رشید پروینؔ
سارے بھارت ورش میں ایسی اور کوئی ریاست نہیںجس کے پاس پانچ ہزار برس کی تاریخ موجود ہو ۔یہ افتخار دنیا کی بہت کم تہذیبوں کو تاریخی طور پر حاصل ہے اور ہماری ریاست کشمیر اس فہرست میں شاید سب سے اول پر درج ہے کیونکہ کلہن نے جو تاریخ لکھی ہے، اس کا آغاز ہی( ستی سر)ایک بڑی جھیل سے کیا ہے جوشواہد کے لحاظ سے پانچ ہزار برس سے بھی پہلے ایک سمندر کی مانند یہاں موجود تھی۔کلہن پنڈت کے بعد کشمیری تاریخ دانوں کی ایک کہکشاں ہمارے آسماں میں جگمگا رہی ہے جو حسن سے بہت پہلے گذری ہے، لیکن حسن کھو ئیہامی وہ تاریخ داں ہیں جنہوں نے اپنی تاریخ میں ان تین سو برسوں کو نمایاں کیا ہے جو کلہن کی تاریخ سے غائب تھے، اس لحاظ سے تاریخ حسن کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے ۔ بیشتر لوگ ’’کھوئہامہ‘ کے بارے میں یہی تصور رکھتے ہیں کہ یہ کہیں کوئی چھوٹا سا گاؤں ہے، ایک مدت تک میں بھی علاقہ کھوئہامہ کو کسی دیہات کا گاؤں ہی سمجھتا رہا تھا ، اسی بات نے میرے اس خیال کو جنم دیا کہ کم سے کم اس عظیم اور درخشاں ستارے کے بارے میں بنیادی اور مختصر سا تعارف دوں جو اپنی تاریخ دانی کی وجہ سے تو شہرہ آفاق شخصیت ہیں ہی لیکن (کھو ئہامہ ) سے متعلق ہمارے تصورات میں جو د ھند ہے، اس سے صاف کیا جائے ۔
اس طرح سے تاریخ کے طالب علموں کے بغیر عام پڑھے لکھے لوگ بھی حسن شاہ کھوئہامی کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحوم حسن شاہ کھو ئہامی پر کچھ کام ضرور ہوا ہے اور عبدالاحد حاجنی نے ان پر ساہتیہ اکادمی کے لئے ایک مونو گرام بھی لکھا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا اپنا اعتراف ہے کہ حسن شاہ پر ابھی تک اس انداز سے کام نہیں ہوا ہے جس کا یہ عظیم تاریخ داں متقاضی ہے۔ مرحوم پروفیسر منظور فاضلی نے بھی حسن شاہ کے کئی گوشوں پر روشنی ضرور ڈالی ہے اور ان کے علاوہ کئی شعرا اور ادب سے وابستہ حضرات نے ان پر مضا مین بھی لکھے ہیں ،لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے ہاں پڑھنے اور مطالعہ کا اب کوئی خاص چلن نہیں اور اچھی اور دلچسپ کتب کو بھی پڑھنے والے میسر نہیں آتے ۔ تاریخ کا تو معاملہ ہی دوسرا ہے کیونکہ تاریخ کیساتھ بس ایک چھوٹا سا حلقہ ہی پہلے بھی دلچسپی لیتا رہا ہے اور اب یہ حلقہ بھی بہت ہی مختصر ہوکر رہ گیا ہے ۔
حسن کا نا م بحیثیت ایک تاریخ داں کے نہ صرف معروف ہے بلکہ کشمیر کے اندر اور کشمیر سے باہر تک علمی حلقے ان کا احترام بھی کرتے ہیں اور ان کے علمی قد کا پورا پورا اندازہ رکھتے ہیں، لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بہت سارے لوگ اور طلبا کا ایک بہت بڑا حلقہ ان کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ وہ ایک تاریخ د اں تھے اور انہوں نے (تاریخ کشمیر لکھی ) جو (راج ترنگنی،کلہن پنڈت ) کے بعد بڑ ی حد تک مستند تاریخ مانی جاتی ہے۔ راج ترنگنی چونکہ نظم میں لکھی ہوئی تاریخ ہے، اس لئے تاریخی واقعات میں بڑی حد تک دیو مالائی اثرات بھی جابجا نظر آتے ہیں اور جو کچھ بھی بیان کیا ہے، آج عقلی کسوٹی پر ان دیوی دیوتاؤں اور عفریتوں کا چلن کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔لیکن ابھی تاریخ دانوں کو یہ کہانیاں آگے بڑھانے اور لکھنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں کہ کلہن کو بھی اپنے اگلے تاریخ دانوں سے یہی کچھ ملا ہے جس سے کلہن پنڈت نے منظوم انداز میں رقم کرکے اپنی قلم کاریوں کے جوہر بھی نمایاں کئے اور پھر ُاس دور کے پسِ منظر میں یہ کوئی انجانی یا انہونی بات نہیں رہی ہوگی ،جب آندھی ، طوفان ، بارش ،برف ، دھوپ ،چاند ، ستاروں،گرہن اور دوسرے ایسے جیسے معمولات کو دیوی ، دیوتاؤں اور پاتالوں میں رہنے والی عفریتوں اور بھوت پریت کی کارکردگی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہوگا ۔ اب راج ترنگنی کو بھی عقلی کسوٹی پر پرکھنے کی ابتدا ہوچکی ہےاور دوسرے تاریخ دانوں نے بھی ان دیو مالائی کہانیوں کو تاریخ سے الگ کیا ہے یا نشاندہی کی ہے ، کیونکہ نظم میں بہر حال صرف حالات اور واقعات سے کام نہیں چلتا بلکہ ’’بادہ وجام ‘‘ کا ساتھ بھی ضرور رہتا ہے ۔اس کے باوجود اس تاریخ کو اولین ہونے کا شرف حاصل ہے ، لیکن یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ صرف کلہن ہی تاریخ داں نہیں ہیں بلکہ جو کھیپ گذری ہے، ان تصنیفات میں (نیل مت پوران)محفوظ ہے ۔اس کے پیش رؤں میں ہیل راج (آٹھویں صدی)رتنا گر بعہدِراجہ اونتی ورمن،اور کھیم اندر بعہدِراجہ کلش قابل ذکر ہیں ۔اس کے بعد بھی تاریخ نویسی ہوتی رہی ، بڈشاہ کے درباری امیر ملا احمد نے راج ترنگنی کا فارسی میں ترجمہ کیا ،فارسی میں تاریخ نویسی کرنے والوں میں حیدر ملک،نرائن کول (۱۷۱۰)محمد اعظم دیدہ مرہ (۱۷۴۷ )بیربل کاچرو (۱۸۵۰)اور آخر میں حسن شاہ کھوئہامی کا نام آتا ہے۔
