کشمیر کا نام سنتے ہی دنیا بھر میں عوام کے ذہن میں جو تصویر رقصاں ہوتی ہے اس کے نقش ونگار اہل کشمیرپر افسپا کی بالا دستی، فورسز کے تشدد،قتل و غارت گری، معصوم اور نہتے نوجوانوں کے سر پر امکانی ہلاکت کے منڈلاتے سائے، بر بریت ، انسانی حقو ق کی پامالیاں ، توڑ پھوڑ، گرفتاریاں ، آتش زنیاں، ماؤں کا اپنے لخت جگر کھو جانے کی آہ و بکا ، بہنوں اور بیٹیوں کا اپنے پیاروں کی لاشوں پر بین اور ماتم جیسے مایوس کن مناظر منعکس ہوتے ہیں ۔البتہ ۲۱؍ ستمبر کو اس تصویر میں ایک بدنما داغ اس وقت پڑا جب دن دھاڑے شمالی کشمیر کے ترال قصبہ میں عام لوگوں پر نامعلوم ہاتھوں سے گرینیڈ حملہ ہو ا۔ اس سے واقعی ارضِ کشمیر کی الم ناک داستان میں شام غریباں کا اضافہ کیا گیا ۔ یہ ایک قابل مذمت کارروائی ہے جس سے صرف کشمیر دشمن قوتوں کے مکروہ عزائم کی تکمیل ہوئی ہے۔ اس واقعہ پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اب ایک نیا سلسلہ یہ چلا ہے کہ عوامی بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر معصوم عوام پر گرینیڈ داغے جائیں۔حالاں کہ ان کے حوالے سے کسی بھی عسکری جماعت کی ذمہ داری نہ لینابھی سارے معاملے کو مشتبہ بناتا ہے جس پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ بھولے بھالے عوام پر اس طرح کے حملوں سے کشمیر کاز کا کیا کوئی تعلق بنتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ کشمیری عوام کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ خود مشکلات ومصائب کے بھنور میں ہونے کے باوجود یہ بھارتی سیاحوں اور یاتریوں کو اپنا مہمان سمجھ کر ان کے ساتھ نیک برتاؤ کر نے میں کوئی تساہل یا تغافل نہیں برتتے ۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اپنے ہوں یا پرائے غیر حربی لوگوں سے انسانیت کے ناطے حسن سلوک کر نا اسلام کا درس ِ اول ہے ۔ اسی بناپر کشمیری لوگوں نے سیلاب ِ ستمبر( ۲۰۱۴ء) میں پھنسے فورسز اہل کاروں سمیت غیر ریاستی ہندوؤںکو بچانے میں کوئی دریغ نہ کیا ، سڑک حادثے میں زخمی یاتریوں کو حالات کی ناسازگاری اور کر فیو کے نفاذ کے باوجود طبی مراکز میں پہنچایا اور زخمیوں کو اپنا خون دیا، اُن کا دکھ درد بانٹا۔ ان حقائق کی موجودگی میںکشمیر کے کسی باشعور اور باضمیر انسان سے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سر راہ گرینیڈ پھینک کر اپنے ہی بھائی بند کے ساتھ ہی دُشمنی کرے۔ چند روز پہلے جہانگیر چوک سری نگر اور اب ترال میں جس پُر اسرار طریقے سے عوام پر ہتھہ گولے داغے گئے ، وہ حملہ آور کی بزدلانہ اور ضمیر کش حرکت ہی نہیں بلکہ ایک خاص پیٹرن کا اشارہ بھی دیتے ہیں۔ یہ ایسی مذموم کارروائیاں ہیں جن کے پیچھے بظاہر ایک ہی ناپاک مقصد کارفرما ہوسکتا ہے کہ کشمیر کی شبیہ کو پوری دُنیا میں مسخ کی جائے ، دنیا کو باور کرایا جائے کہ کشمیر کوئی سیاسی جدوجہد نہیں بلکہ دہشت گرد ی ہورہی ہے اور یہ کہ دہشت گرداپنے لوگوں تک کو نہیں بخش ر ہے ہیں۔ اس دھماکے ٹائمنگ بھی غور طلب ہے کہ ایک ایسے وقت جب نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہورہاہے اور میانمار کا مسلمانوں کا قتل عام مسلم اُمہ کے دل چھلنی کررہاہے ، ترال کا المیہ وقوع پذیر ہوا۔
