Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
طب تحقیق اور سائنس

تحقیق و تجربات! | نئی تہذیب کی تلاش اور فتح مریخ کی تیاریاں

Towseef
Last updated: January 22, 2024 12:13 am
Towseef
Share
13 Min Read
SHARE

محمد مطاہر خان

یہ کائنات ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے، مٹھی بھر ریت میں دس ہزار ذرّات ہوتے ہیں اور یہ تعداد برہنہ آنکھ سے نظر آنے والے ستاروں سے زیادہ ہے لیکن جو بھی ستارے ہم برہنہ آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، وہ اصل ستاروں کی تعداد کا انتہائی کم ہیں، رات کو ہم جو کچھ آسمان پر ملاحظہ کرتے ہیں، وہ قریبی ستاروں کا افق ہے جب کہ کون و مکاں کا دامن لامحدود ستاروں سے لبریز ہے۔ کائنات میں موجود کل ستارے زمین پر موجود تمام ساحلوں کے تمام ریت کے ذرّات سے بھی زیادہ تعداد میں ہیں۔
کیا ان میں کسی پر بھی کسی تہذیب نے کبھی بھی جنم نہیں لیا؟ ہماری دودھیا کہکشاں میں یقیناً زمین سے لاکھوں یا اربوں سال پرانے ستارے بھی ہوں گے۔ہمارے سیارے کے وجود میں آنے کے بعد سے کئی ارب سال کے دوران کیا کبھی ایک دفعہ بھی کسی دور دراز تہذیب کا کوئی عجیب و غریب خلائی جہاز ہماری فضا میں مشاہدے کے لیے نہیں اترا۔
ماہرین ِ فلکیات کی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ ہماری اور دوسری کہکشائوں میں ایسے سورج موجود ہوسکتے ہیں کہ جنھوں نے اپنے سیاروں پر مشتمل اپنے نظامِ شمسی بھی تشکیل دیے ہوں، جن میں زمین جیسے سیّاروں کی موجودگی کا بھی امکان ہو اور ان میں حیات اور نشوونما کے لیے سازگار ماحول بھی موجود ہو۔ 1940ء کے عشرے میں امریکی ماہرِ فلکیات فرینگ ڈریگ نے ہماری دودھیا کہکشاں میں ایسے سیّاروں کی تعداد کے تعین کے لیے کہ جہاں حامل فہم و ادراک مخلوق پائی جاسکتی ہے، ایک کلیہ وضع کیا۔
اس بنیاد پر بہت سے ایسے ماہرین نے جو دوسرے سیاروں میں غیر ارضی تہذیب کی موجودگی کے بارے میں خاصے پرامید ہیں، صرف ملکی وے میں جس کے ایک کنارے پر ہمارے نظامِ شمسی کا وجود ہے، ایک لاکھ پچیس ہزار سیاروں کا اندازہ لگایا ہے جہاں زندگی پائی جاسکتی ہے، ہماری کہکشاں میں تقریباً چار سو بلین سورجوں کی موجودگی اور ان کے درمیان نامیاتی سالمات کا پایا جانا ،اس خیال کو مزید تقویت عطا کرتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق نظامِ شمسی کی پیدایش چار ارب سال قبل ہوئی۔ اس عرصے کے دوران مادرِ ارض پر ’’ہومیوسپین‘‘ یعنی زیرک انسان وجود میں آیا۔ اس طرح دوسرے سیاروں پر بھی اس طرح کی زندگی پروان چڑھ سکتی ہے، ناسا کے تحت قائم شدہ کائنات میں غیر ارضی تہذیب کی تلاش کے سربراہ کے مطابق ہماری کہکشاں میں ایسے سیارے موجود ہیں جہاں اس قسم کی حیات فروغ پاسکتی ہے اور جب ارض پر ایسا ہوسکتا ہے تو غیر ارض پر ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔
لیکن ہم اپنے نظامِ شمسی میں کس حد تک ترقی یافتہ تہذیب کی توقع کرسکتے ہیں؟ اگر کوئی تہذیب ہم سے ترقی میں مقابلتاً دس ہزار سال پیچھے ہے تو اس کے پاس کوئی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نہیں ہوگی۔ اگر وہ ہم سے کچھ آگے ہیں تو یقیناً اب تک یہاں کا دورہ کرچکے ہوں گے، کیونکہ ہم تو خود نظامِ شمسی کی چھان بین کررہے ہیں۔ دوسری تہذیبوں سے رابطے کے لیے ہمیں ایسا طریقہ درکار ہے جو نہ صرف بین السیارہ بلکہ بین الستارہ بھی رابطے کے لیے سازگار ہو۔
مثالی صورت حال تو یہ ہونی چاہیے کہ یہ طریقہ سستا اور تیز رفتار ہو تاکہ زیادہ معلومات بھیجی اور حاصل کی جاسکیں۔تہذیب، چاہے جیسے بھی ارتقائی حالت سے گزری ہو، اسے جلد سمجھ سکتے۔ خوش قسمتی سے ایسا ایک طریقہ ہے، جسے ریڈیو فلکیات کہتے ہیں۔ دور دراز ستاروں اور کہکشائوں کے طیفوں کے نقوش ایک جیسے ہیں، نہ صرف کائنات میں، ہر جگہ یکساں کیمیائی عناصر پائے جاتے ہیں بلکہ وہ کوانٹم قوانین بھی یکساں ہیں جو ایٹمی شعاعوں کے جذب اور خارج ہونے پر لاگو ہوتے ہیں۔امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ’’غیر ارضی تہذیب کی تلاش‘‘ کے کام کا آغاز 1969ء میں کیا اور اس سلسلے میں کئی اہم تحقیقاتی خلائی مشن اب تک خلاء میں روانہ کیے جاچکے ہیں۔
غیر ارضی تہذیب کی تلاش کے سلسلے میں پائینر 10، 11 اور 12 خلا میں روانہ کیے گئے۔ اس کے علاوہ وائجر اوّل و دوم اور وائی کنگ وغیرہ بھی خلاء میں ستاروں کی جانب رواں دواں ہیں۔ ان خلائی جہازوں میں زمین اور زمین والوں کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ موجود ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں جب انسان سطح مریخ پر بھی قدم رکھے گا اور بستیاں بسائے گا۔ نظام شمسی کی برادری میں شامل یہ سیارہ ہماری زمین سے بہت مشابہ ہے۔ بظاہر دونوں کی مدت قیام ایک ہے، دونوں کا عرصہ تسلسل بھی ایک ہے، دونوں ہی سورج کی روشنی سے اثر لیتے ہیں۔زندگی اُٹھتی ہے اور ایک کے اندر تو داخل ہوجاتی ہے لیکن دوسرے کو اپنی اثر پذیری سے محروم رکھتی ہے۔ آخر کیوں؟ یہ فرق کیوں ہے؟ یہی وہ اہم و القاوی سوال تھا اور اب بھی ہے، جس نے دنیائے سائنس میں ایک عرصے ہلچل مچائے رکھی اور عشاق مریخ پر مشتمل اہل سائنس کی ایک مخصوص تعداد ہر دور میں بضد رہی کہ مریخی ماحول حیات آفریں اور حیاتیاتی نقطہ نظر سے سازگار ہے، وہاں پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے، نہریں بہتی ہیں، بادل برستے ہیں اور زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رونق افروز ہے۔
