اجی واقعہ یہ ہے کہ جب آپ تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوجاتے ہیں تو بے جا پابندیوں اورعقلی نقلی دلیلوں کاسہارا لے کرپابندیوں کومزیدسخت کرنے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے یہاں(خطہ ٔاودھ میں) اس عمل کو محاورتاً یوں استعمال کیاجاتا ہے،’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘۔ چوں کہ آپ کے پاس اختیارات ہوتے ہیں،تواپنی کھسیاہٹ کوچھپانے کی غرض سے اختیارات کا بے جا و بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اور اس طرح اپنی اَنا کو تسکین پہنچاتے ہیں۔
واضح رہے پابندیوں اورتحفظ کے نام پراختیارات کا بے استعمال اور حفاظتی دستوں کی بے جا وکالت نظام کی ناکامی و نامرادی کی صریح دلیل ہے۔جناب آسانیاں فراہم کرکے جس قدرماحول کو’عوام دوست‘ اور’ترقی پسند‘ بنایا جاسکتا ہے،وہ پابندیاں عائد کرکے کسی طورممکن نہیں ہے۔مجھے میرے ماسٹر صاحب کی بات یاد آرہی ہے۔میرا دل کہہ رہا ہے کہ شئیرکرتا چلوں۔محترم المقام اکثرفرمایا کرتے تھے :
’’دیکھو بچوں،باندھے بازار نہیں لگتی ہے‘‘۔
اس وقت بھلے ہی محترم المقام کی بات ہماری سمجھ میں نہ آتی رہی ہو، لیکن آج ہم خوب سمجھ میں آ رہی ہے ،واللہ۔آپ نے بھی قدرے عقل و فہم رکھنے والوں سے بارہا سنا ہوگا،’’آسانیاں فراہم کیجئے،لوگوں کو بااختیار بنائیے‘‘۔ آسانیوں میں بڑی راحت رکھی گئی ہے۔
اچھا جی مذکورہ بالا تمہید کی وجہ یہ ٹھہری کہ آج یعنی آج جب کہ لوگ ’مریخ‘ پر زندگی کے آثاردیکھ کررہائش پلان کررہے ہیں،پہاڑوں کی میخیں ہلادی جا رہی ہے،سونامی جیسی موجیں مار رہے پانیوںمیں برج بنا دے رہیں ، جناب اسی آج میں لڑکیوں کورات آٹھ بجے کے عمل کے بعد اپنی تعلیم گاہ کے دارامطالعہ میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ہے نہ کتنی عجیب سی بات۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا نہ خواستہ کوئی لڑکی یاخاتون مطالعہ کررہی ہیں یا اپنا علمی کام،پروجیکٹ وغیرہ مکمل کررہی ہیں توانہیں متعینہ وقت سے پہلے پہلے کام مکمل کرکے کسی بھی صورت میں لائبریری خالی کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ دوسری جانب ان کے ہم عمر و ہم کلاس لڑکے رات گئے لائبریری کے بند ہونے پروہاں سے نکلتے ہیں۔انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے یا انہیں اس بات کا احساس ہوکہ یہ معاشرہ انہی کا ہے اس لئے انہیں خوف زدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، وَاللہُ اَعلَم!
