سولہ برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد سپریم کورٹ نے سنیچر کےر وز علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے سکالر گلزار احمدوانی، جو سال 2010میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین میںدھماکہ کرنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ دھماکہ 15اگست کے موقع پر کیا گیا تھا جس میں دس افراد کی جانیں چلی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جے ایس کہیر سنگھ اور جسٹس ڈی ایس وائی چندرا چوڑ نے اس بنیاد پر وانی کی درخواست ضمانت منظور کی کیونکہ اس کےخلاف درج کئے گئے گیارہ کیسوں میں سے وہ دس معاملوں میں پہلے ہی بری قرار دیئے گئے ہیں وانی کو جس وقت 30جولائی 2001کو نئی دہلی سے گرفتار کیا گیا تھا وہ اُس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ اگر چہ یکم نومبر کو وہ جیل سے رہا ہوگا مگر اُسکی زندگی تباہ ہو چکی ہے۔ گرفتاری کے وقت اُس کی عمر28سال تھی اورآج وہ43برس کا ہے۔ لیکن یہ تنہا وانی کی کہانی نہیں ہے بلکہ متعدد نوجوانوں کو اسی طرح بے بنیاد الزامات کی پاداش میں برسہا برس تک قید خانوں میں رکھا گیا اور انہیں عدالت عظمیٰ کی طرف سے بری کئے جانے سے قبل اپنی زندگی کے بہترین برس جیلوں میں گزارنے پڑے۔ فروری کے مہینے میں وادی کے دو نوجوانوں محمد رفیق شاہ اور محمد حسین فاضلی کو دہلی کی عدالت نے بری کر دیا اور عدالت نے اپنے فیصلے میں ان کےخلاف پیش کئےگئے ثبوت و شواہد کو ساختہ اور موہوم قرار دیا تھا۔ ان نوجوانوں کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے 2005میں دیوالی سے قبل نئی دہلی میں ہوئے دھماکے ، جن میں67افراد ہلاک ہوئے تھے، کرنے کے الزام میں گرفتا رکیا تھا۔اس سے پہلے جنگلات منڈی اسلام آباد کے انجینئر فاروق خان نے19برس جیل میں گزارے، جس کے دوران14سال تک وہ تہاڑ جیل میں رہا ہے۔ موصوف 1996میں سرینگر سے اننت ناگ سفر کرتے ہوئےگرفتار کئے جانے کے وقت پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میکنیکل ڈیویژن میں جونیئر انجینئر تھا۔ ایسے ہی طرز عمل کے مطابق مشتاق احمد وانی نامی ایک پولیس اہلکار کو بھی سات برس تک قید میں رکھا گیا ۔ اس طرح بے بنیاد کیسوں میں پھنسائے جانے کی وجہ سے نوجوانوں زندگیاں برباد ہو گئیں اور انہیں نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے تن تنہا چھوڑ دیا گیا بلکہ ان کی درد بھری کہانیوں کو میڈیا کی جانب سے مناسب پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ اس طرح اُن پولیس اہلکاروںکو جواب دہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی جنہوں نے ان نوجوانوں کو بے بنیاد کیسوں میں پھنسایا ۔ گلزار احمد وانی کا معاملہ اس بات کا واضح اعلان ہے کہ تشدد کے واقعات کی تفتیش و تحقیقات کے دوران مجرم کی نشاندہی کرنے میں کس طرح حقائق سے زیادہ تعصبات تحقیقاتی عملے کے رگ وپے پر سوار ہوتا ہے۔ نہ صرف کشمیر بلکہ ہندوستان بھر میں ایک مخصوص فرقہ کے خلاف سینکڑوں ایسے کیس نہ صرف سیکورٹی اداروں کے تفتیشی عملہ کی جواب دہی یقینی بنانے بلکہ ملک بھر میں پولیس کے طرز عمل میں اصلاح کرنے کے متقاضی ہیں۔