جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی وقت بروقت ناجائز تجاوزات کے نام پر ایسی کارروائیاں انجام دے رہی ہے جن کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھاجا رہاہے ۔ویسے توپورے شہر میں وسیع رقبہ جات ناجائز قبضے میں ہیں ، جسکے خلاف ایک ہمہ گیر مہم شروع کرنے کی ضرورت تھی، لیکن حکام کو کارروائی کے وقت صرف چند بستیاں نظر آتی ہیں جہاں ایک مخصوص طبقہ سے وابستہ لوگ بس رہے ہیں ۔ جموں میں تو کچھ ایسی بستیاں بھی ہیں جہاں بیرون ریاست کے شہریوں نے بھی ناجائز قبضہ کرکے تعمیرات کھڑی کررکھی ہیں جو نہ صرف ریاستی آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ خود جموں والوں کیلئے بھی پریشانی کا باعث ہے لیکن ان لوگوں کے خلاف آج تک نہ ہی کسی نے آواز اٹھائی اور نہ ہی جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو بھی یہ خیال آیاکہ اس کی اراضی پر ناجائز قبضہ ہوچکاہے ۔ اس حوالے سے جموں کے نگہبان ہونے کا دعویٰ کرنے والی تنظیموں نے بھی چپ سادھ رکھی ہے اور انہیں بھی وہی نظرآرہاہے جس کو صرف فرقہ پرستی کی عینک لگاکر دیکھاجاسکتاہے ۔اپنی تازہ کارروائی میں جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے گزشتہ ہفتے سدھرا کے مہین علاقے میں بیس زیر تعمیر مکانات کو پولیس کی لگ بھگ تین سو افراد پر مشتمل نفری اور جے سی بی مشینوں کا استعمال کرکے منہدم کردیں ۔یہ تمام مکانات ایک مخصوص فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے تھے ۔ان میںسے زیادہ تر تعمیرکے آخری مرحلے پر تھے جن کو زمیں بوس کردیاگیا۔جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے غریب لوگوں کا لاکھوں روپے کا نقصان کرکے پل بھر میں اپنا جھنڈاتو گاڑھ دیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ اتھارٹی تب کہاں تھی جب لوگوں نے زمینیں خریدیں اور مکانات تعمیر کرنے شروع کئے ۔ یہی نہیں بلکہ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیوں حکام کو چند مخصوص بستیوں میں ہی ناجائز قبضہ نظر آتاہے اور ان کی آنکھیںدیگر ایسے علاقوں میں جاکر کیوں بند ہوجاتی ہیں جہاںریاستی نہیں بلکہ غیر ریاستی عناصر آباد ہیں اور تمام مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ نامساعد حالات کے دوران ریاست بھر سے بلا مذہب و ملت بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور انہوںنے جموں کو امن کی آماجگاہ جانتے ہوئے یہیں پرمعمولی زمینوں کے چھوٹے چھوٹے رقبے خرید کر چھوٹے چھوٹے مکانات تعمیر کئے ۔ انہوںنے یہیں اپنے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور خود بھی محنت مزدوری کرکے جموں میںہی رہنے لگے ۔تاہم پچھلے کچھ برسوں سے باہر سے آکر بسنے والوں میںسے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف زہر پھیلایاجارہاہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ ان کو بے دخل کیاجائے اور مکانات مسمار کردیئے جائیں ۔حالانکہ جموں کا ایک بہت بڑا حلقہ اس طرح کی فرقہ پرستی کی حمایت نہیں کرتالیکن کچھ تنظیموں نے پوری آبادی کو یرغمال بنارکھاہے اور انہی کی آواز ہر جگہ سنائی دیتی ہے ۔اگر جموں ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایمانداری کی بنیاد پر کارروائی کرے گی تو پھر اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیںہوگالیکن اگر اس کی کارروائیاں محض فرقہ پرستوںکو خو ش کرنے کیلئے ہونگی تو پھر شکوک و شبہات پیدا ہونا قدرتی امر ہے ۔حالیہ برسوں میں جموں میں زمینیں خریدنے والے تمام طبقہ جات کے لوگ تھے لیکن آج ناجائز تجاوزات کے نام پر کارروائیاں ایک ہی طبقہ کے خلاف ہورہی ہیں اور ان کی جائیداد کو ایک طرح سے تباہ و برباد کیاجارہاہے ۔ چونکہ وقفوں وقفوں سے ایسی کارروائی انجام دی جاتی ہیں جس سے نہ صرف فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والوں کو اپنی مہم آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس سے سیکولر سوچ کے حامل افراد کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی ہی ایک کارروائی کے دوران پچھلے سال سرور علاقے میں ایک گوجر نوجوان کی ہلاکت بھی ہوگئی تھی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کا مذہب یا طبقہ دیکھ کر یہ کارروائیاں نہ کی جائیں کیونکہ اس سے آپسی بھائی چارے کو زک پہنچے گی جو ریاست و کشمیر کیلئے نقصاندہ ہے ۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ اراضی پہ ناجائز قبضہ کے لئے وہ لینڈ مافیا بھی ذمہ دار ہے، جو منظم طریقے سے سارے جموں میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے اور جنکی کامیاب سرگرمیوں سے یہ بات مترشح ہے کہ انہیں نہ صرف سرکاری اداروں کی سرپرستی حاصل رہتی ہے بلکہ بھرپور تعائون کی بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیا وجہ ہے کہ اس منظم مافیا پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ ایک اہم سوال ہے جسکا جواب حکومت کو دینا چاہئے ۔