بچوں کے تعلیم اور تربیت کیلئے اسلام نے ایسے کئی رہنما اصول بتائے ہیں جن پر عمل کرنے سے والدین اپنی اولادکو نہ صرف بہتر راستوں پر گامزن کرسکتے ہیںبلکہ انہیں ایک اچھا سچا مسلمان اور قوم و ملت کا بہترین فرد بنا سکتے ہیں ۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کے بہترین اصولوں کے حوالے سے چند سوال یہ ہیں کہ بچے کی تعلیم و تربیت کہاں سے شروع ہو ؟بچے کی تربیتی ذ مہ داری کس پر عائدہے ؟ یہ ذمہ داری کس حیثیت سے ادا کرنی ہے ؟بہت ساری مائیں سوچتی ہیں کہ بچے کی تربیت اُس وقت شروع ہوتی ہے جب بچہ بولنے لگتا ہے ،کچھ مائیں سمجھتی ہیں کہ بچے کی تربیت اُس وقت سے شروع ہوتی ہے جب بچہ بولنے لگتا ہے، جب کہ بعض مائیں کہتی ہیں کہ بچے کی تربیت اُس وقت شروع ہوتی ہے جب بچہ رحم مادر میںپرورش پانے لگتا ہے، کئی مائیں مانتی ہیںکہ بچے کی تعلیم و تربیت اُس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ ارد گرد کے ماحول کو دیکھتا اوراچھے بُرے کی تمیز کر نے لگتا ہے ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث سے اخذ ہوتا ہے کہ بچے کی تربیت کا پہلا مرحلہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان شادی کے لئے انتخابِ رشتہ سے شروع ہوجاتا ہے۔ اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا :’’ کسی عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے :اول اس کے مال کی بنیاد پر ،دوم اس کی خوب صورتی کی بنیاد پر ،سوم اس کے حسب و نسب کو دیکھ کر اور چہارم اس کی دین داری کی بنیاد پرلیکن تم دین داری کو ترجیح دو۔‘‘( بخاری)۔سنن ابو داؤد میںروایت ہے کہ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا:’’جب تمہارے پاس ایسے لڑکے کے نکاح کا پیغام آئے جو دین د ار ہو،بہترین اخلاق والا ہو ،تو تم اُس سے نکاح کرنے کے لئے آگے بڑھ جائو،اپنی اولاد کا نکاح اُس سے کرادو، ورنہ زمین میں فساد پیدا ہو گا ۔‘‘ معلوم ہوا کہ اولاد کی تربیت کا پہلا مرحلہ ماں باپ کے صحیح انتخاب سے ہی شروع ہوتا ہے لیکن افسوس کہ جب ہم رشتہ تلاش کے لئے کسی لڑکی یا لڑکے کا انتخاب کرتے ہیں تو محض اُس کا مال ،اس کی رنگت ،اس کا حُسن ،اُس کا خاندان ،اس کا مال ودولت دیکھ کر کرلیتے ہیںاور اس بات کا قطعی خیال نہیں رکھتے کہ کیا وہ زوجین بچوں کی اچھی تربیت کرنے کے اہل ہیںیانہیں۔
اسلام کہتا ہے جب تم نکاح کروتو خو ب صورتی اور مال داری سے زیادہ دین داری کو ترجیح دو ۔اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے نکاح کررہا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ لڑکی اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے قابل ہے یا نہیں۔ جب کسی لڑکی کے گھروالوں کو کسی لڑکے کی طرف سے نکاح کا پیغام آئے تو اس کے لئے یہ دیکھنا لازم ہے کہ کیا یہ لڑکا اپنی آنے والی نسل کی تربیت کا قابل ہے کہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ اولاد کی تربیت کے لئے لڑکے اور لڑکی کا نیک سیرت اور دین دار ہونا بے حد ضروری ہے ۔اولاد کی تربیت کا دوسرا مرحلہ نکاح کے بعد شروع ہوجاتا ہے ۔ جب دُلہن میکے سے رخصت ہوتی ہے تو اُسے ایک نئے سسرالی ماحول میں سمانا ہوتا ہے۔ اسی مرحلے پرمیاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھنے اور قبولنے لگتے ہیں ۔ اب انہیں رب العالمین سے دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ! اپنے رشتہ ٔ ازدواج کے طفیل ہمیں نیک اولا د عطا فرما۔دعا ویسی ہی کیجئے جیسے حضرت ابراہیم ؑ نے کی تھی : اے اللہ مجھے نیک اولاد عطا فرما‘‘ ۔دعا وہی کیجئے جوحضرت زکریا ؑ نے کی : اے اللہ! مجھے نیک اولاد عطا فرما ۔یقیناً تو دعا سننے والا ہے‘‘۔ اسلام میں اولاد کی صالح تربیت کے لئے فکر مند ہو نے کی اہمیت یوں بھی ظاہر ہوتی ہے کہ دین ِحق والدین کو اولاد کی آمد سے پہلے ہی اپنے اَزلی دشمن سے محفوظ رہنے کی طرف توجہ مبذول کر ائی ہے۔ اللہ کے حضور بہترین اولاد کے لئے دعا سے والدین کو اس بات کی طرف رہنما ئی کی گئی ہے کہ بچے کی ولادت سے پہلے ہی اُس کو راہِ راست سے بھٹکانے والے چیزوں سے بچانے کی خبر دی جارہی ہے تاکہ والدین اپنی اولاد کے لئے اس شیطان مردود کی رہزنی سے چوکنارہیں ۔بچے کی ولادت کے بعد اُس کا نام اچھے اسماء میں سے منتخب کر کے رکھنا چاہئے تاکہ بچے کے قلب وجگر میں بچپن سے یہ فکر بسی رہے کہ میں رب ِ جلیل کا بندہ ہوں۔ اس تناظر میں اسلام نے لڑکوں کو عبدالرحمن اور عبداللہ جیسے ناموں کی ترغیب دلائی ہے تاکہ بچے کے ذہن میں اللہ کا عقیدہ نقش ہوجائے۔ بچیوں کے بارے میں بہترین نام رکھنا مستحسن کام ہے ۔ پھر سات سال کی عمر سے ہی بچوں کو نماز کی تربیت دی جائے ۔اس عمر میں بچے کی تربیت عملی طریقے سے ہوتی ہے نہ کہ محض وعظ و درس دینے سے ۔والدین کو چاہئے کہ بچے کے سامنے نماز پڑھاکریں تاکہ بچہ نماز کی نوعیت جان لے اور یہ سمجھے کہ نماز کس مخصوص طریقے سے ادا کی جاتی ہے ۔ پھر تربیت کو مستحکم کرنے کے لئے بچے کو لازماً دس سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا مکلف بنادیا جائے اور ساتھ ہی اُس کو راہِ راست پر رکھنے کے لئے بُرے اور گندے راہوں کے پاس پھٹکنے سے بھی روکا جائے ۔ دس سال کی عمر میں ہی بستر الگ کیا جائے تاکہ بچوں اور بچیوں میں حیا و پاک دامنی کا تصور ذہن نشین ہوجائے ۔غرض ماں باپ جب پورے ہوش وگوش سے ایمان و شریعت کی پاسداری کریں گے تو یقیناً دور حاضر کے بگڑے معاشرے میں بھی ہمارے بچے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمارے لئے آخرت کا توشہ بن جائیں گے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں بچے کی تربیت کے اصولوں کو سمجھنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی توفیق سے نوازے۔آمین