ایک صدی سے زیادہ عرصے سے انسان سوچ رہے ہیں کہ آیا مریخ پر زندگی موجود ہے؟ لگتا ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں ماہرین فلکیات کو اس سوال کا حتمی جواب مل جائے گا۔ 19ویں صدی کے آخری برسوں میں امریکی ہیئت دان پرسیول لوول کا خیال تھا کہ اس نے مریخ کی سطح پر نہریں دیکھی ہیں۔ اس کے بقول یہ مشاہدہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ہمارے قریب ترین سیارے پر نہ صرف زندگی کا وجود ہو سکتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ وہاں کوئی ایسی تہذیب بھی ہو جو ہماری تہذیب سے برتر و ترقی یافتہ ہو۔ پرسیول لوول کی اس بات سے لوگوں کے لیے ایک نئی خیالی دنیا کے دروازے کھل گئے۔ابتداء میں خلائی مشن ’’وائیکنگ‘‘ مریخ پر پرسیول لوول کی کنال ڈھونڈنے میں ناکام رہا تھا، تاہم عہد جدید کے ترقی یافتہ مشن مریخ پر پانی کی موجودگی کے حتمی ثبوت ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا (NASA) نے سب سے پہلے کنکروں کی دریافت کی خبر دی تھی، مریخ پر ارضی مظاہر کی عمر کا درست تخمینہ لگانا ممکن نہیں لیکن مریخ گاڑی نے جو چٹانیں دیکھی ہیں وہ یقیناً 3 ارب سال سے پرانی ہیں، ان تصاویر کی مدد سے بخوبی پانی کی گہرائی اور رفتار کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو کبھی مریخ کی سطح پر رواں دواں تھا۔ بعد ازاں دیگر مہمات بلخصوص چائنا کے مشن نے بھی مریخ پر پانی کی تصدیق کی۔ مریخ سے آنے والی معلومات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف یورپ کے خلائی ادارے ای ایس اے نے برف سے بھرے گڑھے کی تصویریں جاری کیں تو دوسری طرف ناسا کا مشن’ ’ان سائٹ‘‘ بھی اپنے مختلف آلات کو کام میں لا رہا ہے۔
مریخ کے طوفانوں کے سبب گردوغبار کے تیزی سے جمع ہونے اور ناسا انسائٹ مارس لینڈر کی طاقت کو کم کرنے کے باوجود، خلائی ایجنسی نے اپنے قیام کو بڑھایا، اس لیے جیو فزیکل ڈیٹا، بشمول مریخ کے زلزلے کے سگنلز، گزشتہ سال کے آخر تک جمع ہوتے رہے۔ سائنس دانوں نے مریخ کے مرکز سے حرکت کرنے والی زلزلے کی لہروں کا پہلی بار مشاہدہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’زلزلے کے دو سگنلز، ایک زلزلے کے مقام سے بہت دور اور دوسرے سیارے کے دور دراز پر شہابِ ثاقب ٹکرانے کی جگہ کے سبب سائنس دان زلزلے کی لہروں کے ساتھ مریخ کے مرکز کی جانچ کرسکے۔
مریخ کو کئی حوالوں سے زمین سے مشابہت رکھنے والا سیارہ کہا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمین سے باہر کوئی انسانی بستی بسانے کے لیے سائنس دانوں کی نظریں سب سے پہلے مریخ پر ہی پڑتی ہیں۔ مریخ پر بھی زمین کی طرح زلزلے آتے ہیں۔فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان زلزلوں کی وجہ عموماً وہ شہاب ثاقب ہوتے ہیں جو اپنے مدار سے بھٹک کر مریخ کی سطح سے ٹکرا جاتے ہیں۔ شہاب ثاقب جتنا بڑا ہوتا ہے۔ اس کے ٹکرانے سے دھماکہ اور زلزلے کا جھٹکا بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔
تاہم، سائنس دانوں کے پاس اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے۔اب پہلی بار ہوا ہے کہ انہوں نے چار شہابیوں کے مریخ کی سطح سے ٹکرانے کے بعد دھماکے کی آوازیں اور زلزلے کے ارتعاش کو ریکارڈ کیا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق مریخ کی سطح پر ڈیٹا اکھٹا کر کے زمینی مرکز کو بھیجنے کے لیے جو گاڑی اتاری تھی، اس نے مریخ کی سطح پر شہاب ثاقب گرنے سے پیدا ہونے والے دھماکے اور زلزلے کے ارتعاش کا ڈیٹا بھیجا ہے۔
آج عہد جدید میں مریخ پر ماضی میں بسنے والے زندگی کے آثار ڈھونڈنے کے لئے اور اس سرخ سیارے پر انسانوں کے بسنے کے طریقوں پر بھی جانچ جاری ہے۔ اہل سائنس کے مریخ پر زندگی کے آثار کے حوالے سے مختلف نظریات رہےہیں۔ مریخ پر غیر ارضی تہذیب کی تلاش میں کچھ رپورٹس سے قبل بھی کئی اہم قابل ذکر مشن بھیجے گئے۔ اہل سائنس مریخ کے مزید انکشافات سے باز آنے والے نہیں وہ مزید سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے اور تحقیق کے نئے باب وا کرنے میں رات دن مصروف عمل ہیں۔
سائنس داں 2024ء تک انسانوں کو مریخ تک پہنچانا چاہتے تھے، مگر اب انہوں نے اس کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا اس دہائی کے آخر تک ہوسکے گا۔ 2016ء میں اسپیس ایکس کے بانی نے مریخ میں ایک شہر بسانے کے منصوبے کے بارے میں بتایا تھا اور توقع ظاہر کی تھی کہ انسان بردار مشن 2024ء تک سرخ سیارے پر پہنچ جائے گا۔اس کے بعد سے کمپنی نے مریخ راکٹ کی تیاری میں کافی پیش رفت کی ہے، مگر وہ اتنی نہیں جو 2024ء کے ہدف کو حاصل کرسکے۔ ایلون مسک کے مطابق ان کے خیال میں 2029ء وہ قریب ترین سال ہے جب ممکنہ طور پر انسان مریخ پر پہلا قدم رکھ سکیں گے۔ یعنی اس سال جب انسانوں کو چاند پر پہلی بار قدم رکھے 60 برس مکمل ہوجائیں گے۔

