ ہے ۔اولاد کی تربیت ایک اہم اور پیچیدہ معاملہ ہے ۔ جو ہر والدین کے لئے ایک بڑا چلینج ہے ۔ اولاد کی تربیت کا عمل ان کی زندگی کی بنیاد کو مضبوط بناتا ہے اور انہیں ایک بہتر مستقبل بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے ۔تربیت کا یہ مرحلہ بڑے بچوں کے مقابلے میں چھوٹے بچوں میں بہت ہی متاثر کن رہتا ہے ۔کیونکہ چھوٹے بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے ۔اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے، وہ نقش علی الحجر کی طرح مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے ۔ بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی و اخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے تو بلوغت کے بعد بھی وہ ان سے عمل پیرا رہے گا ۔اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق و اعمال کا مرتکب ہوگا ،اس کے ذمہ دار اور قصوروار والدین ہی ہونگے ۔جنہوں نے ابتداسے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی ۔ اس لحاظ سے یہ والدین پر منحصر ہے کہ وہ بچے کو کس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں ۔اگر وہ چاہتے کہ ان کا بچہ مطیع،فرمانبردار اور اچھا شہری بن کر اُبھرے تو اس کے لئے لازمی ہے کہ گھر کا ماحول اس کے موافق بنائے ۔ماہرین نفسیات کے مطابق بچپن میں اولاد کی تربیت جوانی کے بالمقابل بہت آسان ہے ۔جس طرح زمین سے اُگنے والے نرم و نازک پودوںکو بہ سہولت کہیں بھی موڑا جاسکتا ہے اسی طرح بچوں کے خیالات ،افکار اور طرز زندگی کو جس رُخ پر چاہے بہ آسانی لایا جاسکتا ہے اور جب وہ بڑے ہوجائیں اوراُن کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور ہوتی ہے ۔اس لئے ابتدائی عمر میں بچوں کی نگرانی اور ا ن کی صحیح تربیت والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔
’’تربیت‘‘ایک ایسا لفظ ہے ۔جو اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ اس لفظ کے تحت بچے کی تربیت ،افراد کی تربیت ،خاندان کی تربیت ،اسکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کی تربیت ،قوم کی تربیت وغیرہ، ان سب کی تربیت کا اصل مقصد عمدہ ،بااخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے ،یا بُرے اخلاق و عادات اور اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق و عادات اور صالح ،پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام تربیت ہے ۔ اس سلسلے میں جو تربیت کرنے والا خواہ والدین ،سرپرست یا اساتذہ ،انہیں اس بات کا علم ضرور ہونا چاہئےکہ بچے کی نشونما کس طرح ہوسکتی ہے ۔اکثر والدین ان باتوں سے بے خبر ہوتے ہیں ۔کہ بچے بڑوں کی نقل اتارنے میں دیر نہیں کرتے ۔ہوبہو وہی دوسروں کے سامنے پیش کرتے جو کچھ وہ اپنے بڑوں سے سنتے اوردیکھتے ہیں ۔ اس لئے والدین کو چاہئے اپنے بچوں کے سامنے ناشائشتہ الفاظ کبھی بھی اپنی زبان پر نہ لائے ، ان کے سامنے دوسروں کی برخلافی کرنے سے گریز کرے اور کوئی ایسی بات بولنے سے پرہیزکرے جس کی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہو۔کیونکہ جھوٹ بولنا بری عادت ہے ۔جس کے متعلق مذہب اسلام نے سخت وعید فرمائی۔ اللہ کے نبی ؐ نے بچوں کو امید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا، اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق و کردار پرمنفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے ۔ بچہ مشاہدے سے سیکھتا ہے اُس کا اثر قبول کرتا ہے اور پھر رد عمل بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ وہ لاشعوری طور پر اپنے والدین کو آئیڈلائیزکرتا ہے اُن ہی کو فالو کرتا ہے ۔بہتر ہے کہ جو کچھ ہم اُن کو بنانا چاہتے ہیں، اُن کے سامنے عملی نمونہ پیش کردیں ۔
