آپ میں سے کئی اصحاب نے ایک وال کلینڈر دیکھا ہوگا ،جس میں میدانِ کارزاریعنی جنگ کا سین ،ایک خالی رتھ اور ایک آدمی کو میدانِ جنگ کے ایک کونے میں ہاتھ جوڑے درشایا گیا ہے ۔آج ہم آپ کو اُسی کلینڈر کے بارے میں بتائیں گے کہ اُس کی وجہ تخلیق کیا ہے ۔
تصور میں لایئے مہا بھارت کا عظیم یُدھ ۔۔۔۔کورکھیشتر کا میدان۔۔۔میدانِ کارزار بنا ہوا ۔۔جنگی سازوسامان سے لیس فوجیں ایک دوسرے کو زمین بوس کرنے کی کوششوں میں لگی ہیں۔ایک طرف مٹھی بھر حق پرست (پانڈو) سینہ سپر ہیں جب کہ دوسری طرف ٹڈی دل دشمنان ِ پانڈو اپنی آن بان شان اور جم ِغفیر پر نازاں ہیں۔مروجہ داستانوں کے مطابق کرشن ؔجی نے پانڈئووں ؔ کا حق پر ہونے کے باعث ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔کرشن جیؔپنے چچیرے بھائی پانڈوؔ یودھا ارجنؔ کو اُپدیش دیتے ہیں:
یدا یداہ ِدرمسیئے گلانِر بھَوتَہ بھاتئے
ابھیوتھا نام ادَرمیئے تدا آتما نم سرجا مِہم
پرتر آنا یہِ سادھو نام وناشایہِ چہ ِدھِشکُر تام
دھرم سنتھا پُنارتھایہِ سمبوا مے یُگے یُگے (گیتا ؔ)
مطلب یہ کہ جب جب دنیا میں ظلم اور گناہ اور لادینیت بڑھتی ہے تب تب بھگوان دنیا میں آکر لادینوں کو تباہ کرکے دین کو پھر سے قائم کرتے ہیں۔
کتھا انوسار یہ آج سے زائد از چھ ہزار سال قبل کہی ہوئی بات ہے ۔اُس وقت اگرچہ پانڈئووںؔمیں زبردست جری اور بہادر تھے مگر کوروؔ بھی گھاس پھونس کے بنے ہوئے نہیں تھے اور سب سے بڑی بات تو مین پاور کی تھی جو بلا شبہ کورئوںؔکے پاس تھی۔
اب ذرا کلینڈر کو تصور میں لایئے ۔کرشن جی ؔمیدان کے ایک الگ تھلگ کونے میں ہیں ۔بائیں ٹانگ کو زمین پر لٹا رکھا ہے اور دائیں ٹانگ کو موڈ دے کر کھڑا رکھا ہے اور اُس کے گھٹنے پر اپنی دونوں کہنیاں ٹکائی ہیںاور دونوں ہاتھ جوڑ کر اپنے رب سے کچھ کہتے ہیں ،کچھ مانگ رہے ہیں ،کیونکہ ہاتھ باندھے ہوئے اور آنکھیں اوپر کو اُٹھی ہوئی ہیں ،انداز دعائیہ ہے ،مانگنے کا ہے ،عجز و انکساری کا ہے ۔اُن کے پیچھے چار گھوڑوں سے جتا ایک خالی رَتھ ہے جس کے آگے رَتھ بان (ارجنؔ)انتظاری کیفیت میں بیٹھا ہے ۔رَتھ کے پیچھے میدان ِکارزار گرم نظر آرہا ہے اور نیزوں سے حملہ کررہے ہیں ،کچھ یودھا گرزوں کی مار میں بھی مصروف ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کرشنؔ جی الگ جاکر اپنے پرم پتا پرمیشور سے کیا بِنتی کررہے ہیں ، کیا مانگ رہے ہیں ۔اُس کے لئے میں تخیلی ،تصوراتی ،افسانوی یا من گھڑت بات نہیں بتائوں گا بلکہ رسالہ کرشنؔ بینتی مولفہ پنڈت رام دھنؔ شائع ساگری پُستکالیہ دہلی 1931ء کا صفحہ نمبر 72آپ کے سامنے کھولتا ہوں ۔لیجئے خود پڑھ لیجئے ۔۔۔۔کرشن جیؔ اپنے رب سے عاجزی ،انکساری اور گڑا گڑ اکر یوں عرض کرتے ہیں:
’’ ہے پرمیشور———–سنسار پرم پتا ————تجھے اپنی ذات کی قسم ۔اور اُس کی قسم جو آکاش اور دھرتی کا جنم کارن ہے ۔تیرا پیارا ہے ————پریتم ہے ———–جو سنسار کے سب سے بڑے مندر میں کالے پتھر کا چمتکار دکھائے گا————تُو میری سن اور سچوں کو فتح دے———-ایشور ——–اے ایشور—–اے ایشور————-‘‘
مندرجہ بالا دعا کو اگرچہ ایک معتبر شخص پنڈت رام دھنؔ نے ایمانداری کے ساتھ سادہ ہندی الفاظ میں رقم کیا ہے مگر پھر بھی دو تین باتیں وضاحت طلب اور قابل توجہ ہیں ۔ آکاش اور دھرتی کے جنم کارن کا مطلب ہوا باعث ِتکوین ارض و سماوات اور اگر فارسی کو عربی میں ڈالیں تو کیا بنتا ہے ۔’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ کا ہم معنی بنتاہے
