Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
طب تحقیق اور سائنس

تحقیق ،دریافت اور ایجادات کی منزلیں  | ماہرین کے حیرت انگیز کارنامے منظر عام پر آرہے ہیں

Towseef
Last updated: December 26, 2022 1:24 am
Towseef
Share
31 Min Read
SHARE

سائنس و ٹیکنالوجی
نداسکینہ صدیقی
ٹیکنالوجی کا اُفق مزید وسیع کرنے کے لیے رواں سال سائنس دانوں نے حیران کن دریافتوں اورا یجادات کے بے شمار جھنڈے گاڑے اور علم و حکمت، دریافتوں اور ایجادات کے درخت میں متعدد شگوفے پھوٹے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحقیق اور ایجادات کسی بھی ملک کی ترقی کے دواہم پہلو ہیں۔ ان کے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں۔
جدید ایجادات ہی ترقی کے پہیے کی رفتار تیز کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماہرین نے رواں سال دنیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل کیمرہ تیار کیا، مختلف کاموں کے لیے روبوٹس تیار کیے گئے۔ ڈرون ،رنگ بدلنے والا اسمارٹ فون اور کاغذی بیٹری تیار کی گئی ،سرجنز کو خودکار تربیت دینے والے ’’اسمارٹ دستانے‘‘اور بہت کچھ منظر عام پر آیا۔2022 ء میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں مزید کیا کیا ہوا، اس کا اندازہ آپ کو ایجادات کی جائزہ رپورٹ پڑھ کر ہو جائے گا۔
موبائل سے کھلنے اور چلنے والی دنیا کی پہلی گاڑی :
2022 ء میں چین کی ٹیکنالوجی کمپنی نے جدید ترین گاڑی متعارف کروائی ہے ۔جسے موبائل کی مدد سے کھولا اور چلایا جاسکے گا ۔ یہ دنیا کی پہلی کار ہے جو ہائبرڈ ہے اور کمپنی کے اپنے آپریٹنگ سسٹم ، ہارمنی او ایس استعمال کرتی ہے۔ اس گاڑی میں بلیو ٹوتھ اور ایف ایف سی سپورٹ بھی دی گئی ہے۔
ایف فائیو گاڑی دیگر کے مقابلے میں اس لیے منفرد اور جدید ہے کہ اس کا لاک کھولنے اور اسٹارٹ کرنے کے لیے عام چابی کی طرح ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ ہارمنی آپریٹنگ سسٹم والے موبائل کی مدد سے سارے امور انجام دیے جائیں گے۔ڈیجیٹل چابی کو بلیوٹوتھ اور این ایف سی کے ذریعے استعمال کیا جاسکے گا، اگر صارف کا موبائل بند ہوجائے گا تو چابی بھی کام نہیں کرے گی۔
چند سیکنڈز میں رنگ بدلنے والا اسمارٹ فون :
رواں برس ایک نجی کمپنی نےایک ایسا اسمارٹ فون بنایا ہے ،جس کی کیسنگ دھوپ پڑنے پر صرف 30 سیکنڈ میں رنگ بدل سکتی ہے ۔اور اس رنگ کو واضح طور پر کیسنگ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس فون کو ’’سن شائن گولڈ ماڈل ‘‘ کانام دیا ہے۔ عام حالت میں کسینگ کا رنگ زردی مائل سنہرا ہے۔ لیکن رنگ بدلنے والی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ فون میں دیگر شاندار فیچر بھی موجود ہیں۔
اس کے علاوہ اس موبائل میں دو سیلفی کیمرے ہیں جن میں سے مرکزی کیمرہ 50 میگا پکسل اور دوسرا وائڈ اینگل کیمرہ 8 میگاپکسل کا ہے۔ اس میں قریباً ساڑھے چھ انچ کی اسکرین ہے، جس کی ریزولوشن 1080 پکسل اور ساخت اوایل ای ڈی ہے، جس کی اطراف خمیدہ ہے۔
پلگ کے ساتھ دنیا کا سب سے چھوٹا پاوربینک :
ایک نجی کمپنی نے اس سال دنیا کا سب سے چھوٹا اور تیز رفتار پاور بینک بنایا ہے ،جس کے اندر پلگ کے ساتھ چارجر بھی نصب ہے۔یہ پاور بینک 30 واٹ کی قوت رکھتا ہے اورتمام اقسام کے اسمارٹ فون اور ٹیبلٹس چارج کرسکتا ہے۔ اس میں 10 ہزار ایم اے ایچ بیڑی نصب ہے جو کئی آلات کو دو سے تین مرتبہ چارج کرسکتا ہے۔
