یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ہم نے آج تک ہٹلر کو کبھی برا کہا نہ لکھا۔ہم نے ہٹلر کا ہمیشہ دفاع کیا۔ہٹلر کوئی صاحب ایمان نہ تھا کہ ہم اس میں مومنوں کی صفات ڈھونڈیں،وہ ایک آمریت پسند حکمران تھا اور بوجوہ اسے Totaliterian حکومت چاہئے تھی اور آج ’’صاحب ایمان‘‘ عرب حکمران بھی ایسے ہی حکومت چلا رہے ہیں،پھر یہ صحیح اور وہ غلط کیوں؟ہٹلر سے ہماری ہمدردی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جرمنی کا ڈکٹیٹر حکمراں ہونے کے باوجود تاریخ میں وہ انہی لوگوں کا ستایا ہوا ہے جن کے ستائے ہوئے نہ صرف ہم ہیں بلکہ اب تو ساری دنیا ہی ان کی ڈسی ہوئی ہے۔گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم من حیث القوم اس کے لئے روتے نہیں تھکتے کہ یہودی ہر طرح سے مسلمانوں کو تہ تیغ اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ان کا میڈیا جس پر وہ پوری طرح قابض ہیں، مسلمانوں کی غلط تصویر پیش کر رہا ہے۔ہمارے علماء، رہنما ، دانشور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہودی یا صہیونی اس دنیا سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینا چاہتے ہیںاور اس کے لئے وہ ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کر رہے ہیں ۔ کیا ایسا وہ صرف ہمارے ساتھ کر رہے ہیں؟کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہی سب کچھ ہٹلر کے ساتھ بھی ہوا ہو؟حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے صحافی ہمارے لکھاری اور دانشور ہی نہیں ملکوں کے سربراہ تک یہ کہتے ہیں کہ جرمنی مین ۶۰؍ لاکھ یہودیوں کا ہولوکاسٹ ایک افسانہ ہے۔حقیقت سے اس کا دور دور تک تعلق نہیں،باقاعدہ اعداد و شمار کی مدد سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے وجہ یہ ہے کہ یہودی عیسائی دنیا کو مجرم ضمیر بنا کر ان سے اپنے ناجائز مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے،جس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ان تمام حقائق کے باوجود ہمارے صاحب علم اور صاحب مطالعہ حضرات جب بھی قلم اٹھاتے ہیں ،ہمارے دشمنوں کے اُگلے ہوئے نوالے ہی چباتے ہیں۔ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ خود ہمارے دماغوں پر کس طرح قبضہ جما لیا گیا ہے۔
ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ فی زماننا ہمارے نزدیک سب زیادہ مجبور و بے بس اور مظلوم قوم امریکی ہیں۔یہ سب مسائل ہمارے ساتھ بھی ہیں مگر ہم کمزور قوم ہیں۔امریکی دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور قوم ہیںمگر خود اپنے گھر مین غلامی زندگی گزار رہے ہیں ۔۱۶؍ دسمبر کے سہ روزہ ’’دعوت ‘‘دہلی کایہ اقتباس پڑھئے اور امریکیوں کے Frustration کا اندازہ لگائیے۔’’امریکہ آخر صہیونی اسٹیٹ کی سرپرستی اس قدر کیوں کر رہا ہے کہ اسے اپنے وقار کا بھی خیال نہیں رہا ؟عمومی جواب اس کا یہ ہے کہ امریکی ڈیپ اسٹیٹ پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔امریکہ کا کوئی سنٹرل بنک نہیں ہے۔اس کا کاروبار یہودی برادران کے بنک کے توسط سے چلتا ہے ۔ بیوروکریسی مکمل طور سے یہودیوں کے تسلط میں ہے ۔خارجہ پالیسی یہودی کنٹرول کرتے ہیں۔کوئی چھوٹا بڑا مسئلہ یہودیوں کی مرضی کے بغیر حل نہیں ہوتا۔