جناب یہ توتعلیم گاہ کا معاملہ رہا۔اچھا جی آگے بڑھنے سے قبل یاد دہانی کرادوں کہ یہ وہی تعلیم گاہ ہے،جہاں انسانی حقوق و انصاف کی بات کی جاتی،جہاں انسانی برابری ماخوت اورمساوات کا درس دیا جاتا ہے۔اب ہم وہاں کی بات کرلیتے ہیں جہاں تیسری آنکھیں مسلسل سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
گوکہ دعوے بلند کیے جاتے ہیں کہ یہاں’ تیسری آنکھیں‘ ہرآنے جانے والوں کو مسلسل دیکھے جارہی ہیں۔’خواتین امدادی نمبرات‘ اپنی پیٹھ پرلادے گاڑیاں مسلسل دوڑ دھوپ کررہی ہوتی ہیں۔صاحب سلامت،سب کچھ تسلیم ہے،سب دعوے درست ہیں۔میری دلی آرزو بھی یہی ہے کہ سب کچھ چست درست رہے۔تمام دعوے اپنی حقیقت کو پہنچیں۔
اچھا جی اب ہم ذرا زمین سے جڑکریا کہہ لیں کہ جھانک کر دیکھ لیتے ہیں کہ اصل ماجرا کیا ہے۔دعوے کتنے سچے ہیں اور بات کس حد تک درست ہے۔جناب عالی سولہ دونی بتیس آنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم زمینی سطح پرحقائق کی چھان بین کرتے ہیں تو صحت مند نتائج ہمارے سامنے نہیں آتے ہیں،یہ بات ہمیں افسوس کے ساتھ کہنی پڑرہی ہے۔اس ضمن میں ذاتی تجربات و مشاہدات بھی ہیں اوردوسروں کی زبانی کہے سنے بھی۔دارالحکومت کی بات کی جائے تویہاں بھی عورتوں کے حوالے سے حالات سازگارنہیں ہیں۔سہہ پہرہوتے ہی لڑکیاں پہلو بدلنے لگتی ہیں ۔اپنی گھڑیاں دیکھنے لگتی ہیں کہ مجھے اتنے بجے تک بہرحال گھرپہنچنچ جانا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے گھروں بھی سے فون آنے شروع ہو جاتے ہیں۔میرے حلقے میں ایسی کئی تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ خواتین ہیں جوشام ہوتے ہی اول وقت میں گھرپہنچ جانے کے لیے بیتاب ہونے لگتی ہیں۔گھڑی کی سوئیان جوں ہی شام کے عمل پر پہنچتی ہیں ان کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑنے لگتی ہے۔بل کہ یوں کہیں کہ ان کے چہرے پر گھڑی بن جاتی ہے۔معذرت کے ساتھ کہوں تو ایک پل کو ایسا لگتا ہے جیسے ان کی بیٹری ڈاؤن ہورہی ہو۔
حضورایسا نہیں ہے کہ وہ ازخود ایسا چاہ رہی ہیں یا وہ اول وقت میں ہی گھر پہنچ جانا پسند کرتی ہیں۔نہیں،ایسا نہیں ہے۔وہ خود بھی اسے مناسب خیال نہیں کرتی ہیں، لیکن کیا کیجئے گا صاحب کہ ہم نے جس معاشرے کی تعمیرکی ہے وہاں شام کے بعد ان کا باہر رہنا قطعی مناسب خیال نہیںکیا جاتا ہے۔معاف کرنا جی بڑی تلخ باتیں ذہن میں آرہی ہیں ۔میں کہنے سے خود کو روک نہیں پا رہا ہوں ۔ہمارے یہان عورتیں یا لڑکیاں شام میں یا راتوں میں’ شمع محفل‘ تو بن سکتی ہیں،کوٹھے توچلاسکتی ہیں تاہم وہ ان وقتوں میں جائزمعمولات کی انجام دہی نہیں کرسکتی ہیں۔کہانی کار ’منٹو‘ کے لفظوں میں کہوں تو’’عورتیں کوٹھا توچلاسکتی ہیں ،لیکن تانگہ نہیں چلاسکتی‘‘۔
ابھی کیا ہوا کہ میری ایک عزیزہ جو اتفاق سے میری دوست بھی ہے،اس نے ’جے ای منس‘ کی تیاری کی اوردہلی میں واقع ’’فٹجی‘‘اور پھ’’وی ایم س‘‘ دونوں جگہوں کے انٹرنس بخوبی نکال لیے۔چوں کہ لڑکی محنتی تھی اس لیے عمدہ رینک کے ساتھ اسے وہاں داخلے کی اجازت بھی مل گئی۔لڑکی خوش تھی۔بل کہ اس کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔چہک کر مجھے خبر سنائی ،یارابو،مجھے ایڈمیشن مل گیا۔۔۔۔۔۔!
تاہم اس خوب صورت کہانی کا انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ لڑکی وہاں ایڈمیشن لینے سے محروم رہ گئی۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب اس نے انٹرنس کریک کرلیا تو کیا ہوا کہ اس کو داخلہ نہیں ملا!