پاوربینک کو’’ اسمارٹ کوبی پروپلگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔اس طرح یہ اپنے پلگ کی وجہ سے چارجر بھی ہے اور پاوربینک بھی ہے۔ اسمارٹ کوبی 30 واٹ کی بنا پرایک ہی وقت میں دو آلات چارج کرسکتا ہے۔ یعنی یوایس بی سی پورٹ 30 واٹ اور یوایس بی اے 12 واٹ چارجنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
نمک کے ذرّے کے برابر دنیا کی سب سے چھوٹی بیٹری :
2022 ء میں جرمن سائنس دانوں نے دنیا کی سب سے چھوٹی بیٹری تیار کی ہے جو دیکھنے میں نمک کے ذرّے کے برابر ہے ۔اسے سب سے پہلے جسم کے اندر موجود مائیکرو بوٹ اور سینسر میں استعمال کیا جائے گا ۔ جنہیں بجلی دینا ایک پرانا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ان بیٹریوں میں پولی میرک، دھاتی اور ڈائی الیکٹرک مٹیرئیل استعمال کئے گئے ہیں۔
یہ سب ایک ویفر پر لگائے گئے ہیں۔ یوں خردبینی بیٹری بیلن نما شکل اختیار کرجاتی ہے۔ اس طرح یہ بیٹری فی مربع سینٹی میٹر 100 مائیکروواٹ بجلی پیدا کرسکتی ہے اور اندرونی تناؤ کی وجہ سے برقی رو پیدا کرتی ہے۔ سائنسدانوں نے کے مطابق مائیکرو فیبریکیشن کی بدولت یہ بہت ہی باریک سرکٹس کو بجلی فراہم کرسکتی ہے۔طبی استعمال کے ساتھ ساتھ انہیں روبوٹک سسٹم اور انتہائی لچکدار برقیات میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑ ا جرثومہ :
رواں سال فرانسیسی اور امریکی سائنس دانوں نے دنیا کا سب سے بڑا جر ثومہ دریافت کیا ہے ،جس کی جسامت عام مکھی سے زیادہ ہے ۔اسے ’’تھیومارگریٹا میکنیفیکا ‘‘ نام دیا گیا ہے۔ دیکھنے میں بالکل پتلے دھاگے کی طر ح ہے ۔یہ جر ثومہ کیریبئین کے ساحلوں پر مینگرووز کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ عام بیکٹیریا کی لمبائی صرف 2 مائیکرومیٹر ہوتی ہے لیکن یہ جرثومہ اوسطاً 10,000 مائیکرومیٹر جتنا لمبا ہے جب کہ اس کا سب سے بڑا نمونہ 20,000 مائیکرومیٹر جتنا دیکھا گیا ہے۔
یعنی یہ عام بیکٹیریا کے مقابلے میں 5,000 سے 10,000 گنا تک بڑا ہے۔ اس نودریافتہ جرثومے کا جینوم 1 کروڑ 10 لاکھ ڈی این اے اساسی جوڑوں اور 11,000 جین پر مشتمل ہے۔ یعنی عام بیکٹیریا سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔تھیومارگریٹا میگنیفیکا کی خاص بات یہ ہےکہ اس میں بیک وقت پروکیریوٹ اور یوکیریوٹ، دونوں کی خصوصیات موجود ہیں جو اسے باقی تمام یک خلوی (یونی سیلولر) جانداروں سے منفرد بناتی ہیں۔
طوفانی بارش میں اڑنے والا ڈرون :
سائنس دانوں نے2022 ء میں طوفانی بارش میں اڑنے والا ڈرون تیار کیا ہے یہ ایم 300 آرٹی کے ڈرون نہ صرف اپنے ہیلی پیڈ نما ڈاکنگ اسٹیشن سے پرواز کرتا ہے بلکہ تیز بارش اور برفباری میں بھی اپنی ہموار پرواز جاری رکھتا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ڈرون صنعتی اور فضائی معیارات کے تحت بنایا گیا ہے۔ یہ مکمل طور پر واٹر پروف ہے جسے موسم سے بچاؤ کے لیے ہرطرف سے بند کیا گیا ہے۔
کمپنی کے مطابق یہ نیا ڈرون تیزبارش، بلندی، طوفانی ہواؤں، برفباری اور ژالہ باری کے ساتھ ساتھ منفی 20 کی سردی اور 50 درجے کی گرمی میں آسانی سے کام کرسکتا ہے۔ گردوغبار اور پانی سے محفوظ اس ڈرون کی آئی پی 45 ریٹنگ ہے۔ یہ فولڈ ہونے والے ڈرون میں سب سے نمایاں اور بہترین مقام رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد یہ مسلسل 41 منٹ تک پرواز کرسکتا ہے۔
سرجنز کو خودکار تربیت دینے والے ’’اسمارٹ دستانے‘‘ :
