آج کل سیاست دان دوغلے پن اور تاریخ کی ناک کاٹنے میں ہاتھ کی صفائیاں دکھانے میں شیر ہورہے ہیں ۔ کچھ دن قبل مجھے عوامی نیشنل کا نفرنس اخبارات میں اشتہار دیکھنے کو ملا جس میں پارٹی نے دفعہ ۳۵ ؍اے کی وکالت ہے لیکن ایک بات تاریخ کشمیر کے کسی بھی طالب علم کے گلے اترنے والی نہیں کہ انڈیا کے ساتھ الحاق مہاراجہ ہری سنگھ نے کیا نہ کہ شیخ محمد عبداللہ نے۔ تکنیکی طور پر یہ کہنا دُرست ہوسکتاہے کہ شیخ صاحب نے بذات خود الحاق نہ کیا مگر اٹل تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اگر شیخ صاحب مہاراجہ کا قدم قدم پر ساتھ نہ دیتے تو مہاراجہ کا الحاق ایک ایسی دستاویز مانی جاتی جو تمباکو کی پڑیاں بنانے کے کام بھی نہ آتا ۔ شیخ صاحب نے ہمیشہ اپنے سیاسی مخالفین کو سختی سے دباکر اپنا دبدبہ چلانے کے لئے قوت ِبازو کے استعمال سے کبھی بھی گریز نہ کیا۔اس لئے کون مائی کا لال ان کے سامنے سر اٹھاکر بولنے کی جرأت کر تا اور جو ایسی ہمت وغیرت کا مظاہرہ کرتا،اُس کی ہڈی پسلی ایک کردی جاتی، جیل اس کا نانہال بن جاتا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ معروف پنڈت لیڈر پنڈت پریم ناتھ بزاز کو اسی غلطی کی سزا گولی مار کر دی گئی، مہاراجہ کے آخری کشمیری وزیراعظم رام چند کاک کو اسی لئے ناکردہ گناہوں کی سز ا دی گئی، میرواعظ مولوی محمد یوسف شاہ جیسی قابل احترام مذہبی وسیاسی شخصیت کا ناطقہ بند کر نے کا گھناؤنا کھیل اسی وجہ سے کھیلا گیا۔ سچ مچ مہاراجہ بھی الحاق جیسے اہم معاملے پر اس وقت بلا سوچے سمجھے کوئی فیصلہ نہ لیتا جب وہ قبائلی حملہ کے نفسیاتی اثرات سے ابھی ذہنی طور آزاد نہ ہوا تھا مگر اس نے شیخ صاحب کی ہاں دیکھ لی تو چپ چاپ کرشنا مینن کے ہاتھ میں اپنے دستخط سے الحاق نامہ سونپ دیا۔ حکومت ہند کے گورنر جنرل نے اس پر اسی وقت اطمینان جتایا جب مہاراجہ نے شیخ صاحب کو ریاست کا ناظم اعلیٰ مقرر کر کے ساری ا نتظامی ذمہ داریاں اس عوامی لیڈر کے سر ڈال دیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ شیخ صاحب نے ا لحاق نہ کیا ، تاریخ کے ساتھ ایک بہت بڑی انانصافی ہے ۔ حق یہ ہے کہ شیخ صاحب نے مہاراجہ کے الحاق کو من و عن قبول کیا ،اس کے تن مردہ میں روح ڈال دی ، اسے ایک عوامی اعتباریت بخش دی۔ یہ الگ بات ہے کہ ۵۳ء میں جب نہرو نے شیخ صاحب کو اٹھارہ برس کے صدر ریاست ڈاکٹر کرن سے ڈسمس کروا کے جیل بھر دیا تو انہوں نے الحاق نامنظور کا نعرہ دے کر بائیس سال تک رائے شماری کی تحریک چلائی لیکن جونہی سقوطہ ڈھاکہ ہو اتو وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے اکارڈ کے راستے اقتدار سنبھال کر الحا ق پر دوبارہ نہ صرف مہر تصدیق ثبت کی بلکہ ریاست میں ایمرجنسی کے نفاذ، لینڈ گرانٹس بل اور پبلک سیفٹی ایکٹ کو معرض ِ وجود میں لاکر ریاست کی اندرونی خود مختاری کو دریا بر کر دیا۔ اس لئے براہِ کرم تاریخ کی تلخ یا میٹھی باتوں کو قبولنے میں کوئی باک نہیں ہونی چاہیے ۔ خاص کر قوم کے غم میں ڈنر کھانے والے لیڈروں سے استدعا ہے کہ کشمیریوں کا ’’الہ وانگن ‘‘ سمجھنا چھوڑ دیجئے۔ داستان ِ ماضی یہ ہے کہ مسلم کانفرنس مظلوم وبے بس مسلمانوں کے خون سے سینچی ہوئی تحریک تھی جسے شیخ صاحب نے نیشنل کانفرنس کا چولہ پہنایا ۔ اس سے بہتر یہ تھا کہ وہ کشمیر میں اپنے نظریاتی مرشد انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں لاتے جیسا کہ اکارڈ کے وقت اندرا گاندھی نے شیخ کو مشورہ بھی دیا تھا۔ این سی نے جب بھی راستے بد لے تویہ تبدیلی ٔمنزل تھی ۔ آج یہی تاریخ دہراتے ہوئے پی ڈی پی زخموں پر مرہم ، گولی نہیں بولی ، باعزت امن ، سیلف رول جیسی باتوں کو بھول کر بھاجپا کی کاسہ لیسی کر رہی ہے۔