بلا شبہ جب تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائےتو ایسے بے شمار ابواب ملتے ہیں،جنہیں پڑھنے سے یہ باتیں عیاں و بیاں ہوجاتی ہیںکہ مختلف اوقات میںجن قوموں یا معاشروںنے دوسرے قوموں یا معاشروں کے سہارے خود کو کھڑے رہنے کی کوششیںکیں ،وہ قومیں اور معاشرے نہ تو عزت و وقار کے ساتھ زندگی گذار سکیں ، نہ اپنی ٹانگوں پر کھڑی رہ سکیںاور نہ ہی زیادہ دیر تک زندہ رہ سکیں۔
اگرچہ وقتی طور پر دوسروں کے سہارے جینے والی قومیں، اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی رہیں، لیکن اصل میں اُن قوموں کی اپنی بنیادیں کھوکھلی ہوتی رہ گئیںاور پھرجب کبھی اُن پر کوئی بحرانی صورت حال آن پڑیںتو اُن کے سہارے ریت کی دیوار بن گئےاور اُن کے تکیے ہَوا ہوگئے،جس کے نتیجے میں انہیں ہر سطح پر ذلت ،غلامی اور شکست کے سِوا کچھ حاصل نہیں ہوسکا ۔
بے شک وہ قومیں جو اپنے دفاع کے لئے دوسروں پر انحصار کرتی ہیں،وہ دراصل اپنی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کرتی ہیں اور ایک ایسا جوا کھیلتی ہیں،جس میں اُنہیں نہ صرف بڑے پیمانے پر مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے بلکہ اس جوے میں اُن کے اعتماد، خودداری اور قومی وقار بھی داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ کھیل صدیوں سے جاری ہیں اور آج بھی کئی قومیں اس فریب کے جال میں پھنسی ہوئی ہیں۔
خصوصاً اُمت مسلمہ کو آج تک یہ فریب سمجھ میں نہیں آئے ہیںاور وہ مسلسل اس فریب میں اپنی حقیقی پہچان تک کھو بیٹھے ہیں۔ظاہر ہے کہ دوسروں کے سہارے کھڑے رہنے کی اندھی تقلید اور بیرونی طاقتوں پر بھروسہ دراصل ایک ایسی نادانی ہے ،جس کے نتائج ہر سطح پر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔چنانچہ جب ہم کئی مسلم ممالک پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات بخوبی نظر آتی ہے کہ اُن کی نگاہیں محض سرمایے اور معاہدوں پر ہی لگی رہتی ہیں،وہ یہ گمان کر بیٹھےہیں کہ ڈالر ،ریال اور معاہدےہی اُن کی سلامتی کے ضامن بن سکتے ہیں،لیکن آج کل جو صورت حال منظر ِ عام پر آرہی ہے ،وہ اس کے بالکل اسکے برعکس ثابت ہورہی ہے۔ حالانکہ اصل رشتہ سرمایہ یا لین دین کا نہیں بلکہ ایمان اور عقیدے کا ہوتا ہے۔ طاقتور قومیں اِنہی رشتوں کو دوام بخشتی ہیں جو اُن کے دل و دماغ سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، محض تجارتی سودے سے نہیں۔لیکن مسلم ممالک کی بدقسمتی یہی ہے کہ انہوںنے اپنی قوت کا سر چشمہ اپنی فکری و تہذیبی وحدت کے بجائے دوسروں کی دوستیوں اور ان کے وعدوں میں تلاش کیاہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ نہ سرمایہ اُن کے کام آتا ہے اور نہ ہی معاہدے۔لہٰذا امت مسلمہ کے لئے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور طاقت ور مغرب کی چمکدار، زہریلی حقیقت کو پہچانیں۔ وہ اسلحہ جو دوستی کے وعدوں کے ساتھ بیچا جاتا ہے، اصل میں غلامی کی زنجیر ہے۔ وہ معاہدے جو حمایت کے نام پر کئے جاتے ہیں، درحقیقت محتاجی کے معاہدے ہیں اور وہ سرمایہ جو وہ اُنہیں تحفظ کی قیمت سمجھ کر ادا کرتے ہیں، اکثر اپنی ہی سلامتی کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔مسلم ممالک اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ دنیا میں دیر پا اتحاد اور پائیدار حمایت صرف اس بنیاد پر ممکن ہے جو نظریے اور تہذیبی ہم آہنگی سے جنم لیتی ہو،نہ کہ عارضی مفادات اور وقتی معاہدوں سے۔ظاہر ہے کہ اُمت ِ مسلمہ کی نجات کا راستہ دوسروں کی اسلحہ فیکٹریوں اور دوسروں کے وعدوں میں نہیں بلکہ اپنی اصل طاقت کو پہچاننے میں ہے۔
یہ طاقت امت کے وسائل میں بھی ہے اور ایمان میں بھی ہے،خصوصاً اُمت کی وحدت میں ہے۔اگر اُمت قرآن و سنّت کی روشنی میں اپنے قدم جما لیں، اپنی علمی و فکری بنیادوں کو مضبوط کریں اور اپنی صفوں کو جوڑ لیں تو کوئی طاقت اُسے غلام نہیں بنا سکتی ۔لہٰذا اگرآج بھی اُس نے اپنی راہ دُرست نہ کی ،اپنی اصل بنیاد کو نہ پہچانا تو غلامی اُس کا مقدر بن جائے گی۔وقت کا تقاضا ہے کہ کہ مسلم ممالک ایک بار پھر اپنی فکری خود مختاری ،اپنی ایمانی حرارت اوراپنے باہمی اتحاد کو اپنا سرمایہ بنائیں۔یہی وہ اصل سبق ہے جو قطر کے واقعے نے امت ِ مسلمہ کے سامنے رکھا ہے،ایک ایسا سبق جو اگر آج اُمت نے سیکھ لیا تو کل تاریخ اُمت ِمسلمہ کو عزت و سر بلندی کے ساتھ یاد کرے گی۔