نور شاہ
ساس کی بہو سے ناراضگی صرف اس وجہ سے تھی کہ شادی کے چار سال بعد بھی وہ خاندانی وارث کو جنم نہ دے سکی تھی۔ بیوی کو بھی اس بات کا بھر پور احساس تھا کہ دوا، دعا اور تعویذ کی مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی جب اس کی اُمید بھر نہ آئی تو اس نے خاموشی اختیار کی اور ساس کے طعنے سننے کی عادت کو اپنی زندگی کا ایک حصہ بنالیا۔ حاجی نثار علی اپنی وفات کے بعد اپنی بیگم کے لئے کافی جائیدادیں اور اثاثے چھوڑ گئے تھے۔ زمین ، زراعت ، زرزیور کے علاوہ ایک بڑا سا حویلی نما مکان بھی جو فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ مانا جاتا تھا۔ اتنے بڑے مکان میں رہنے والوں کی تعداد بہت قلیل تھی ۔ ۔ بیگم نثار علی ، بیٹا طارق علی اور بہو صادقہ طارق، گھر کو سنبھالنے کے لئے ایک نوکرانی سارہ۔ طارق علی کو زمین زراعت میں کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ بیگم صاحبہ خود ہی دیکھ بھال کرتی آرہی تھیں منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی ۔ طارق علی نے اپنے لئے ملازمت کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ وہ ایک نجی کمپنی میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز تھا۔ اپنی بیوی صادقہ کو بہت چاہتا تھا لیکن باپ بننے کی تمنا اس کی سوچوں ، اُس کی نس نس میں ایک نشتر بن کر چُبھ رہی تھی۔ جب کبھی وہ تنہائی میں اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا ، اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتا تو ماں کی آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی ۔ ۔ ۔
’’مکان اور گھر میں بڑا فرق ہوتا ہے بیٹا۔ مکان تب ہی گھر بنتا ہے جب اُس میں رہنے کا احساس ہو اور یہ احساس تب ہی جاگتا ہے جب بچوں کی آوازیں کانوں میں جینے کا احساس جگاتی ہیں۔ جب اُن کی مسکراہٹوں سے کونپلیں پھوٹ پڑتی ہیں۔‘‘
اور یہی احساس لئے ماں کے اصرار پر اس نے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ لینے کے بعد طارق علی اور صادقہ کی نزدیکیاں دوریوں میں تبدیل ہونے لگیں ۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے جیسے وہ ایک دوسرے کے لئے جی نہیں رہے تھے، ایک ہی راستے پر چلتے چلتے اُن کی منزلیں بدل چکی تھیں ۔ دل کی دولت میں ایک شگاف پیدا ہو گیا تھا۔
اور پھر صادقہ نے طلاق لے کر یہ سوچتے ہوئے اپنے والدین کے گھر میں قدم رکھے کہ زندگی جن سے وفا نہیں کرتی وہ موت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں !
اور پھر موسم بدلتے رہے، سرما، گرما، بہار خزاں ۔ ۔ !
صادقہ کی جگہ عارفہ نے لے لی ۔ وہ اُس مکان میں آگئی جوفن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ مانا جاتا تھا۔ وہ اب اس حویلی نما مکان کو گھر کی شکل و صورت دینے میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ ادھر والدین کے بے پناہ دباؤ میں آکر صادقہ نے بھی دوسری شادی کرنے کے لئے ہاں کردی!
موسم بدلتے رہے!
اور ایک دن نئے موسم کے آغاز میں صادقہ کو اچانک بابا نرسنگ ہوم میں بیگم نثار علی نظر آئیں۔ دونوں کی نظر میں ٹکرائیں ۔ صادقہ کی گود
میں ایک بچہ تھا اور بیگم نثارعلی کے ساتھ کوئی خاتون ۔ ۔ صادقہ کے لئے ایک اجنبی چہرہ ؟
’’کیسی ہیں آپ ۔ ۔ ؟ ’’۔ ۔ صادقہ نے پوچھا۔
’’یہ ۔ ۔ یہ کون ہے تمہاری گود میں ؟ ۔ ۔‘‘ بیگم صاحبہ نے حیران نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ ۔ ۔ یہ میرا بیٹا ہے، گوہر ۔ ۔ گو ہر فشاں ۔ ایک دو روز سے اس کی طبیعت ناساز ہے۔ ڈاکٹر سے ملنے آئی ہوں۔ اور یہ ۔یہ ۔ ۔ یہ میری بہو ہے، بیگم طارق علی۔‘‘
’’لگتا ہے کہ آپ یہاں اپنی بہو کوڈاکٹری مشورہ کے لئے لائی ہیں ۔ آپ خاموش کیوں ہیں بیگم نثار علی صاحبہ‘‘
’’چلو بہو، دیر ہو رہی ہے ۔ ۔‘‘ بیگم نثار علی نے صادقہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بہو سے کہا۔
’’میری بھی ایک بات سنتے جائیے بیگم صاحبہ!۔‘‘
’’ا بھی بہت سارے ٹیسٹ کروانے ہیں ۔ شام کو پھر ڈاکٹر سے ملنا ہے۔‘‘
’’کیا کہنا چاہتی ہو؟۔‘‘
’’میری ایک بات یاد رکھئے گا۔ آپ کا مکان ۔ ۔ آپ کا حویلی نما مکان کبھی گھر نہیں بن سکتا۔‘‘
’’کیوں نہیں بن سکتا۔‘‘
’’آپ شاید بھول چکی ہیں کہ تالی بجانے کے لئے ہمیشہ دو ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بھلا آپ کی بہوا ایک ہاتھ سے تالی کیسے بجا سکتی ہے۔ آپ کا بیٹا تو تالی بجانے کا اہل نہیں ۔ ۔ ؟ میری بات سمجھ رہی ہیں نا آپ ۔ ۔ بیگم ثار علی صاحبہ – -!!‘‘
���
ایل ڈی کالونی حیدرپورہ، سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛8899237012, 9906771363