صدر امریکہ پوری طرح یہودیوں کے سرکاری اور غیر سرکاری مشیروں کے سامنے سر نگوں رہتا ہے یعنی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کی رگِ جاں یہودیوں کے پنجے میں ہے۔اس صورت میں کون ہے جو یہودی لابی کو ناراض کرکے کوئی فیصلہ کرے گا۔حکمران ریپبلکن پارٹی تو یہودی حکم کے بغیر کچھ کر ہی نہیں سکتی۔اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی بھی اسے بہت زیادہ ناراض نہیں کر سکتی۔۔۔لیکن اب اس تازہ مسئلے(یروشلم)میں دیکھنا ہے کہ پوری عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرکے امریکی انتظامیہ کس طرح کام کرتی ہے ۔یہودی لابی کو منانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں ۔امریکی یہودی اس پوزیشن میں ہیں کہ کسی بھی وقت اسٹیٹ میں کوئی بڑا بحران پیدا کر سکتے ہیں۔‘‘
اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد ہٹلر کی آدھی ادھوری سوانح Mein Kampf بھی پڑھ لیجئے۔کیا ایسے ہی حالات اس وقت جرمنی میں نہیں تھے؟ہٹلر بچہ تھا اور یہودیوں کے ہاتھوں اپنے ملک کی دُرگت بنتے دیکھ رہا تھا۔ویسے تو دنیا کے بڑے بڑے صحافی یہ لکھ چکے ہیں کہ دونوں جنگ عظیم یہودیوں کی کارستانی ہے مگر چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کا ذمے دار ہٹلر تھا مگر پہلی جنگ عظیم کا کیا؟اس وقت تو وہ بچہ تھا ۔ دراصل پہل جنگ عظیم اور جرمنی میں یہودیوں کی ریشہ دوانیوں نے ہی ہٹلر کو ہٹلر بنا یا تھا۔کیا آج امریکہ دنیا پر ہٹلر سے زیادہ ظلم نہیں کر رہا ہے۔Weapons o f Mass Destruction کا ناٹک کرنے والے امریکہ نے ہی تو سب سے پہلے Weapons of Mass Destruction نہ صرف بنائے تھے بلکہ چلائے بھی تھے ۔حیرت ہے کہ دنیا کی چھ ارب آبادی میں سے کوئی نہیں سوچتا کہ بڑا گناہ گار ہٹلر تھا یا امریکہ کا وہ صدر جس نے جاپان پر اس وقت ایٹم بم گرانے کا حکم دیا تھا جب جاپان ہتھیار ڈال چکا تھا ۔ایسا کیوں ہے کہ ہٹلر تو بدنام ہو امگر امریکہ کے اس صدر کا نام شریفوں کی فہرست میں ہے ؟کوئی اس کا نام تک نہیں جانتا؟ہمیں دوسروں سے اتنی شکایت نہیں جتنی ’’مومنوں ‘‘ سے ہے۔اوپر کا اقتباس بتاتا ہے کہ سب یہودیوں کی وجہ سے ہے اور یہودیوں کی زلف ِ رہ گیر کے اسیر’’ کافروں ‘‘ کے ساتھ مومن بھی ہیں۔۔۔آج امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک بنا ہوا ہے بلکہ دنیا یں جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہورہی ہے امریکہ اس میں کسی نہ کسی طور پر ملوث ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ سب بند کیسے ہوگا؟
ہماراخیال یہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی ۔دیکھئے!تاریخ میں جرمنی بطور ملک بدنام نہیں ہے۔ہٹلر بطور حکمران بدنام ہے۔ اسی طرح امریکہ کا کوئی حکمران آج بدنام نہیں ہے ۔پورا امریکہ بطور ملک بدنام ہے ۔حالانکہ امریکہ کا ہر نیا حکمراں ظلم و ستم میں دہشت گردی میں جھوٹ بولنے میں ہٹلر کا باُپ ثابت ہوتا ہے ۔مطلب یہ کہ اب کوئی حکمران یہودیوں کا قلع قمع نہیں کرے گا بلکہ اب یہ ناخوشگوار فرض عوام انجام دیں گے۔ایسا لگتا ہے کہ اب کسی ملک کی عوام انھیں اپنے ملک میں گھسنے نہیں دے گی۔بس جو جہاں موجود ہے وہیں مرے گا یا کسی طرح بچ جائے گا۔مستقبل میں کوئی دوسرا فلسطین نہیں بنے گا۔۔
موبائل7697376137 ّّّ