اس سال آسٹریلوی ماہرین نےسینسر سے بھرا دستانہ تیار کیا ہے جو ہاتھوں کی حرکات کی رہنمائی کرتا ہے ۔ سرجیکل دستانوں میں لگے سینسر پہننے والے کی انگلیوں اور حرکات پر نظر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فیڈ بک اور رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس دستانے میں انگشتِ شہات، انگوٹھے اور درمیانی انگلی کی پشت پر تاروں سے جڑے سینسر نصب کیے گئے ہیں۔ یہ تار کی صورت میں ہیں جنہیں ’’انرشیئل میژرمنٹ یونٹس‘‘( آئی ایم یو) کہا جاتا ہے۔ ایک دستانے میں سینسر یا یونٹ کی تعداد نو کے قریب ہے۔
آئی ایم یو کا ڈیٹا دستانے کی پشت پرلگےہوئے بہت چھوٹے سرکٹ تک جاتا ہے۔ یہ ڈیٹا بلیوٹوتھ طریقے سے اسمارٹ فون ، ٹیبلٹ، کمپیوٹر یا ڈیٹابیس کلاؤڈ تک جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا پورا ڈیٹا بیس ایک کیٹلاگ کی صورت میں بنتا رہتا ہے جو بعد ازاں سرجنوں کے کام آتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ جراحی کا درست طریقہ کونسا ہے ،جس سے سرجنز رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب ان دستانوں کو آگمینٹڈ ریئلٹی کے ساتھ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
فی سیکنڈ میں دو ارب تصاویر پروسیس کرنے والی دماغی چپ :
2022 ء میں جامعہ پنسلوانیاکے سائنس دانوں نے عین دماغی طور پر کام کرنے والی طاقتور آپٹیکل چپ تیار کی ہے جو ایک سیکنڈ میں دو ارب تصاویر پروسیس کرسکتی ہے ۔یہ برقی چپ اعصابی (نیورل ) نیٹ ورک کی طرز پر تیار کی گئی ہے جو روایتی انداز کے بر عکس کام کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کا نظام عین دماغی اور اعصابی نظام کے تحت بنایا گیا ہے۔ اس میں موجود نوڈز دماغی خلیات یا نیورون کی طرح جڑے ہوتے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ نیورل نیٹ ورک کی طرح ازخود سیکھتے رہتے ہیں اور اپنی کارکردگی بہتر بناتے رہتے ہیں۔ یعنی وہ تصاویر یا الفاظ کے مجموعے کے ڈیٹا سیٹ کو دیکھتے ہوئے سیکھتے رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ پروسیسنگ بہتر سے بہتر ہوتی رہتی ہے۔ چپ کے اندر برقی سگنل کی بجائے روشنی ایک سے دوسرے مقام تک دوڑتی نظر آتی ہے، جس کی بنا پر اسے’’ آپٹیکل چپ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
تھری ڈی اٹامک فورس خردبین :
متحدہ عرب امارات میں قائم نیو یارک یونیو رسٹی کے سائنس داں ڈاکٹر محمد قصیمہ اور ان کے ساتھیوں نے اس سال نئے طر یقے سے اٹامک فورس مائیکرواسکوپی (اے ایف ایم ) سینسر بنایا ہے ،انہیں تھری ڈی ٹی آئی پی ایس کا نام دیا گیا ہے ۔یہ مائیکرو اور نینو پیمانے پر اشیا کو بہت واضح انداز میں دکھا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ تھری ڈی سازی کے ایک ہی مرحلے سے تشکیل دئیے گئے ہیں اور اسے جدید ترین اے ایف ایم قرار دیا گیا ہے ۔روایتی بصری خردبین کے مقابلے میں اے ایف ایم کسی شے کو 1000 گنا واضح کرکے دکھاتی ہے۔ اسے طب، مینوفیکچرنگ سمیت خلیات، ڈی این اے اور پروٹین دیکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ہم حقیقی وقت میں براہِ راست انہیں دیکھ سکتے ہیں۔
روایتی اے ایف ایم میں سلیکون ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جب کہ وہ دوجہتی ڈیزائن رکھتے ہیں اور ان کی تیاری میں بہت سے مراحل شامل ہوتے ہیں۔ لیکن روایتی ٹیکنالوجی سےجانوروں یا انسانوں کے خلیات کی جانچ مشکل ہوتی ہے،تاہم اپنی تیاری اور ڈیزائن کے تحت تھری ڈی ٹی آئی پی ڈی این اے، پروٹین اور ہرقسم کے خلیات کی جانچ کرسکتے ہیں اور ہمیں ان کی سطح بھی دکھا سکتے ہیں۔ دوسری جانب اسکیننگ کا عمل بھی 100 گنا تیز ہو جاتا ہے۔ یعنی اس سے بلند معیار کی تصاویر بہت تیزی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔( مضمون جاری ہے)

