نئی دہلی // سپریم کورٹ کے سہ رُکنی بنچ نے آئین ہند کی دفعہ35اے سے متعلق تمام عرضداشتوں کی شنوائی ایک مرتبہ پھر قریب تین ماہ کیلئے ٹالتے ہوئے ان کی سماعت 12ہفتوں کے بعد کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔مرکزی سرکار نے کشمیر پر مذاکرات کار کی تقرری کی دلیل پیش کرتے ہوئے کیسوں کی سماعت چھ ماہ کیلئے التواء میں ڈالنے کی عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی لیکن عدالت نے اس کے ساتھ اتفاق نہیں کیا۔ سماعت کے دوران 4سرکردہ آئینی ماہرین نے ریاستی سرکار کی طرف سے کیس کی پیروی کی جبکہ مرکز کی طرف سے اٹارنی جنرل نے دلائیل پیش کئے۔کیس سے جڑی عرضداشتوں کی شنوائی پیر کو مقرر کی گئی تھی۔کیس کی شنوائی سپریم کورٹ کی عدالت نمبر ایک میں ڈویژن بنچ کے سامنے مقرر تھی اور اسے ضمنی زمرے کے تحت فہرست میں69ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔تاہم عدالت کا آج کا دن انتہائی مصروف رہا جس کے باعث چیف جسٹس، جسٹس دیپک مسرا، جسٹس اے ایم کھنویلکر اورجسٹس ڈی وائی چندر چُود پر مشتمل سہ رکنی بنچ کے سامنے دفعہ35Aسے متعلق4عرضیوں کی مختصرشنوائی ممکن ہوسکی۔شنوائی کے دوران ریاستی سرکار کی طرف سے سینئر وکلاء فالی ایس نارائن، راکیش دیویدی، کے کے ویشواناتھن اور شیکھر نافدے نے کیس کی پیروی کی۔اس موقعے پر بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ کیسوں کی سماعت فی الحال چھ ماہ کیلئے موخر کرے۔اس ضمن میں انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ مرکز نے جموں کشمیر میں امن کی بحالی اور دیگر معاملات کو لیکر حال ہی میں مذاکرات کار کی تقرری عمل میں لائی ہے اور اس کیس پر عدالت کا کوئی بھی فیصلہ مرکز کی کوششوںپر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ عدالت نے دفعہ35Aسے متعلق تمام عرضداشتوں کی شنوائی اب12ہفتے یعنی لگ بھگ تین ماہ بعد عمل میں لانے کا فیصلہ سنایا اوراس طرح یہ معاملہ ایک بار پھر ٹال دیا گیا۔عدالت نے پہلے8ہفتے اور بعد میں12ہفتوں تک کیس کو موخر کرنے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ ریاست جموں کشمیر کو آئین ہند کی مختلف دفعات کے تحت حاصل خصوصی پوزیشن کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا ہے اور اس ضمن میں کئی درخواستیں عدالت میں زیر سماعت ہیں۔سب سے اہم پٹیشن دلی کی ایک غیر سرکاری تنظیم’’وِی دی سٹیزنز‘‘ نے عدالت میں دائر کررکھی ہے جس میں دفعہ35Aکی منسوخی کا مطالبہ کیا گیا۔دفعہ35Aایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے 1954میں آئین ہندمیں شامل کی گئی تھی جس کے تحت جموں کشمیر کو مستقل باشندگی کے حوالے سے خصوصی حقوق تفویض کئے گئے ہیں۔سپریم کورٹ کا سہ رُکنی بنچ اس پٹیشن کی شنوائی کررہا ہے۔اسی طرح کی ایک اور عرضداشت کشمیری پنڈت خواتین چارو ولی کھنہ اور ڈاکٹر سیما رازدان بھارگو نے بھی عدالت عظمیٰ میں دائر کی ہے جس میںآئین ہند کی دفعہ35Aکے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کے آئین کی دفعہ6کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ اس پٹیشن میں ایسی کئی دفعات کو چیلنج کیا گیا ہے جن کی رو سے ریاست سے باہر شادی کرنے والی خاتون ریاست کے اندر جائیداد کے حق سے محروم ہوجاتی ہے اور یہ پابندی ان کے بچوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ریاستی آئین کی دفعہ6بھی اسی کے بارے میں ہے ۔قابل ذکر ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ریاست کے خصوصی درجے سے جڑے کیسوں کی ایک ساتھ سماعت کرنے کا پہلے ہی اعلان کررکھا ہے اور عدالت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر یہ معاملہ آئین سے جڑا ہے تو اس کیلئے ایک5رُکنی آئینی بنچ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ میں ریاست کی خصوصی حیثیت پر سوال اٹھائے جانے سے وادی کشمیر کے اندر بے چینی کا ماحول ہے اور اس معاملے پر سرینگر سے لیکر نئی دلی سیاسی حلقوں میں زوردار بحث جاری ہے۔ بھاجپا کو چھوڑ کرریاست کی تمام مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں نے اس پرمشترکہ اور انتہائی سخت موقف اختیار کررکھا ہے جن میں حکمران پی ڈی پی بھی شامل ہے۔یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی دفعہ35Aکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو لیکر نئی دلی کو خبردار کیا ہے۔ دوسری جانب علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ ساتھ تجارتی انجمنوں، وکلاء اور سول سوسائٹی تنظیموں نے بھی دفعہ35Aکی منسوخی کے خلاف ایجی ٹیشن چلانے کا اعلان کیا ۔ اگست کے مہینے میں اس کیس کی سماعت سے ریاستی حکومت کو عید الاضحی کے موقعے پروادی میں امن و قانون کامسئلہ درپیش آنے کا خدشہ لاحق ہوا ۔حکومت نے کیس کی شنوائی ٹالنے کیلئے ایک حکمت عملی مرتب کی جس کے تحت سپریم کورٹ سے کیس کی سماعت دیوالی کے بعد عمل میں لانے کی درخواست کی گئی اور عدالت نے اس کے ساتھ اتفاق کیا۔ ریاستی حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ نے کیس کی شنوائی قریب دو ماہ کیلئے ٹال دی تھی۔