حافظ میر ابراہیم سلفی
امام شافعیؒ فرماتے ہیں :’’اے اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپکی محبت ہم پر ربّ نے قرآن میں فرض کردی ہے۔آپکی شان کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس شخص کی نماز ،نماز نہیں جو آپ پر درود نہ پڑھے۔‘‘نواسۂ رسول،جگرگوشۂ بتول سیدنا حسین ؓ کے فضائل و مناکب پر قرآن و سنت سے قطعی نصوص کی لمبی فہرست ملتی ہے۔عشرہ محرم کے دس دنوں کی نسبت سے راقم اس مضمون میں دس نقاط قلمبند کرے گا تاکہ شہید کربلا کی معرفت ہوسکے اور ان کے مد مقابل آنے والوں کی بدبختی واضح ہوسکے۔
اللہ تعالی نے حسنین کریمین کو یہ سعادت عطا کی ہے کہ انہیں جنت کے نوجوانوں کا سردار منتخب کیا،چونکہ جنت میں کوئی بوڑھا نہیں ہوگا ،جس کا واضح مطلب ہے کہ سیدنا ابو تراب کے یہ دو مبارک پھول تمام جنتیوں کے سردار ہیں۔اللہ تعالی نے جنت کو حسنین کریمین کی میراث قرار دی ہے اور یہ جنت کے حقیقی وارث ہیں ۔فرمان نبوی ؐ ہے کہ ’’حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں۔‘‘(سنن ابن ماجہ ،رقم الحدیث 118، صحیح) ذخیرہ حدیث میں اس روایت کے ایک سو سے زیادہ طرق موجود ہیں۔رسول کریم ؐ کا فرمان ہے کہ ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین قبائل میں سے ایک قبیلہ ہیں۔‘‘(مسند احمد ،حسن) قاضی عیاض حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم من جانب اللہ مطلع کر دیئے گئے تھے کہ کچھ لوگ حسین سے بغض رکھیں گے ،اس لیے آپ نے پیشگی بیان کر دیا کہ حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے، اور حسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے کیونکہ ہم دونوں ایک ہی ہیں۔‘‘ حدیث سے واضح ہے کہ سیدنا حسین ؑو آل حسین ؑکو کربلا میں شہید کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے۔
قران مقدس کے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 33 آیت تطہیر کے نام سے معروف ہے۔یہ آیت مبارکہ خصوصاً آل علی کی عظمت میں نازل ہوئی۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ اہل البیت میں آل علی کو تخصیص عطا کی گئی۔ عمر بن ابی سلمہؓ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہؓ کے گھر حضور نبی اکرمؐ پر آیت تطہیر نازل ہوئی تو آپ ؐ نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمینؓ کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علیؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپؐ نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا،’’ اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ (سنن ترمذی ،صحیح) جن کی تطہیر رب کائنات نے قرآن میں بیان فرمائی ہو ،ان کے مد مقابل آنے والا نجس اور پلید ہی ہوسکتا ہے۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61 ہے جس میں رسول اللہؐ کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ پیش آنے والا مشہور واقعہ یعنی واقعۂ مباہلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ آیت رسول اللہؐ کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے، کیونکہ نصارٰی کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے،وہ عیسیٰ ؑ کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے،حتیٰ کہ آپؑ نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔فرمان باری تعالی ہے کہ ’’چنانچہ اب آپ کو علم پہنچنے کے بعد، جو بھی اس کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔‘‘(القرآن)جب یہ آیت اتری ، تو رسول اللہؐ نے حضر ت علی ؓ حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اورحضرت حسینؓ کو بلایا اور فرمایا: ’’اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں‘‘۔(صحیح مسلم)
فرمان نبویؐ ہے کہ ،’’قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا قاصد پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپؐ نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا‘‘۔(صحیح مسلم ،معجم طبرانی) لیکن امت نے اس وصیت کا خیال نہ رکھا ،نبی کریم ؐ کو دنیا سے چلے ہوئے 50 سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ ظالموں نے آپؐ کے اولادوں کو ذبح کردیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل بیت اطہار بالخصوص حضرات حسنین کریمینؓ سے شدید محبت فرماتے تھے۔ارشاد فرمایا ،’’گلشن دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں‘‘۔ (جامع ترمذی) مسند احمد کی روایت ہے کہ ،’’جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میری ذات کے ساتھ بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت دی اس نے میری جان کو اذیت دی‘‘۔