�����������������
سانپ کے زہر کا اثر کیسے زائل کیا جائے؟
تریاق بنانے کیلئے نئی کوششیں جاری!
معلومات
ڈاکٹر سید فراز معین
ایشیا اور افریقی ممالک میں سانپ کے کاٹنے سے ہونے والے جانی نقصان کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ دونوں بر اعظم مل کر دنیا کا سب سے بڑا زمینی رقبہ بن جاتے ہیں۔ یہ دونوں براعظم ایک سو سینتالیس ملکوں پر مشتمل ہیں اور ہر طرح کا پہاڑی نظام ، سطح مرتفع میدانی، میدان، صحرا ، میٹھے اور کھارے پانی پر مشتمل ہر طرح کا خطہ اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا میں پائے جانے والی جانوروں کا بڑا حصہ اس خطے میں اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے۔ زہریلے سانپوں میں سے بھی ایک بڑا حصہ ان دو بر اعظموں میں پھیلا ہوا ہے۔ جو جغرافیائی لحاظ سے ایک ہی نسل ہونے کے باوجود اپنے زہر میں موجود اجزاء کی سطح پر ایک دوسرے سے کچھ فرق رکھتے ہیں۔ یہ فرق اس وقت پریشانی کا باعث بن جاتا ہے جب کسی انسان کو سانپ کے کاٹے کا تریاق یا سانپ کے زہر کو ختم کرنے والی دوا دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ دوا در اصل گھوڑوں کو استعمال کرتے ہوئے بنائی جاتی ہے اور اسی عمل میں گھوڑوں کو بہت کم مقدار میں سانپ زہر دیا جاتا ہے، پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس مقدار کو انتہائی احتیاط کے ساتھ بڑھایا جاتا ہے اور گھوڑا اپنے خون میں موجود صفائی نظام کے ذریعے اس زہر کے اثر کو زائل کرنے والی اینٹی باڈی جو کہ ایک قسم کی پروٹین ہوتی ہے، اس کو بناتا ہے۔
یہ اینٹی باڈی گھوڑے کے خون سے الگ کرکے سانپ کے زہر کا تریاق بنایا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ کون سازہر استعمال کرتے ہوئے یہ تریاق بنایا گیا ہے۔ سانپ کس علاقے کا ہے اور کیا کئی زہر ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئےتریاق بنایا گیا ہے، جس کو ہم کشیر گرفتہ کہتے ہیں یا پھر ایک ہی سانپ کے زہر کو استعمال کرتے ہوئے یہ کام انجام دیا گیا ہے، جس کو ہم یک گرفتہ کہتے ہیں۔یہ تریاق اس علاقے کے سانپ کے زہر کا اثر ختم کر سکتے ہیں، جس علاقے کا سانپ ہوتا ہے۔
چناں چہ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ایک ملک میں بنایا جانے والا تریاق جب دوسرے ملک میں استعمال ہوتا ہے تو وہ کچھ نہ کچھ ضمنی اثرات رکھتا ہے اور مریض کو زیادہ مقدار میں چاہیے ہوتا ہے۔ مختلف ملکوں میں استعمال ہونے والا تریاق عام طور سے کثیر گرفتہ ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مریض کو کسی سانپ نے کاٹا ہے، اس بات کا پتہ چلنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ سانپ کو صرف مریض نے دیکھا ہوتا ہے یا جس کسی نے دیکھا ہوتا ہے وہ سانپوں کی قسموں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے صحیح طور بتا نہیں پاتا ہے۔
عام طور سے ڈاکٹر مریض کی ابتدائی علامات کی بنیاد پر اندازہ لگا سکتا ہے ،مگر مکمل طور پر اعتماد کے ساتھ یہ طے نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ایک کثیر گرفتہ تریاق مریض کے جسم میں ٹیکہ لگا کر داخل کر دیا جاتا ہے ۔ مریض کی حالت کیسی ہےاور کتنا زہر مریض کے جسم میں داخل ہوا ہے یہ بات طے کرتے ہیں کہ تریاق کی کتنی مقدار وقفے وقفے سے مریض کو دینی ہیں۔ ضمنی طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مریض میں زیادہ تریاق دینے کی وجہ سے حساسیت یا الرجی بھی ہو جاتی ہے، جس کا علاج ایک اضافی بوجھ بن جاتا ہے۔
