عظمیٰ نیوز سروس
بنی//ضلع کٹھوعہ کی پہاڑی تحصیل بنی کے متعدد دیہی اور دور افتادہ علاقے آج بھی موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی جیسے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں پورا ملک ڈیجیٹل انڈیا کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے دعوے کر رہا ہے، وہیں بنی کے درجنوں دیہات اب بھی نیٹ ورک کے اشاروں کو ترس رہے ہیں۔علاقے کے مکینوںبالخصوص طلباء، مریضوں اور چھوٹے کاروباری طبقے نے ناقص موبائل نیٹ ورک کو ایک ’ڈیجیٹل بحران‘ قرار دیتے ہوئے انتظامیہ سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موبائل سگنلز کی کمی سے نہ صرف عام زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ اہم مواقع، طبی سہولیات، اور تعلیمی سرگرمیوں میں بھی رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ موبائل نیٹ ورک کی غیر موجودگی کا سب سے خطرناک پہلو طبی ایمرجنسی میں سامنے آتا ہے۔ کسی حادثے یا اچانک بیماری کی صورت میں ایمبولینس بلانے یا قریبی ہسپتال سے رابطہ کرنے میں شدید دقت آتی ہے۔ کئی واقعات ایسے بھی پیش آئے ہیں جہاں رابطے کی کمی کے باعث مریضوں کو بروقت طبی امداد نہ مل سکی۔طلباء نے بتایا کہ وہ نہ تو آن لائن کلاسز میں شامل ہو پاتے ہیں، نہ ہی تعلیمی مواد ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں، اور نہ ہی امتحانات کے فارم آن لائن بھرنے کی سہولت میسر ہے۔ نتیجتاً وہ شہری علاقوں کے طلباء سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ایک طالب علم جعفر فرید نے کہاکہ ’ہمیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے کئی کلومیٹر دور پہاڑی چوٹیوں پر جانا پڑتا ہے تاکہ تھوڑا بہت نیٹ ورک مل سکے‘۔مقامی دکانداروں اور کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ آج کے دور میںیو پی آئی اور آن لائن پیمنٹ کا استعمال عام ہو چکا ہے، لیکن ان کے علاقے میں نیٹ ورک کی غیر موجودگی کی وجہ سے وہ ڈیجیٹل لین دین سے محروم ہیں۔ایک دکاندار محمد عرفان نے کہاکہ ’’اکثر صارفین پیمنٹ کے لئے گوگل پے یا فون پے استعمال کرتے ہیں، لیکن نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں نقدی کا سہارا لینا پڑتا ہے، جو ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا‘۔مکینوں نے کہا کہ آج کے دور میں موبائل کنیکٹیویٹی اور انٹرنیٹ کوئی عیاشی نہیں بلکہ ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ وہ لوگ جو صرف ایک کال کرنے کے لئے پہاڑوں پر چڑھنے پر مجبور ہیں، وہ خود کو ڈیجیٹل بھارت کا حصہ نہیں سمجھتے۔تحصیل بنی کے جو علاقے سب سے زیادہ متاثر ہیں ان میں لوانگ (بڈھیال)، سرتھل، بھرموتہ، سندرون، ستی، چنڈیار، ڈھگر، دھمان، ڈوگن وغیرہ شامل ہیں۔لوانگ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں تقریباً 10 ہزار کی آبادی مناسب نیٹ ورک سے محروم ہے۔ علاقے میں بی ایس این ایل موبائل ٹاور کی غیر موجودگی کو اس بحران کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔سماجی کارکن مدثر علی نے حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ ’ہم کوئی لگڑری نہیں مانگ رہے، ہم صرف اپنے بنیادی حقوق مانگ رہے ہیں۔ ناقص نیٹ ورک نے ہماری زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے‘۔اسی طرح مقامی نوجوان انکش ٹھاکر نے کہاکہ ’اگر فوری طور پر ٹاورز نصب نہ کئے گئے اور نیٹ ورک کو بہتر نہ بنایا گیا تو یہ مسئلہ ایک سنگین بحران بن جائے گا‘۔علاقہ مکینوں نے مقامی ایم ایل اے، ایس ڈی ایم اور اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مسئلے کا نوٹس لیں اور جلد از جلد موبائل ٹاورز کی تنصیب اور نیٹ ورک کی بہتری کے لئے اقدامات کریں۔عوام کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی ڈیجیٹل انڈیا کے نعرے کو زمینی سطح پر کامیاب دیکھنا چاہتی ہے تو بنی جیسے پسماندہ علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر ترقیاتی منصوبوں میں شامل کرنا ہوگا۔
تحصیل بنی کے دور دراز علاقوں میں ناقص موبائل نیٹ ورک سے صارفین پریشان | ڈیجیٹل بحران سے صحت، تعلیم اور کاروبار پر براہ راست اثر نیٹ ورک کی تلاش میں لوگ پہاڑوں پر جانے پر مجبور ، عوام نے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا
