سمت بھارگو
راجوری//پیر پنچال کے بالائی علاقوں میں تازہ برفباری کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جس سے راجوری کے بدھل، ریاسی کے چسانہ اور پونچھ کے سرنکوٹ میں خانہ بدوش خاندانوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان علاقوں میں چار سے پانچ انچ تک برف پڑی ہے، جس کے سبب گوجر، بکرول اور پہاڑی قبائل سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی موسمی نقل مکانی اور معمولات زندگی بری طرح متاثر ہو گئے ہیں۔یہ خانہ بدوش خاندان ہر سال موسم گرما کے دوران اپنے مویشیوں کے ہمراہ پہاڑی علاقوں کی جانب کوچ کرتے ہیں تاکہ جانوروں کو بہتر درجہ حرارت میسر آ سکے، جب کہ سردیوں میں وہ میدانی علاقوں میں منتقل ہو جاتے ہیں جہاں درجہ حرارت نسبتاً معتدل ہوتا ہے تاہم، اس دفعہ موسم کی اچانک تبدیلی نے ان کے اس معمول کو درہم برہم کر دیا ہے۔بدھل سے تعلق رکھنے والے محمد شفیق بکرول نے بتایا کہ برفباری کے سبب درجہ حرارت میں نمایاں کمی آئی ہے، جس سے ان کے مویشیوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’یہ جانور ہماری روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہیں۔ اگر موسم مزید خراب ہوا تو ہماری بقا پر سوالیہ نشان لگ جائے گا‘‘۔قبائلی کارکن انیس احمد نے کہا کہ خانہ بدوش خاندان شدید موسمی حالات سے دوچار ہیں اور حکومت کی فوری مدد درکار ہے۔ انہوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ ان متاثرہ خاندانوں کیلئے ہنگامی بنیادوں پر امدادی کیمپ قائم کئے جائیں اور ان کے مال مویشیوں کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔مقامی ذرائع کے مطابق پچھلے ایک ہفتے کے دوران مختلف علاقوں میں خانہ بدوش خاندانوں کے ایک ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، جس سے ان خاندانوں پر بھاری مالی بوجھ پڑا ہے۔جمعہ کے روز، راجوری کے کالا کوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک خانہ بدوش خاندان کے سینکڑوں بکریاں اور بھیڑیں چسانہ کے آڑنگ ڈھوک میں اس وقت ہلاک ہو گئیں جب ان کا عارضی مویشی خانہ برفباری کے سبب منہدم ہو گیا۔ تین دن قبل بدھل کے بالائی علاقوں میں بھی مختلف خانہ بدوش خاندانوں کے سینکڑوں مویشی شدید سردی اور برفباری کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر برفباری کا سلسلہ جاری رہا تو صورت حال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔ متاثرہ خاندان نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنے مویشیوں کو بھی بچانے کے لئے سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ فوری طور پر گرم کپڑوں، خیموں، جانوروں کے لئے چارہ اور طبی سہولیات کی فراہمی نہ ہوئی تو ایک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔حکام کی جانب سے فی الوقت کوئی جامع منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے، تاہم مقامی رضا کار اور سماجی تنظیمیں محدود پیمانے پر امداد فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ضلعی انتظامیہ فوری کارروائی کرے تاکہ مزید جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