ترال//ترال اور اسکے ملحقہ علاقے جمعہ کو سوگوار رہے اور شہری ہلاکتوں کے خلاف تعزیتی ہڑتال سے معمولات کی زند گی بری طرح متاثر رہی۔ قصبہ ترال میں جمعہ کے روز شہری ہلاکتوں کے خلاف آبادی نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مکمل ہڑتال کی ۔ سڑکوں پر ٹریفک غائب رہا اورتمام سرکاری و نجی تعلیمی و کار باری ادارے بند رہے ،جبکہ سرکاری دفاتر میں ملازمین کی حاضری نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی ،سماجی اور مذہبی انجمنوں کے علاوہ سیول انتظامیہ کے افسران نے مہلوکین کے گھر جا کرتعزیت پرسی کی ۔ممبر اسمبلی ترال مشتاق احمد شاہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جب تمام عسکری جماعتوں نے حملے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے تو اس واقعہ پر شکوک شبہات اسی طرح پیدا ہوئے ہیںجس طرح سال 2014 میں انتخابات سے 2 روزقبل اسی جگہ پر عام لوگوں کی بھیڑ پر ہتھ گولہ پھینکنے کے وقت پیدا ہوئے تھے ،جس میں تین عام شہری ہلاک اور اکیس کے قریب زخمی ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ واقعہ کی باریک بینی سے تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس دوران حملے میں جاں بحق 22 سالہ رتن دیپ کور عرف پنکی کور دختر اچھپال سنگھ ساکن چھترو گام کی گزشتہ روز شام دیر گئے آخری رسومات انجام دی گئی۔ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی پنکی کور اسلامک یونیورسٹی اونتی پورہ میں ایم بی اے کی طالبہ تھی اور اس نے حال ہی میں جموں کشمیر پولیس میں سب انسپکٹر کی حیثیت سے بھرتی کا ایک امتحان بھی پاس کیا تھا۔جمعرات کو جب پنکی کی لاش اس کے آبائی گھر پہنچائی گئی تو علاقے میں کہرام بپا ہوا۔اس موقعے پر وہاںزیادہ تر مسلمان موجود تھے جبکہ پنکی کی مسلم سہیلیوں اور پڑوسیوں کو ماتم کرتے دیکھا گیا۔اس کی آخری رسومات میں مقامی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ترال سے تعلق رکھنے والے طلباء کی ایک خاصی تعداد نے سوشل میڈیا پر اپنے پروفائیل میں پنکی کی تصاویر اَپ لوڈ کی ہیں جن کے ساتھ غمناک جملے درج کئے گئے ہیں۔ادھر غلام نبی تراگ کی نماز جنازہ میں بھی لوگوں کی بھاری تعداد شریک ہوئی جنہیں جمعرات کی شام ہیسپر د خاک کیا گیا ۔