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے شخصیات کو بنانے اور سنوارنے کے پیچھے ان کے والدین ہی کا ہاتھ رہا ہے اور اسلامی تاریخ کے بہت سے نمونے بھی اس کا واضح اور بین ثبوت ہیں ۔ امام بخاریؒ کے پیچھے ان کی زبردست تربیت میں ان کے ماں کا ہاتھ ہے ۔ شیخ عبدلقادر جیلانی ؒ کی بنیادی تعلیم میں ماں ہی کا بہت بڑا اثر ہے ۔اسلامی کتب میں متعدد ایسے واقعات موجود ہے جن سے یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ بچے کو سنوارنے اور بگاڑنے میں سب سے اہم کردار ان کے والدین کا ہی ہے اور جن بچوں کے والدین مذہب اسلام کے بنیادی اصولوں سے آگاہ ہیں، یقیناًوہ اپنے بچوں کے تربیت میں اہم کردار نبھا سکتے ہیں ۔بحیثیت مسلمان ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب بچہ بڑا ہوجاتا ہے وہ اپنے والدین کی خدمت نہیں کرتا ہے اورنہ ہی ان کے حقوق ادا کرتا،جو کہ آج کل کے معاشرے میں بیشتر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کتنے لوگ ہیں جنہیں اپنے حقوق کا علم ہے مگر اولاد کے حقوق نہیں جانتے ۔اپنے حقوق کا مطالبہ اس انداز میں کرتےہیں جیسے انہوں نے اولاد کے تمام حقوق اداکردئے ہوں ۔حالانکہ بہت کم لوگ ہوں گےجو اولاد کے حقوق ادا کرتے ہیں ۔اب جنہوں نے اولاد کے حقوق خود ہی ادا نہیں کئے ،ان کا حقوق کا مطالبہ کرنا بھی درست نہیں ۔ایسے والدین کو سیدنا عمرفاروقؓ کے زمانہ خلافت میں پیش آنے والا یہ واقعہ ذہن نشین رکھنا چاہئے ۔ حضرت عمر فاروقؓ کی عدالت میں ایک باپ اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ دائر کیا، کہ میرا بیٹا میرا حق ادا نہیں کرتا ، مجھے نظر انداز کرتا ہے ۔امیر المومنین نے اس کے بیٹے کوبُلایا ، بیٹے نے کہا کہ اے امیر المومنین !کیا اولاد کا والد پر کوئی حق نہیں ہوتا ؟ کیا باپ ہی کا سارا حق اولاد پر ہے ؟ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا، ہاں کیوں نہیں اولاد کا بھی باپ کے ذمہ حق ہے ۔لڑکے نے کہا ،وہ حق کیا ہے، آپؓ ان کو بتلا دیں۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا کہ باپ کے ذمہ اولاد کا ایک حق یہ ہےکہ وہ نکاح کرتے وقت اولاد کے لئے اچھی ماں کا انتخاب کرے، اسی طرح اس کا اچھا نام رکھے ۔اس کے بعد اسے قرآن مجید کی تعلیم سے آراستہ کرے ۔لڑکے نے کہا، ’’میرے والد نے ان میں سے میرا کوئی بھی حق ادا نہیں کیا ، میری ماں مسلمان نہیں مجوسی ہے، میرا نام جعل رکھا ،جس کا معنی بھی ٹھیک نہیں اور مجھے قرآن کریم کی تعلیم نہیں دی ۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمر فاروقؓ باپ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہہ کر مقدمہ اپنی عدالت سے خارج کردیا کہ’’ جب تم نے خود اپنا حق ادا نہیں کیا تو تمہیں بھی اپنا حق مانگنے کا اختیار نہیں ۔پہلے تم اپنے ظلم کی تلافی کرو ،پھر لڑکے کے ظلم کی فریاد کرنا، تم نے خود اس سے زیادہ اس کی حق تلفی کی ہے ۔‘‘ والدین کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں ہم بھی اپنی اولاد کا حق ادا کئے بغیر ان سے اپنا حق یک طرفہ طور پر نہیں مانگ رہے ہیں ۔جب بچہ بڑا ہوجاتا ہے اور اپنے والدین کی کوئی کام کرنے سے ا نکا رکرے تو عام طور پر والدین کے زبان سے اپنے بچے کے حق میں یہ الفاظ نکلتےہیں کہ اسی لئے آپ کو اتنا بڑا کیا ۔حالانکہ بچہ کوصرف پیٹ بھر کر کھانا کھلادینا ،دودھ پلادینا یا عمدہ لباس پہنا دینا یا ایسی تعلیم سے آراستہ کرنا جو صرف مادی وسائل تک محدود ہو ۔اس سے بڑھ کر تربیت ایک ایسی عمل ہے جو انہیں بہیمانہ رویہ سے پاک کرتی ہے اور والدین کے بڑھاپے میں انہیں ایک سہارا اور دنیا کے لئے ایک اچھا شہری نکھر کر سامنے آتا ہے ۔والدین اس بات کا خاص رکھیں کہ اپنے بچوں کے درمیان میں مساوات برقرار رکھیں تاکہ کوئی بچہ عدم توجہی کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار نہ ہو جائے۔ اگر کسی بچے میں احساس کمتری نے جگہ بنا لی، یہ اُس کے مستقبل کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا ۔ جب بھی کبھی بچہ آپ سے بات کرتا ہے، تو توجہ سےسُنو، ایسا کرنے سے بچے کی شخصیت میں اعتماد پیدا ہوتا ہے ۔ ایک شخص آنحضرتؐ کے پاس بیٹھا تھا ،اُس کا لڑکا آیا تو اس نے بوسہ لیا اور زانو پر بٹھا لیا ،پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے سامنے بٹھا لیا ۔آنحضرتؐ نے فرمایا: تم نے دونوں کے ساتھ یکسان سلوک نہیں کیا ۔ اولاد کے درمیان برابری کرنا واجب ہے اور برابری نہ کرنا ظلم میں شمار ہوگا۔اللہ تعالیٰ تمام والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی توفیق عظا فرمائے۔ آمین
u.darshowkat@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