شفیع نقیب
جب ہم تاریخ کے اوراق الٹتے ہیں تو ہمیں بعض ایسی شخصیات ملتی ہیں جن کے علمی کارنامے اور فکری خدمات نہ صرف اپنے دور میں حیرت کا باعث رہے بلکہ آج بھی ان کی معنویت اسی طرح برقرار ہے، بشرطیکہ ہم انہیں پڑھیں، سمجھیں اور اپنائیں۔ انہی شخصیات میں ایک روشن نام علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کا ہے، جنہیں دنیا ایک ریاضی دان، سائنس دان، مفکر، مصلح، سیاست دان اور خاکسار تحریک کے بانی کے طور پر جانتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم نے برصغیر کی علمی روایت میں ایسے عبقری اذہان کو قصداً نظر انداز کیا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’’تذکرہ‘‘ اس علمی بے حسی کی ایک مثال ہے۔
’’تذکرہ‘‘ محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک فکری جہاںہے، جو مذہب، سائنس، تاریخ، فلسفہ اور ریاضی کو ایک مربوط لڑی میں پروتا ہے۔ یہ وہ نادر تصنیف ہے جسے 1925 میں نوبل انعام برائے ادب کے لئے نامزد کیا گیا۔ میری زندگی میں اس کتاب کا ورود برسوں پہلے ہوا، جب میرے مرحوم ماموں جان نے، جو اندور میں خاکسار تحریک کے ایک اجتماع میں شریک ہوئے تھے، اسے وہاں موجودایک بک اسٹال سے خرید لائے۔ افسوس کہ اب یہ کتاب میرے ذاتی کتب خانے میں موجود نہیں رہی اور سرینگر کے متعدد کتب فروشوں سے رابطہ کے باوجود یہ نایاب خزانہ دستیاب نہ ہو سکا۔ تاہم اس کتاب کاپی ڈی ایف میں نے حاصل کیا ہے لیکن میں اس کتاب کو کسی بھی قیمت پر دوبارہ حاصل کرنے کا خواہاں ہوں کیونکہ یہ محض مطالعے کی چیز نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی تجربہ ہے۔
’’تذکرہ‘‘ کی پہلی جلد 1924 میں شائع ہوئی۔ اس میں چار اہم حصے شامل ہیں:
ا۔ ایک حصہ عربی زبان میں ہے، جس میں مصنف نے مسلم اقوام کی زبوں حالی اور ان کے عروج و زوال پر سائنسی و دینی تناظر میں گفتگو کی ہے۔
۲۔ بعد ازاں تین اردو حصے شامل ہیں:ایک وقیع پیش لفظ132صفحات، ایک مدلل تمہید 100 صفحات، اور اصل متن 172 صفحات پر مشتمل ہے
پیش لفظ میں علامہ مشرقی نے مذہب اور سائنس کے مابین پیدا ہونے والی خلیج، مختلف ادیان کے درمیان فکری تصادم، اور انبیاءکی تعلیمات میں ہونے والی تحریف کا بے باک تجزیہ پیش کیا ہے۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ اگر ان روحانی و فکری تنازعات کو بروقت سلجھایا نہ گیا تو انسانیت خود اپنی نادانی سے فنا کے دہانے پر جا پہنچے گی۔