جناب آپ کی حیرت درست ہے۔ہوا یہ کہ اس کے والدین اورعزیزواقارب اس کو دلہی بھیجنے پرکسی طوررضامند نہیں ہوئے۔گوکہ ان کی دلی تمنا ہے کہ ان کی بٹیا’’ آئی آئی ٹی دلہی‘‘ کو جوائن کرے ،لیکن ان کی اور اس لڑکی کی ہزار خواہشات پر دلہی کی غیرمحفوظ فضا حاوی ہوگئی۔
گوکہ دلہی میںحفاظتی دستے رنگ برنگی روشنیاں چھوڑتے کونے کھدرے میں دکھائی پڑجاتے ہیں لیکن افسوس کہ ان کی موجودگی بھی خواتین کے لیے کسی طور سے عافیت بخش نہیں ہوتی ہے۔مجرمانہ سرگرمیاں انجام دینے والوں کوان کا زرا بھی خوف نہیں ہوتاہے۔جرائم اورحادثات رونما ہوجاتے ہیں پھرکہیں جاکرحفاظتی دستے مستعدی کے ساتھ موقع واردات پردکھائی پڑتے ہیں۔ذہن نہ جانے کیوں ایسا سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے گویا جرائم اور قانون کے درمیان ساز سازباز ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس وقت ہمارے چچا جان کی بات یاد آرہی ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کہتا چلوں۔دوران گفتگومحترم اکثر فرماتے ہیں:’’جہاں سکون وعافیت کا ماحول ہو،جرائم نام کو بھی نہ ہو،وہاں بس ایک پولیس چوکی قائم کردیجئے، پھر دیکھئے‘‘۔
جناب عالی،لڑکیاں آج بھی خودکوغیرمحفوظ وغیرمطمئن خیال کرتی ہیں۔ ان کا اپنے تحفظ کو لے کرایسا سوچنا قطعی بے بنیاد نہیں ہے۔یہ ان کا محض خیال نہیں ہے،بل کہ ان لوگوں اوران اداروں کے وجودپرسوالیہ نشان ہے،جوآٹھوں پہرامن و امان بالخصوص ’خواتین کے تحفظات'‘کا دعوا پیش کرتے رہتے ہیں۔
عام لڑکیوں کی بات چھوڑیں صاحب،میں ان لڑکیوں کا ذکرکررہا ہوں جنہیں عام طورسے(معاف کریں) 'اوباش وآوارہ' خیال کیا جاتا ہے۔وہ خواتین جو’نائٹ آوٹ‘ کرتی ہیں۔ایسے میں عام لڑکیوں کی بات کرنا ہی فضول و بے معنی ہے۔ذہن اکثرپوچھ بیٹھتا ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں،جن سے خواتین کو خطرہ لاحق ہے۔۔۔۔۔۔؟ جواب نہ پاکرذہن کمبخت آپ ہی جواب دے بیٹھتا ہے کہ وہی ابن آدم۔۔۔۔۔۔!
اجی وہی ابن آدم جو کسی کا بھائی ہے،باپ ہے،بیٹا ہے،چچا ہے،ماموں ہے،دادا اورنانا ہے۔صد افسوس کہ جسے ایک عورت کی ہی کوکھ نے جنا ہے۔
نقطہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھرمیں رہنے والی خواتین،یعنی اپنی ماں،بہن،بیٹی،خالہ، چچی،وغیرہ کوہی عورت سمجھتے ہیں،باقیوں کوتو’’نمونہ جنس‘‘ خیال کرتے ہیں۔غالبا یہی وہ نقطہ ہے جس سے خواتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
مضمون کو باندھنے سے پہلے دو ایک باتیں اورعرض کردی جائیں:
*خواتین کا تحفظ بہرحال ہونا چاہئے لیکن صاحب سلامت،بڑی عاجزی و انکساری کے ساتھ گزارش یہ ہے کہ تحفظ کے نام پرپابندیاں عائد نہ کی جائیں۔ان عناصر کی گرفت کی جائے جن سے خواتین کو خطرہ لاحق ہے۔
*جس قدرممکن ہو،آسانیاں فراہم کی جائیں۔
*جملہ مضمون کی ایک آخری بات یہ کہ جیسے ہم اپنی گھروالیوں کو ’’شہوت یا جنس‘‘ا کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں ،عین اسی طرح ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دوسری خواتین کے ساتھ بھی کم و بیش یہی معاملہ ہو کہ وہ بھی کسی کی بہو بیٹیاں ہیں۔
رابطہ۔[email protected]/9560877701