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
’’کس نے امریکی صدر کو ثالثی کرنے کیلئے کہا ؟‘‘ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اس کی وضاحت کریں : راہول گاندھی
برصغیر
معروف عالم دین مفتی نذیر احمد قاسمی دل کا دورہ پڑنے کے بعد اسپتال داخل، حالت مستحکم
تازہ ترین
اسکولوں میں گرمائی تعطیلات کا فیصلہ موسمی حالات پر منحصر ، حالات پر ہماری گہری نگاہ : سکینہ ایتو
تازہ ترین
وادی کشمیر میں شدید گرمی کی لہر جاری ، آئندہ کچھ دنوں میں گرمی کی لہر میں اضافہ ہو سکتا ہے ، موسمی تبدیلی کا فی الحال کوئی امکان نہیں:محکمہ موسمیات
تازہ ترین

Related

طب تحقیق اور سائنسکالم

دماغ اور معدےکا باہمی تعلق بہتر کیسے بنایا جائے؟ معلومات

May 18, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا ہے! | اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ طب و سائنس

May 18, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

کاربن ڈائی آکسائیڈ اور بڑھتے ہوئے خطرات | فضا کو آلودہ کرنے میں انسانوں کا اہم کردار ہے سائنس و تحقیق

May 18, 2025

زندگی کی چکا چوند ٹیکنالوجیکل سہولیات کی مرہون ِ منت ! انٹروپی۔ جمادات و نباتات اور انسان وحیوان کی جبلت کا حصہ

May 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?