اس کے باوجود گھوڑوں سے بنایا جانے والا سانپ کے زہر کا تریاق دنیا میں سب سے زیادہ دستیاب ہے اور سانپ کے کاٹے کے لیے یہی استعمال ہوتا ہے۔ بندر، خرگوش وغیرہ کو بھی تریاق بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے،مگر وافر مقدار میں دستیابی اور سانپ کے زہر کی کم مقدار استعمال کرنے کے باوجود یہ چھوٹے جاندار دوران عمل ہی مر جاتے ہیں جب کہ گھوڑا ایک مضبوط جاندار ہونے کی وجہ سے کم زہر کے اثرا ت کا بوجھ سہہ جاتا ہے اور اس کا خون اینٹی باڈی کی شکل میں تریاق بنا لیتا ہے، مگر اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ایک ہی نسل کے سانپ علاقائی طور پر اپنے زہر کے اجزاء میں کچھ فرق رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہر علاقے کے سانپ کا زہر لے کر اس کا مخصوص تریاق بنانا چاہیے۔
گھوڑوں سے حاصل شدہ خون اگر چہ زیادہ مقدار میں ہوتا ہے اور اس سے بننے والا تریاق زیادہ تعداد میں مریضوں کو دیا جا سکتا ہے، مگر گھوڑوں پر لگنے والی لاگت اور اس عمل کو سالوں تک قائم رکھنے کے لیے ایک مکمل نظام چاہیے ہوتا ہے جو کہ ترقی پزیر ممالک کے لیے برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے، پھر حاصل شدہ تریاق کا معیار برقرار رکھنا ایک اور اہم مرحلہ ہوتا ہے، جس کو کوالٹی کنٹرول کیا جاتا ہے۔
یہ تمام منظرنامہ اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ کوئی اور طریقہ اپنا کر سانپ کے زہر کا تریاق بنانے کے لیے رائج کیا جائے، جس طرح آج کے دور میں مختلف ویکسین دستیاب ہیں جو کہ تجربہ گاہ میں بنائی جاتی ہیں یا انسولین جو کہ ایک ہارمون ہے اور اسی طرح تجارتی بنیادوں پر بنایا اور بیچا جاتا ہے۔ بالکل ویسے ہی زہر کا تریاق بھی حاصل کیا جائے اور سستے داموں دستیاب ہو۔
اس سلسلے میں مختلف تحقیقاتی اداروں میں کام کیا گیا ہے اور ایک ایسا طریقہ کھوجھنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ تریاق بنانے کا کام نہ صرف آسان کر دے بلکہ یہ دوا سستے داموں دستیاب بھی ہو اور ضمنی اثرات سے پاک ایک انتہائی مفید فارمولا رکھتی ہو۔ ایک حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ کسی ایک بڑے علاقے میں موجود ایک ہی نسل کے سانپ سے زہر حاصل کیا جائے اور پھر اس زہر میں سے سب سے زیادہ مہلک جز کو پہچان کر الگ کر لیا جائے۔ یہ ہر علاقے کے سانپ کے زہر کے ساتھ کیا جائے۔ اسی طرح بہت کم اجزا مگر زہر کے انتہائی مہلک حصے کو جمع کیا جا سکتا ہے ۔ یہ حصہ خام زہر کی طرح پیچیدہ نہیں ہوگا۔
لہٰذا کسی اور نسل کے علاقائی سانپوں سے بھی اسی طرح سے مہلک ترین اجزاء کو الگ کر کے دو مختلف نسل کے سانپوں کے حصے ملا کر یہ مرکب تریاق بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بننے والا تریاق انتہائی مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ ضمنی اثرات سے کافی حد تک پاک ہوگا اور چونکہ اس تریاق میں ایک یا دو مختلف نسل کے تمام چھوٹے بڑے علاقوں کے سانپوں کے زہر کا کچھ نہ کچھ مہلک جز موجود ہوگا۔ لہٰذا یہ تریاق آس پاس کے تمام ممالک اور بر اعظم کے لیے استعمال ہو سکے گا۔