تمہید میں قرآن پاک کے نظریہ ارتقائ کو نہایت سائنسی اور منظم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مشرقی کے مطابق انسان کا ارتقاء نہ صرف حیاتیاتی ہے بلکہ اخلاقی، روحانی اور فکری بھی ہے اور یہ سبھی مظاہر فطری قوانین کے تابع ہیں، جنہیں قرآن کریم میں بارہا دہرایا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:’’افلاتعقلون؟ افلاتفعلون؟ افلاتبصرون، افلاتعلمون؟‘‘ یہ سب آیات مشرقی کی فکر میںجاگتی نظر آتی ہیں۔وہ بار بار کہتے ہیں کہ قران پاک کوئی جادو کی کتاب نہیںبلکہ ایک سائینسی،منطقی اورریاضیاتی ضابطہ ہےجوانسانی عقل سے ہم آہنگ ہے۔علامہ مشرقی نے ان تمام مباحث کو ایک ریاضی دان کے انداز میں پیش کیا۔ ان کی فکری پرورش دراصل ریاضی کی دقتِ نظر، منطقی استدلال اور فطری ترتیب کی مرہونِ منت تھی۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں:
’’اگر میں نے دنیا کو کوئی ایسی کتاب (تذکرہ) پیش کی ہے جس کی کوئی نظیر نہیں، تو وہ صرف ریاضی کی بدولت ہے۔ اگر میں ریاضی سے بلند تر کسی چیز تک پہنچا ہوں، تو وہ بھی ریاضی کی بدولت ہے۔ اگر میں نے ریاضی کا مطالعہ ترک کر کے قرآن میں ایک اعلیٰ سچائی کو پایا ہے، تو وہ بھی ریاضی کے ذریعے ہوا ہے۔‘‘یہ بیان انہوں نے نومبر 1928 میں اسلامیہ کالج پشاور کی ریاضیاتی انجمن سے خطاب کے دوران دیا۔ان کی یہ فکری وسعت اس وقت مزید نکھرتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے 1926 میں آئن سٹائن سے ملاقات کی اور اسے محض ایک فزکس دان کے دائرے سے نکل کر کائناتی سچائی کی وسعت کو اپنانے کی دعوت دی۔ یہ وہ وقت تھا جب آئن سٹائن اپنے نظریہ اضافیت کی بنیاد پر عالمی علمی حلقوں کا مرکز بن چکا تھا۔ مگر مشرقی نے بڑی جرأت سے اس سے آگے بڑھنے کی تلقین کی۔
علامہ مشرقی کے نزدیک قرآن ایک ایسا صحیفہ تھا جوروحانی، ریاضیاتی، سائنسی اور تاریخی رموز پر مشتمل ہے۔ ان کا یقین تھا کہ قرآن کے ہر حکم، ہر آیت اور ہر لفظ میں ایک عددی و فطری ترتیب پوشیدہ ہے جو انسانی بقائ اور ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے۔
’
’قرآن کی پہلی سچائی مجھ پر اس وقت منکشف ہوئی جب میں کیمبرج میں ریاضی کے امتحان (Tripos) کی دن رات تیاری کر رہا تھا۔‘‘یہ بیان نہ صرف ان کے فکری سفر کا نکتہ آغاز ہے بلکہ اس امر کی گواہی بھی ہے کہ مشرقی کی بصیرت محض روایتی مذہبی یا سائنسی انداز میں محدود نہ تھی بلکہ وہ ان دونوں کے امتزاج سے ایک نئی فکری دنیا تخلیق کرنے کے قائل تھے۔’’تذکرہ‘‘ میں انسانی اقوام کی تاریخ کا نہایت عمیق تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف مسلم دنیا کے حالات کا آئینہ دار ہے بلکہ تمام اقوام عالم کے لیے ایک فکری تنبیہ بھی ہے۔ مصنف کے مطابق، قوموں کی زوال پذیری کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے اعلیٰ نظریات، علمی روایت اور اخلاقی اصولوں کو ترک کر دیتی ہیں۔انہوں نے مذہبی و سیاسی اداروں پر بھی بے باکی سے تنقید کی، جنہیں وہ حقیقی پیغامِ دین سے انحراف کا مرتکب سمجھتے تھے۔ اگرچہ بعض حلقوں نے انہیں ناپسند کیا، مگر اہلِ علم جانتے تھے کہ ان کے کلمات میں وہ سچائی پوشیدہ ہے جو آنے والے وقت میں مزید نکھرے گی۔
مشرقی کی فکر کاایک نکتہ عروج سورہ الطارق کی تفسیر میں نظر آتا ہے،جوعام مفسرین سے بالکل مختلف ہے۔اُن کے مطابق’’والسمائ والطارق،ومااداراک ماالطارق،النجم الثاقب ‘‘کے پیچھے ایک کائناتی اشارہ ہے۔وہ نجم ثاقب کوکوئی ماورائی تصور نہیںسمجھتے بلکہ اسے بلیک ہول یانیوٹرون اسٹار جیسافلکیاتی مظہرقراردیتے ہیں،جوکائنات کی حقیقتوں اور انسان کی مادی وروحانی ارتقاء سے جڑاہواہے۔وہ کہتے ہیںکہ قران صرف قصوں،اخلاقیات یاعبادات کی کتاب نہیں،بلکہ یہ ایک سائینسی دستور بھی ہے۔
تذکرہ کے ایک مقام پر وہ نقطے،((pointخط مستقیم(straight Line)،دائیرہ (Circle)اور کائناتی ترتیب پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ اگر انسان چاہےتووہ بھی ریاضیاتی بنیادوں پرزندگی کواس طرح ڈھال سکتا ہے کہ وہ کائنات کاہم رنگ بن جائے،بلکہ وہ یہاں تک کہتے ہیںکہ’’انسان بناسکتا ہے ‘‘ایک ایسی جرأت مند فکری پروازجسے جدیدبائیوانجنئیرنگ میں یامصنوعی ذہانت(AI) کے تناطر میں بھی دیکھاجاسکتا ہے۔
آج کے سائینسی دور میں جب مصنوئی ذہانت،کوانٹم فزکس،جنیاتی انجنئیرنگ اور فلکیات نے انسان کے تصورات کو چلینج کیا ہے،توایسے وقت میں’’تذکرہ‘‘جیسے علمی خزانے کوازسرنوپڑھنے اوران پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔یہ نہ صرف ہمارے فکری اُفق کووسعت دے گا بلکہ ہمیںقران کوایک زندہ، سائنسی، فطری اور ریاضیاتی کتاب کے طورپردیکھنے کی صلاحیت بھی عطاکرتاہے۔میں جب آج بھی اس کتاب کے اقتباسات کو یاد کرتا ہوں، تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص کس قدر دور اندیش، فکری طور پر نڈر اور علمی اعتبار سے کتنا گہرائی پسند ہو سکتا ہے۔ ’’تذکرہ‘‘ کوئی روایتی مذہبی یا سائنسی کتاب نہیں بلکہ ایک فکری و سائنسی شاہکار ہے، جو قرآن کے ساتھ انسانی عقل، سائنسی منہج اور
ریاضیاتی منطق کو جوڑتا ہے۔اگر آپ آج کے انسان کو مخاطب بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو دلیل، سائنس، تجربہ اور منطق کی زبان میں بات کرنی ہوگی۔ علامہ مشرقی نے یہی طریق اپنایا اور یہی ان کی کامیابی کا راز بھی ہے۔ آج جب دنیا مذہب اور سائنس کے درمیان تقسیم کا شکار ہے، تو ’’تذکرہ‘‘ اس خلا کو پر کرنے والی وہ نادر کوشش ہے جو اب مزید قابلِ توجہ بن چکی ہے۔میری تمام اہلِ دانش، محققین، طلبہ اور فکری تشنگی رکھنے والے افراد سے گزارش ہے کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ اگر آپ مذہب و سائنس کی ہم آہنگی، قوموں کے عروج و زوال کی حقیقت اور انسان کی اجتماعی تقدیر کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ’’تذکرہ‘‘ آپ کے لئے بیش قیمت رہنما ثابت ہو سکتی ہے۔یہ کتاب نہ صرف ماضی کا آئینہ ہے بلکہ حال کا مشعلِ راہ اور مستقبل کی ضامن بھی ہے۔ آئیں! ہم اس فکری خزانے کو دوبارہ دریافت کریں اور ان اذہان کو خراجِ تحسین پیش کریں جنہوں نے اپنے وقت سے بہت پہلے حقیقت کو پہچان لیا تھا۔
رابطہ۔9622555263
[email protected]