ہم سب جانتے ہیں کی باوجودیکہ حکومت ہند کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہہ رہی ہے ، کشمیریوں کو گلے لگانے کااعلان کر رہی ہے ، کشمیر کو جنت بنانے کے سنہرے سپنے دکھا رہی ہے ، نئی دلی اصل مسئلے کا پُر امن سیاسی حل ٹال رہی ہے ۔ اس ضمن میں دلی کاظلم اور اس کی زیادتیاں بھی قابل فہم ہیں لیکن ترال میں ہوئے گرینیڈ دھماکے میںتین شہریوں جان بحق اور تیس زخم زخم ہوئے، خاد راانصاف کیجئے کہ یہ حملہ کس کا کیا دھرا ہوسکتا ہے ؟ میں مانتاہوںاس سوال کا جواب پانا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ کشمیر میں سیاسی جدوجہد کیساتھ ساتھ جوایجنسی وار جاری ہے،اس کی موجودگی میں یہ قیامت تک پتہ ہی نہیں چل سکتا کہ کون سی بندوق کس کے اشارے پر چل رہی ہے؟کس کا کیا ہدف ہے؟ کون آستین کا سانپ ہے ؟ بعض لوگوں کا شبہ ہے کہ گرینیڈ دھماکہ کے وقت چوں کہ وزیر تعمیرات نعیم اختر ترال کا دورہ کر رہے تھے اور انہیںترقیاتی کاموںکا جائزہ لینا تھالیکن دھماکہ داغ کر نامعلوم حملہ آوروں نے گویا اس بات کا تاثر دیاہے کہ ترال کے عوام ترقیاتی کاموں کے سخت مخالف ہیں، وہ سڑکوں کی تعمیر ومرمت یا کسی پل کی تعمیر سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ۔ اپنی اس غلط سوچ کو منوانے کے لیے اگر ان عناصر نے عام جنتا تک کو جب گرینیڈ حملے سے بلی چڑھایا تو یہ وضاحت کر نے کی شاید ضرورت نہیں رہتی کہ انہیں کسی بات کی پرواہ نہیں ہے کہ کون مر تا ہے اور کون نہیں۔ اس تحقیق طلب حملے کے بارے میں دوسرا حلقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ اس سے غالباً حملہ آوروں کو یہ دکھانا مقصود ہے کہ کشمیر کی زیر زمین جماعتیں یہاں میں ہورہے ترقیاتی کاموں میں روڑے ڈال کر ہمارے وطن کو ترقی و بہبودی لے معمولی سرگرمیوں سے کوسوں دور رکھنا چاہتی ہیں۔ جب کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہیں ۔ ہاں اس حملے کا ان اداروں کو فائدہ ہواجو چاہتے ہیںکہ دُنیا کے سامنے مبنی بر انصاف کشمیر کاز کو ایک دہشت گردانہ کاز قرار دلوایا جائے۔ بہر حال اس نوع کے جان لیوا حملے جو بھی کر ے اورجہاں کہیں بھی یہ رونما ہوں ، یہ صد ہزار بار قابل مذمت ہیں ۔اس طرح کی بزدلانہ حرکتوں سے معصوم عوام کی جانوںکا اتلاف کرنا کشمیر کاز کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کی تعلیمات اور احکامات کی عین ضد ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے اس کارروائی کا اصل ہدف یہ ہو کشمیر ی عوام کو دنیا جہاں میںمظلوم نہیں بلکہ ظٖالم کے طور پیش کیا جائے تاکہ یہاں ہورہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دنیا کی نظروں سے چھپی رہیں ۔مختصراً ترال کے ا س حملے نے سب باضمیر اور بااصول لوگوں کے جذبات ہی مجروح نہیں کئے بلکہ اس نے عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ یہاں اندھیر نگری چوپٹ راج چل رہاہے ۔ کشمیر کے تمام سیاسی ومذہبی حلقوں اور عوام الناس نے بیک زبان اس واقعہ میں ہلاک شدہ گان اور مجروحین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر کے جو ماتم منایا، جو ہمدردی اور خلوص دکھایا ، وہ بہ حیثیت مجموعی ہماری اجتماعی نیک نیتی پر دلالت کر تا ہے اور بتاتا ہے کہ حملہ آوروں نے چاہیے جہانگیر چوک میں نوگام کے ایک مزدور کی جان لی یا ترال میں اپنے حملے سے تین جانیں لیں ،بہر حال اہل کشمیر ان گھناؤنی سازشوں کے پیچھے مقا صد سے واقف ہیں اور بہ ہوش وگوش سمجھتے ہیں کہ یہ کشمیرکاز کو کمزور کردینے کی ایک مربوط حکمت عملی ہے جس کا موثرتوڑ کر نا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
رابطہ:پی۔ ایچ۔ ڈی، ریسرچ اسکالر،یونی ورسٹی آف حیدرآباد
فون7730866990
ای میل[email protected]