اس کام کو تحقیقی طور پر ابتدائی نتائج کی بنیاد پر ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع کیا جا چکا ہے، جس کے لکھاری اتنا بانا نگکون ہیں جو کہ ایک تحقیقی ادارے، بنکاک، تھائی لینڈ سے منسلک ہیں۔ اسی طرح ایک اور تحقیق بھی جو کہ رومن راموسی اور ان کے ساتھیوں نے شائع کی ہے ایک اور طریقے کو اپنانے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ جدید طریقوں کی وجہ سے اب یہ بات ممکن ہو چکی ہے کہ کسی بھی سانپ کے زہر کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لی جائیں اور یہ پتہ لگایا جائے کہ زہر کے سب سے مہلک چار یا پانچ ٹاکسن کونسے ہیں اور پھر ان سے کام شروع کیا جائے۔
ان ٹاکسن سے تعامل کے نتیجے میں جو اینٹی باڈی بنتی ہے ،اس کو کام میں لاتے ہوئے خاص ایپی ٹاپ کے ذریعے سے تجربہ گاہ میں خاصی خلیات کے ذریعے سے ان ٹاکسن کے اثر کو زائل کرنے والی نسبتاً چھوٹے سائز کی پروٹین حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ تریاقی پروٹین اس سانپ کے زہر کے تریاق کے طور پر کام کر سکتے ہیں ،جس کی ٹاکسن سے یہ بنائے گئے ہوں، پھر اس میں ایک اور عنصر جو کہ جینیاتی طور پر بھی استعمال کر لیا جائے تو ایک طرح کا امیونائزیشن کا طریقہ بھی علاج کے لیے دستیاب ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ تریاق بنانے والے ہر طریقے کے اپنے فائدے اور کمی ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے سے نئے اور قابل عمل طریقے سامنے آرہے ہیں۔برصغیر میں سانپ کے کاٹے کا تریاق بنا رہا ہے۔ یہ تریاق گھوڑوں کے ذریعے سے کثیر گرفتہ شکل میں بنایا جا رہا ہے۔ برصغیر میں سانپ کاٹنے سے سالانہ ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہاں بننے والا تریاق اور اس کی مقدار نا کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک سے درآمد کیا جانے والا تریاق بھی موجود ہے جو کہ کم اثر ہے ،کیوںکہ وہ دوسرے ملکوں میں موجود سانپ کے زہر سے بنایا گیا ہے اور نسل ایک ہونے کے باوجود علاقائی فرق کی وجہ سے زہرمیں کچھ نہ کچھ تبدیلی موجو د ہے اور وہ تبدیلی برصغیر میں سانپ کے کاٹے کے مریض کو ضمنی اثرات کی طرف لے جاتی ہے اور درآمد شدہ تریاق کی زیادہ مقدار بھی مطلوب ہوتی ہے۔
برصغیر میں موجود زہریلے سانپوں پر ہونے والی تحقیق تو موجود ہے، مگر اس کے تریاق سے متعلق تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہی گھوڑوں والا طریقہ اپناتے ہوئے تریاق بنایا جا رہا ہے جو کہ مالی طور پر تریاق بنانے والے اداروں کے لیے بوجھ ہے۔ سانپ کے زہر کے تریاق سے متعلق تحقیق خاص توجہ طلب ہے، جس طرح سے سیلاب جیسی قدرتی آفات وقفے وقفے سے آتی رہتی ہے۔ اس لحاظ سے تو اس طرف ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ زہر کے تریاق کے لیے بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تحقیق سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جس سے حاصل ہونے والے نتائج دیہی علاقے میں رہنے والے اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے لوگوں کو ایک سستے دامو اور وافر مقدار میں دستیاب سانپ کے زہر کا تریاق با آسانی مل سکے گا۔
���������������������

 

فضائی آلودگی کے خطرناک نتائج!
مردو زَن میں بانجھ پن اورحمل میں بچوں کی اموات کاسبب
تحقیق
ویب ڈیسک
برصغیر سمیت دنیا کے 137 ممالک میں کی جانے والی ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی ماں کے پیٹ میں بچوں کی اموات سمیت پیدائش کے فوری بعد موت کا بھی بڑا سبب ہے۔تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں سالانہ 10 لاکھ بچوں کی اموات ہوتی ہیں جو یا تو پیدائش سے قبل ماں کے پیٹ میں مر جاتے ہیں یا پھر پیدائش کے فوری بعد ان کی موت ہوجاتی ہے۔طبی جریدے ’نیچر کمیونی کیشنز‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق ماہرین نے 1998 سے 2016 تک بھارت ،پاکستان اور نائیجیریا سمیت 137 ممالک کی فضائی آلودگی اور بچوں کی اموات پر تحقیق کی گئی۔ماہرین نے براعظم ایشیا، افریقہ او امریکا کے ایسے ممالک کو تحقیق کا حصہ بنایا، جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے اور وہ ممالک غریب یا متوسط آمدنی والے تھے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے مرجانے والے 10 لاکھ بچوں میں سے نصف بچے زمین سے نکالے جانے والے ایندھن کی آلودگی سے پیدا ہونے والے خطرناک ذرات کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ فضائی آلودگی سے ہلاک ہونے والے نصف بچوں کے پھیپھڑوں، دماغ اور دوسرے عضووں میں انتہائی چھوٹے آلودہ ذرات چلے جانے کی وجہ سے ان کی اموات ہوتی ہیں۔
اس سے قبل ہونے والی تحقیقات میں بھی فضائی آلودگی کو حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں کا سبب قرار دیا جا چکا ہے، علاوہ ازیں آلودگی کو مرد و خواتین کے بانجھ پن کا ایک سبب بھی قرار دیا جا چکا ہے۔فضائی آلودگی سے مردوں اور خواتین دونوں میں بانجھ پن کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ سکتا ہے۔یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی جس میں فضائی آلودگی سے آبادی کے لیے بڑھنے والے خطرات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔اس تحقیق میں چین کے 18 ہزار جوڑوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے پر دریافت کیا گیا کہ ایسے علاقے جہاں چھوٹے ذرات کی آلودگی کی شرح زیادہ ہوتی ہے، ان میں بانجھ پن کا خطرہ 20 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
بانجھ پن دنیا بھر میں لاکھوں جوڑوں کی زنگی کو متاثر کرتا ہے مگر اس حوالے سے فضائی آلودگی کے اثرات پر اب تک کچھ خاص کام نہیں ہوا۔
تاہم آلودہ فضا کے بارے میں یہ پہلے ہی معلوم ہوکا ہے کہ اس سے مختلف پہلو جیسے قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت کم وزن جیسے مسائل کے خطرات بڑھتے ہیں۔
پیکنگ یونیورسٹی کے سینٹر فار ری پروڈکٹیو میڈیسین کی اس تحقیق میں شامل چن لی نے بتایا کہ جوڑوں کو فضائی آلودگی کے حوالے سے فکرمند ہونا چاہیے، متعدد تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی حمل سے متعلق متعدد نقصانات کا باعث بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لگ بھگ 30 فیصد بانجھ جوڑوں میں بانجھ پن کی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ان کا کہنا تھا کہ عمر، جسمانی وزن اور تمباکو نوشی بانجھ پن کے عام عناصر ہیں، مگر ہماری تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ فضا میں چھوٹے رات کی آلودگی بھی یہ خطرہ بڑھاتی ہے۔۔
انہوں نے بتایا کہ سابقہ تحقیقی رپورٹس کے نتائج ملے جلے تھے، مگر ہماری تحقیق یں عام آبادی کے نمونوں کو حاصل کیا گیا تھا تو نتائج کا اطلاق ہر ایک پر ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ چین، پاکستان، بھارت اور ایسے ممالک میں فضائی آلودگی کی شرح بہت زیادہ ہے مگر اس مسئلے کے تولیدی صحت پر اثرات پر اب تک کچھ خاص کام نہیں ہوا۔
تحقیق کے دوران 18 ہزار 571 جوڑوں کے انٹرویوز کیے گئے اور ان سے سوالنامے بھروائے۔
ان جوڑوں کا انتخاب چائنا فرٹیلیٹی سروے سے کیا گیا تھا کیونکہ چین میں حاملہ ہونے کی کوشش کرنے سے قبل خواتین کو اپنے نام رجسٹر کرانا ہوتے ہیں، جس سے محققین کے لیے والدین بننے کے خواہشمند جوڑوں سے رابطہ کرنا آسان ہوگیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ چھوٹے ذرات کی آلودگی (19 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر) سے ایک سال تک متاثر ہونے والی خواتین میں بانجھ پن کا خطرہ 20 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ زیادہ آلودگی کے شکار مقامات میں 15 سے 26 فیصد خواتین کی حاملہ ہونے کی کوششیں 12 ماہ بعد بھی کامیاب نہیں ہوسکیں جبکہ کم آلودہ مقامات میں یہ شرح بہت زیادہ کم تھی۔اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل انوائرمنٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئے۔
�������������������

 

 

 

 

 

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
اننت ناگ میں اپنی پارٹی کا یک روزہ کنونشن ،سات دہائیوں سے زائد عرصے میں جو کچھ کھویا وہ راتوں رات واپس نہیں آ سکتا: سید محمد الطاف بخاری
تازہ ترین
جہامہ بارہمولہ میں 13سالہ کمسن دریائے جہلم میں ڈوب گیا،بازیابی کیلئے بچاؤ آپریشن جاری
تازہ ترین
امر ناتھ یاترا کے لیے جموں میں رجسٹریشن مراکز پر عقیدت مندوں کا ہجوم، سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات
تازہ ترین
امر ناتھ یاترا جموں و کشمیر کی روحانی یکجہتی اور ثقافتی ورثے کی علامت : نائب وزیر اعلیٰ
تازہ ترین

Related

طب تحقیق اور سائنسمضامین

زندگی گزارنے کا فن ( سائنس آف لیونگ) — | کشمیر کے تعلیمی نظام میں ایک نئی جہت کی ضرورت فکرو فہم

June 30, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

! کتب بینی کی روایت دَم توڑ رہی ہے فکر انگیز

June 30, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

گرمائی تعطیلات اور گرمی کا موسم فکر و ادراک

June 30, 2025
طب تحقیق اور سائنسکالم

! سیکھنے میں کیسی شرم؟ سوال علم کی ابتدا ہے

June 30, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?