موسم سرما کی دوسری برفباری نے عوام الناس کو جسمانی اور روحانی راحت عطا کی ہے اور یہ اُمید پیدا کی ہے کہ طویل خشک سالی کی وجہ سے ہوئے نقصانات کا کسی حد تک ازالہ ہو جائے گا۔مسلسل خشک موسم کے بہ سبب وادی میں مختلف اقسام کی بیماریوں نے نہ صرف عام لوگوں کو بُری طرح متاثر کیا تھا بلکہ خشک سردی سے مخصوص سوائن فلو کے انفکیشن کی زد میں آکر کئی افراد لقمہ اجل بھی بن گئے۔ پہاڑوں پر برف اور زیر زمین آبی ذخائر کی سطح تواتر کے ساتھ کم ہونے کی وجہ سے کسانوں کے لئے آئندہ فصلی موسم کے حوالے سے زبردست خدشات پیدا ہوئے تھے۔یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ دن میں دھوپ اور درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے وادی کے کئی علاقوں میں بادام کے شگوفے نکلنا شروع ہوگئے تھے، جواب ظاہر ہے کہ برفباری کی وجہ سے سے تباہ ہونگے اور اس طرح یقینی طور پر رواں برس کی بادام کی فصل بُری طرح متاثر ہو گی۔ اگر موسم کا یہی سلسلہ جاری رہتا تو دیگر پھلوں کی پیدوارکو بھی ایسےہی خطرت لاحق تھے، جو بآلاخر ریاست کی معیشت پر منفی اثرات ثبت کرنے کا سبب بن سکتا تھا۔ ایسے حالات میں تازہ برفباری اور بارش نے ایک نئی اُمید پیدا کی ہے اور بجلی کی پیداوار اور پانی کی سپلائی میں بہتری آنے کی توقع بھی پیدا ہوئی ہے۔ عام لوگوں کو موسم سرما کے دوران بجلی اور پینے کے پانی کی قلت سے سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ وادی کشمیر میں شاید ہی کوئی شخص ہوگا جس کی زندگی بجلی کی ناقص سپلائی اور بے ہنگم قسم کے کٹوتی شیڈول سے بُری طرح متاثر نہ ہوئی ہو۔اگر چہ بجلی کی بے ہنگم سپلائی کے خلاف آئے روز واویلا ہوتے رہے ہیں اور اسمبلی میںبھی اس پر ہنگامہ آرائی ہوئی لیکن حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہوتی اور بار با رندی نالوں اور دریائوں میںپانی کی سطح کم ہونے کے بہ سبب بجلی کی پیداوار متاثر ہونے اور بجلی کے ناجائز استعمال کو جواز بنا کر اپنے کاندھوں سے ذمہ داریوں کا بوجھ اُتارنے کو ہی اپنا فرض سمجھنے لگی ہے۔ اب چونکہ برفباری اور بارش کی وجہ سے ند ی نالوں اور دریائوں میں پانی کی سپلائی میں یقینی طور پر بہتری آئے گی۔ جس سے بجلی کی پیدوار پر بھی مثبت اثر ثبت ہوسکتا ہے اور اگر اس کے باوجود بھی بجلی کی پیدوار اور سپلائی میں خلیج قائم رہے تو حکومت کواضافی بجلی خریدنے کیلئے خصوصی انتظامات کرنے چاہیں ، تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ وزیر بجلی چونکہ کشمیر سے تعلق نہیں رکھتے، لہٰذا انہیں کشمیری عوام کی مشکلات کی پرواہ نہیں ہے۔ برفباری سے کسانوں کے مرجھا ہوئے چہرے بھی کھل اُٹھے ہیں ،کیونکہ آئیندہ فصلی موسم میں اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے طبقے کو نہایت ہی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔ خشک سالی کا سلسلہ ٹوٹ جانے سے آلودہ ہوائیں بھی صاف ہونے کی اُمید پیدا ہوئی ہے اور ظاہر بات ہے کہ صحت عامہ کے حوالے سے لوگوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی۔ کل تک ہم جن حالات سے گزر رہے تھے وہ ہمارے لئے سبق آموزہونے چاہیں، کیونکہ سماج من حیث المجموع ماحول کو آلودہ کرنے میں جو رول ادا کر رہا ہے اس پر ذرا سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ خشک سالی کی وجہ سے جنگلات میں آگ کی جو مسلسل وارداتیں پیش آئی ہیں وہ ہمارے لئے چشم کشا ہونی چاہیں، ایسی صورتحال حالات موسمی حالات میں تبدیلی کا شاخسانہ ہوتے ہیں ، جس کےلئے ماحول کی آلودگی ذمہ دار ہوتی ہے اور ماحولیات کو آلودہ کرنے میں کلیدی رول انسان کا ہی ہوتا ہے۔ آج ہم جس عنوان سے اس سمت میں لاپرواہی کے مرتکب ہو رہے ہیںو ہ آنے والے ایا م میں نہایت ہی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پلاسٹک و پالی تھین اور اسی قبیل کی اشیاء کا غیر ضروری اور بے تحاشا استعمال کرکے پانی کے ذخائر کو ٓالودہ کرنا، آلودگی پھیلانے والے ذرائع ، جس میں ٹرانسپورٹ انڈسٹری کو اولیت حاصل ہے، کو سرکاری پالیسیوں کے ذریعہ فروغ دینا، ایسے معاملات ہیں جن پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے قدرتی وسائل کی حفاظت اور نگہداشت کے لئے اپنے تمام تر اختیارات کو استعمال میں لانا چاہئے نیز عام لوگوں کو درپیش مسائل کو سیاست کی عینک سے دیکھنے کے بجائے انہیں ترجیحات کی بنیاد پر حل کرنے کی کوششیں کرنی چاہئے۔فی الوقت موجودہ حالات میں عام لوگوں کی طرف سے یہ امید کی جارہی ہے کہ بجلی اور پانی کی سپلائی کے حوالے سے انہیں درپیش پریشانیوں کا مکمل ازالہ نہیں تو کم ا ز کم اس میں خاطر خواہ تخفیف ضرور ہونی چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ عوام الناس کو قدرت کی انمول نعمتوں کی قدر کرکے انکی حفاظت کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہئے۔