عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی// آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے منگل کے روز دہلی کے تال کٹورا اسٹیڈیم میں’تحفظ وقف کانفرنس‘کا انعقاد کیا، جس میں نئے مجوزہ وقف قانون کے خلاف سخت احتجاج درج کرایا گیا۔ اجلاس میں مختلف مکاتب فکر کے علما، سماجی کارکنان اور کئی سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے، جن میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی، راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر منوج جھا، اور سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان دھرمیندر یادو قابل ذکر ہیں۔کانفرنس میں شریک بیشتر افراد نے اپنے بازوں پر کالی پٹیاں باندھ رکھی تھیں، جو علامتی طور پر قانون کے خلاف احتجاج کی نشانی تھی۔ مقررین نے واضح کیا کہ یہ لڑائی صرف ایک قانونی تنازعہ نہیں بلکہ وقف املاک کے تحفظ کی طویل جدوجہد ہے، جسے آئینی دائرے میں رہ کر ہی لڑا جائے گا۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ یہ قانون وقف کی حفاظت کے بجائے اسے ختم کرنے کی سازش ہے۔ ان کا کہنا تھا’’ ہماری مسجدیں وقف کے دائرے سے نکال دی جائیں گی۔ مخالفت ہمارا جمہوری حق ہے اور ہم قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی لڑائی جاری رکھیں گے‘‘۔ انہوں نے کہا’’جو لوگ آج شیروانی میں ہیں، وہ ضرورت پڑنے پر کفن بھی پہننے کو تیار ہیں۔شیعہ عالم دین مولانا کلبِ جواد نے کہا’’ کئی انگلیاں مل کر مکا بنتی ہیں اور ہمیں یہ مکا فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف استعمال کرنا ہے‘‘۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ “ہر مسجد میں شیولنگ تلاشا جا رہا ہے، آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟”ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ بی جے پی نے 16 صفحات پر مشتمل ایک بک لیٹ جاری کی، جس میں وقف املاک کے سلسلے میں کئی غلط بیانی کی گئی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا، 70 فیصد وقف زمین پر قبضہ ہو چکا ہے اور یہ قانون انہیں قانونی تحفظ دینے کے لیے لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون آر ایس ایس کے 100 سال مکمل ہونے پر انہیں تحفہ دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔آر جے ڈی کے پروفیسر منوج جھا نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’ یہ لڑائی صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ انصاف اور ظلم کے درمیان کی لڑائی ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ “خاموشی کا وقت گزر چکا ہے، اب ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان دھرمیندر یادو نے کہا کہ حکومت کو یہ برداشت نہیں ہو رہا کہ وقف کے پاس اتنی بڑی اراضی کیوں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ صرف مسلمانوں کی لڑائی نہیں، بلکہ ملک کے سیکولر طبقے کی بھی لڑائی ہے۔”کانفرنس میں سکھ برادری کے رہنما دیال سنگھ نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ سکھ اور مغل تاریخ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق “اگر مغل تاریخ مٹا دی گئی تو سکھ تاریخ بھی مٹ جائے گی۔کانفرنس کا مقصد صرف احتجاج کرنا نہیں بلکہ قانونی، سماجی اور سیاسی سطح پر وسیع اتحاد قائم کر کے اس قانون کو واپس لینے کی مہم کو مضبوط بنانا تھا۔ مقررین نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ہوشیار رہیں، کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی سے دور رہیں اور ایک منظم تحریک کے تحت اپنی بات اٹھائیں۔یہ واضح ہے کہ ‘تحفظ وقف کانفرنس’ نے وقف قانون کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو نئی توانائی بخشی ہے اور آنے والے دنوں میں اس تحریک کو ملک گیر سطح پر پھیلانے کی کوشش کی جائے گی۔