جب پہلی کووڈ لہر دم توڑ گئی تو حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا اور ہم نے سکون کا سانس لیا۔ بازار آہستہ آہستہ کھلنے لگے ، دفاتر نے کام دوبارہ شروع کیا اورسکول بھی کھل گئے ، حالانکہ بچوں کو سکول بھیجنے کا فیصلہ بالآخر والدین پر چھوڑ دیا گیا۔ بدقسمتی سے دوسری لہر نے سب کچھ تہہ و بالا کردیا اور ہمیں ایک خوف ناک مرحلہ سے گزرنا پڑا،جو ابھی بھی ختم ہونے کا نام نہیںلے رہا ہے۔سینکڑوںجانیں ضائع ہوگئیں اور خوف و دہشت کے عالم میں زندگی کا پہیہ تھم سا گیا۔ سکول کھولنے کے فیصلے کو فوری طور پر واپس لے لیا گیا ،بازارایک بار پھر بند کر دئے گئے ، دفاتر میں ملازمین کی حاضری انتہائی کم ہوگئی اور تمام توجہ اس بحران کو سنبھالنے میں گئی جس سے ہزاروں متاثر ہوئے اور ان میں سے سینکڑوں افراد کشمیر میں بھی مر گئے۔
آہستہ آہستہ دوسری لہر کی شدت کم ہونے لگی اور کئی مہینوں کی جدوجہد کے بعد کورونا کے معاملات میں ٹھہرائو آگیا۔ اب ہمارے پاس کیس کم ہیں ، حالانکہ روزانہ کے اعدادوشمار میں بعض اوقات اچھال دیکھنے کو ملتی ہے۔بہر حال ایک بات ہے کہ زندگی پٹری پر آنے لگی ہے ۔بازار کھل چکے ہیں،ٹرانسپورٹ رواں دواں ہے اور صنعتی و تجارتی اداروں میں کام کاج بحال ہوچکا ہے تاہم اس ساری صورتحال میں بھی تعلیم کا شعبہ بدستور بند پڑا ہوا ہے اور سکول پر تالے لگے ہیں جس کے نتیجہ میں کمسن بچوں اور نوجوانوں کو مجبوراً آن لائن تعلیم کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔کورونا معاملات میں اتار چڑھائو نے سکول کھولنے کے بارے میں حتمی فیصلہ لینامشکل بنادیا ہے کیونکہ 18سال سے کم عمر والوں کیلئے ابھی تک کورونا ویکسین کا کوئی بندو بست نہیں کیاگیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس بارے میں ابھی تک سوچا بھی نہیں گیا ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ فی الوقت سرکار کی ساری توجہ 18سال سے اوپر عمر کے لوگوں کی کووڈٹیکہ کاری یقینی بنانے پر ہے۔
باغات اور پبلک پارکیں بھی کھل چکی ہیں ۔سیاحتی مقامات پر بھی رونقیں بحال ہونے لگی ہیں ،ایسے میں سکول اور دیگر تعلیمی ادارے کھولنے کے حق میں بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور ایسے لوگوںکا استدلال ہے کہ ہم زیادہ دیر تک روایتی درس و تدریس کے نظام سے دور نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ بچوں کا مستقبل تباہ ہورہا ہے۔اس نقطہ نظر کے حق میں کچھ دلائل بھی دی جارہی ہیں۔ ملک کی دیگر ریاستوں اور دیگر ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے یہ استدلال کیاجارہا ہے کہ سکولوں کو فوری طور پر کھول دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر تمام جگہوں کے کھلنے کو بھی سکول اور دیگر تعلیمی ادارے کھولنے کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کیاجارہا ہے۔دوسری طرف حکومت اس پر تلملا رہی ہے۔ متعلقہ محکمے اور ان کے سربراہان نے ابھی تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے کیونکہ تیسری لہر کے خدشات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔
یہاں حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ سکول کھولنے کے حق میں کچھ حلقوں کی جانب سے دی جارہی دلائل کو بھی سن لے لیکن جلد بازی یا سکولوں کے کھولنے کے حق میں اٹھ رہی آوازوں کے اثرات میں آکر کوئی فیصلہ نہ لے ۔ ہم نے انتہائی مشکل حالات سے پہلے کچھ سبق سیکھے ہیں اور ہمیں ان کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
اس کے ساتھ ساتھ وقت آگیا ہے کہ مرحلہ وار بنیادوںپر کم سے کم خطرات کے ساتھ سکولوں کو دوبارہ کھولنے کا منصوبہ تیار کریں۔ کوئی بھی فیصلہ صرف یہ تاثر دینے کے لئے نہیں لیاجانا چاہئے کہ حالات اب معمول پر ہیں۔ منصوبہ جو بھی ہو ، وہ حقائق اورسر دست دستیاب ڈیٹا کا پیشہ ورانہ تجزیہ پر مبنی ہونا چاہئے کیونکہ ہم نے ماضی میں دیکھ لیا ہے کہ جلد بازی میں لئے گئے فیصلے تباہ کن ثابت ہوئے اور ان سے کسی فائدہ کے برعکس ہمیں نقصان سے ہی دوچار ہونا پڑا۔اس لئے موجودہ حالات میں بھی محض حالات کا سرسری جائزہ لینے کی بجائے ہمیں ماہرین سے رجوع کرکے تعلیمی ادارے کھولنے کے بارے میں کوئی فیصلہ لینا چاہئے کیونکہ ماہرین ہی بہتر مشورہ دے سکتے ہیں تاہم ایک بات طے ہے کہ اب زیادہ دیر تک ہم تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کے متحمل نہیںہوسکتے ہیں اور ہمیں کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا ہی پڑے گا کیونکہ ویسے بھی یہاں کا تدریسی کلینڈر اب اپنے آخری مہینہ میں داخل ہونے والا ہے اور اکتوبر کے وسط سے امتحانات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جس کے بعد نومبر میں نیا تعلیمی سال شروع ہونا ہے ۔