یہ اصلاً پیغمبرکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک پیش گوئی ہے،جیسے انجیلؔ میں کئی بار ’’وہ نبی‘‘آیا ہے جس کا ترجمہ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی بولا جاتا ہے ۔اُس کے بعد دُعا میں پریتم کا لفظ آیا ہے ،جس کا مطلب دوست،محبوب یا حبیب ہوتا ہے تو یہ بات بھی عام ہے کہ حبیب ِ خدا ؐ فقط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بولا جاتا ہے اور یہ لقب آپ ؐ کے لئے ہی اور آپؐ کی ہی ذات کے ساتھ وابستہ ہے ۔دعا میں ایک نکتہ بڑے مندر میں کالے پتھر کا چمتکار آیا ۔اس سے مراد وہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار جب حضورؐ کی عمر مبارک صرف 35؍سال کی تھی اور ابھی تاجِ نبوت عطا نہیں ہوا تھا ،خانہ کعبہ کی مرمت ہورہی تھی تو حجر الاسودؔ اُٹھاکر اپنی جگہ پر رکھنے میں تمام قبائل میں اختلاف ہوا ،جھگڑا اس قدر بڑھا کہ قبیلہ بنی عبدالدراؔ نے تلواریںسونت لیں ۔آخر میںفیصلہ ہوا کہ جو شخص صبح کو سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوگا وہی حجرالاسود کو اپنے ہاتھوں سے اُٹھاکر اپنی جگہ پر رکھ دے گا ۔دوسری صبح کو جب حضورؐ اولاً تشریف لائے تو سب نے یک زبان ہوکر نعرہ مارا ’’ہذاالامین‘‘خیرالبشرؐ نے وہاں پر بھی اپنی فراست و عظمت کا ثبوت دیا ۔آپؐ نے ایک چادر بچھاکر اُس پر پتھر رکھا اور سب قبیلوں کے سرداروں سے چادر کا کونا پکڑواکر پتھر کو اٹھوایا پھر اپنے مبارک ہاتھوں سے اُس کو اپنی جگہ پر رکھ دیا ۔ا س حسن ِ تدبیر سے سب مطمئن و مسرور ہوگئے اور باہمی شکر رنجی ختم ہوگئی۔
اُسی آکاش اور دھرتی کے جنم کارن اور پرمیشور کے پیارے (حبیب ِ خداؐ)اور بذاتِ خود پرمیشور کے جہاں پر گُن گان ہوتے تھے ،متعصب مسلم دشمنوں نے اُس جگہ کو محاورتاً نہیں بلکہ عملاً اینٹ سے اینٹ بجوادی اور اُس کے بعد گجراتؔ میں پانچ سو سے زیادہ عبادت گاہوں کو ملیا میٹ کردیا ۔گُن گان ہوتے رہے ہیں ،ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے مگر کٹر پنتھی متعصب لوگوں کی مسلم دشمنی کی داستانیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ،ایک مورخ کے لئے، تاریخ کے طالب علم کے لئے تحقیق و تجسس کے موضوع بنتے رہیں گے اور ہندوستان کی نوے فی صد سادہ لوح جنتا ہمیشہ ہمیشہ اپنے لیڈروں کی گھناونی حرکتوں پر کف ِافسوس ملتی رہے گی ۔
یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ گئو رکھشا کے نام پر وجود میں آئی غنڈوں کی جماعتیں جونہی مسلمان کے ساتھ گائے یا بھینس دیکھتے ہیں ، (بسااوقات دیکھے بغیر بھی)تو وہ جنگلی درندوں کی طرح نہتے مسلمانوں پر پِل پڑتے ہیں اور ہتھیاروں سے نہیں لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر اُن کو مار ڈالتے ہیں ۔ہندوستان میں کافی سارے مسلمان دودھ کا کاروبار کرتے ہیں ،وہ گائے خرید بھی سکتے ہیں کیونکہ وہ اُن کی ضرورت ہے ۔بیمار گائے ویٹرنری بھی لے جانی پڑتی ہے مگر مسلمان ایسا کر ہی نہیں سکتے کیونکہ وحشی درندے اس تاک میں رہتے ہیں اور جونہی موقعہ ملتا ہے، آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔گئو رکھشا صرف ایک حیلہ ہے ،اصل میں وہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے مواقع اور بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔کیا ہندوستان کے سیکولر سماج میں ایسا کوئی نہیں جو اس غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرسکے اور اُن درندوں سے پوچھے کہ ایسا کرنا کس گرنتھ میں لکھا ہے ؟کس دیوی دیوتا کی آگیاہ ہے ؟یا کس آچاریہ کی تعلیم ہے ؟کیوں اس وحشت ناکی پر اُتارو ہو؟———- ؎
کریں وہ ظلم و تشد د کو عام کیا معنی
لبوں پہ جن کے رہے رام رام کیا معنی؟
تراہہ ِتراہہ۔۔۔۔۔۔تراہہ ِ تراہہ ِ ِ ِ
صفدر خان اعزمی
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995