شداد بن ہاد سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ ظہریا عصر میں سے کسی نماز کے لئے باہر تشریف لائے تو سیدنا امام حسن یا امام حسین کو اٹھائے ہوئے تھے، آگے بڑھ کر انہیں ایک طرف بٹھادیا اور نماز کے لئے تکبیر کہہ کر نماز شروع کر دی، سجدے میں گئے تو اسے خوب طویل کیا۔ میں نے درمیان میں سر اٹھا کر دیکھاتوبچہ نبی ؐ کی پشت پر سوار تھا اور نبیؐ سجدے میں تھے ،میں یہ دیکھ کر دوبارہ سجدے میں چلا گیا نبی کریم ؐ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آج تو آپ نے اس نماز میں بہت لمبا سجدہ کیا ہم تو سمجھے کہ شاید کوئی حادثہ پیش آگیا ہے یا آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا ،البتہ میرا یہ بیٹا میرے اوپر سوار ہو گیا تھا میں نے اسے اپنی خواہش کی تکمیل سے پہلے جلدی میں مبتلا کرنا اچھا نہ سمجھا۔(مسند احمد ،صحیح) جس مبارک ذات کے لئے نبی کریمؐ نے سجدہ طویل فرمایا کہ شہزادہ زمین پر گر نہ جائے ،اسی مقدس ہستی کے جسد اطہر کو کائنات کے ملعون ترین شقی گروہ نے کربلا کے میدان میں بے حرمتی کی۔
ابو سعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ عہد نبوی میں ہم جس شخص میں بغض علی پاتے اسے منافق سمجھتے تھے ۔کیونکہ نبی اکرمؐ نے سیدنا مولیٰ علیؓفرمایا تھا کہ مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور کوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔اسی طرح سیدۃ النساء العالمین کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ،’’فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ،جس سے فاطمہ کو ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا‘‘۔ فرمان ربانی ہے کہ ،’’اے نبی ان لوگوں سے فرما دو کہ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں، جو کوئی بھلائی کرے گا، ہم اس کی بھلائی میں اور اضافہ کردیں گے، بے شک اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور قدر دان ہے‘‘۔(سورہ شوری آیت نمبر 23) اس آیت مبارکہ کو آیت مودت کا نام دیا گیا ہے۔ صاحب مشکاۃ نے روایت نقل کی، جسے امام حاکم نیساپوریؒ نے صحیح قرار دیا۔
ام الفضل بنت حارثؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، اللہ کے رسولؐ! میں نے رات ایک عجیب سا خواب دیکھا ہے، آپ ؐ نے فرمایا: ’’وہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: وہ بہت شدید ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’وہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: میں نے دیکھا کہ گویا گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جو آپ ؐکے جسم اطہر سے کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔رسول اللہؐ نے فرمایا، ’’تم نے خیر دیکھی ہے، اِن شاء اللہ فاطمہ بچے کو جنم دیں گی اور وہ تمہاری گود میں ہو گا۔‘‘ فاطمہ ؓنے حسینؓ کو جنم دیا اور وہ میری گود میں تھا، جیسے رسول اللہؐ نے فرمایا تھا۔ ایک روز میں رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے حسین ؓ کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔ پھر میں کسی اور طرف متوجہ ہو گئی، اچانک دیکھا تو رسول اللہؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، وہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے نبیؐ! میرے والدین آپ پر قربان ہوں! آپؐ کو کیا ہوا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’جبریل میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میری اُمت عنقریب میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی۔ میں نے کہا حسین ؓکو؟ انہوں نے کہا ہاں! اور انہوں نے مجھے اس جگہ کی سرخ مٹی لا کر دی۔‘‘(مستدرک حاکم،مشکاۃ المصابیح) اس روایت کے متعدد شواہد بھی موجود ہیں جن سے یہ روایت قوی بن جاتی ہے۔ عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ دوپہر کا وقت تھا میں لیٹا ہوا تھا۔ خواب دیکھتا ہوں کہ حضور اکرم ؐ تشریف لا ئے ہیں، پریشان حال ہیں، آپؐ کے دست مبارک میں ایک شیشی ہے، اس شیشی میں خون ہے، میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ یہ خون کیسا ہے فرمایا! ابن عباس! ابھی ابھی مقتل حسین سے آیا ہوں، یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، آج سارا دن کربلا میں گزرا۔ کربلا کے شہیدوں کا خون اس شیشی میں جمع کرتا رہا ہوں۔
عزیز قارئین کرام! قاتلین حسین کی بدبختی اور زندیقیت کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ وہ اتنے اندھے ہوچکے تھے کہ انہیں اس پیغمبر کریمؐ کی اولاد نظر نہ آئی، جس کا کلمہ پڑھ کر وہ بھی دعویٰ اسلام کررہے تھے۔وہ اتنے حد سے تجاوز کرچکے تھے کہ انہیں نبی کریمؐ کی بیٹیوں پر ترس نہ آیا ،وہ اس قدر حیوانیت کی سرحد پار کرچکے تھے کہ انہیں معصوم بچوں کی پیاس دکھائی نہ دی ،معصوم گلابوں کی چیخ و پکار سنائی نہ دی۔وہ اس قدر کفر و نفاق میں ڈوب چکے تھے کہ نواسہ رسول کا سر مبارک قلم کرتے وقت ان کے پلید ہاتھ نہ کانپے۔کیسے کوئی زندہ دل انسان قاتلین کی حمایت کرے؟ بلا شک یہ خسارے کا سودا ہوگا۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں ،’’جس نے سیدنا حسین کو قتل کیا ،یا قتل میں معاونت کی یا قتل حسین پر راضی ہوا تو اس پر اللہ کی لعنت ،ملائکہ کی لعنت اور پوری انسانیت کی لعنت ،اللہ نہ اسکا فرض قبول کرے نہ نفل‘‘۔ فرمان ربانی ہے کہ ،’’بےشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘(القرآن)۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں میں اہل بیت کی محبت ڈال دے۔رب العزت ہمیں اہل بیت کی معرفت عطا کرے ۔اللہ ہمیں ناصبیت کی ضلالت سے محفوظ رکھے۔آمین
(رابطہ۔6005465614)