مولوی غلام حسن شاہ علاقہ کھوئہامہ کے چھوٹے سے گاؤ ں گامرو میں 1832ـ ءمیں پیدا ہو ئے۔ بانڈی پور کا سارا ہی علاقہ جو علاقہ کھوئہامہ کہلاتا ہے۔ ایشیا کی سب سے بڑی اور خوبصورت جھیل ،ولر کے دامن میں واقع ہے۔ بانڈی پور کے جنوب مشرق میں صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر گامرو اگر چہ چھوٹا سا ہی گاؤں ہے لیکن یہاں کئی علمی اور علم پرور خاندان شروع سے رہے ہیں، جن میں پیر حسن شاہ کا خاندان بھی ہے ۔ پیر حسن شاہ اور دوسرے خاندانوں میں فاضلی بھی ہیں۔فاضلی آج بھی اس گاؤں میں ایک الگ خاندان کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ مرحوم پروفیسر منظور فاضلی بھی اسی گاؤں کے تھے اور ان ہی کی اولادوں میں سے ہیں ، منظور فاضلی میرے استاد محترم بھی رہ چکے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ، پیر حسن شاہ کے والد صاحب کا نام غلام رسول تھا ۔ غلام رسول زاہد اور متقی ہونے کے علاوہ عالم و فاضل بھی تھے ، انہیں طب پر بھی دسترس تھی اور ان کے بہت سارے مرید بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کے مرید ان سے تعویز وغیرہ بھی لیا کرتے تھے ۔اس بات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ اس دور میں کافی معروف بھی رہے ہوں گے ۔ جے این گنہار کی رائے کچھ مختلف ہے اور ان کی را ئے ہے کہ شیخ غازی الدین سرینگر میں کہیں بودو باش رکھتے تھے ۔ نشاط انصاری نے بھی اپنے ایک مضمون میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے لیکن انہوں اس بات کا اضافہ بھی کیا ہے کہ یہ زونی مر میں رہائش پذیر تھے لیکن اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ۔قرین قیاس یہی ہے کہ ان کے اسلاف(گامرو )ہی میں صدیوں سے رہائش پذیر رہے ہوں گے ۔ ان کے علاوہ بھی کئی اور پیروں کے خاندان ہیں جو شروع سے ہی علم و ادب سے منسلک رہے ہیں ۔ آج بھی تجزیہ کیا جائے تو گامرو کے آس پاس ایک آدھ کلومیٹر تک کی چھوٹی چھوٹی بستیوں کے مکینوں کی تعلیمی شرح فیصدی بہت زیادہ ہے اور مجموعی طور پر اس کا اثر بانڈی پور میں واضح دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
حسن کھوئہامی کے والد بزرگوار پیر خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے تین بیٹے تھے ۔ ان کا سلسلہ حسب و نسب ساتویں پشت میں کشمیر کے ایک برہمن گنیش کول سے جوڑا جاتا ہے جو دتاتریہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ حسن ان کے بارے میں خود معلومات دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ شروع سے ہی بڈ شاہ زین العابدین کے دربار میں قانون گو کی حیثیت سے تعینات تھے اور اس طرح سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ برہمن خاندان شروع سے ہی علم و ادب ،ذہانت و فطانت کے لحاظ سے سے کافی معروف رہا ہوگا۔ اسی برہمن پُتر گنیش کول کے بارے میں تاریخی طور یہ بات ثابت ہے کہ وہ حضرت شیخ حمزہ مخدومؒ کی نظر عنایت سے سرفراز ہوئے اور انہی کے ہاتھوں بیعت سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ اس طرح مشرف بہ اسلام ہوکر ان کا نا م شیخ غازی ا لدین ہوا۔ شیخ غازی الدین کا بڑا بیٹا اپنے دور کا بہت بڑا عالم و فاضل تھا اور اس کے علمی چرچے مغل بادشاہ شاہجہاں کے دربار تک بھی پہنچے تھے ۔ اپنی شہرت اور علمی قابلیت کی بنا پر بادشاہ شاہجہاں نے انہیں اپنے دربار میں عزت اور ان کے شایان شان مرتبے پر بٹھایا ۔ حسن شاہ کے والد صاحب بھی بڑ ے عالم و ٖفاضل تھے اور اپنے زمانے میں علمی لحاظ سے یکتا اور آفتاب کی مانند تھے۔ان کا شہرہ دور دور تک تھا ۔ ان کانام مولوی غلام رسول تھا اور خود انہوں نے چار کتابیں تحریر کی تھیں جنہیں بڑی پزیرائی ملی تھی۔ انہوں نے یہ کتابیں فارسی میں لکھیں تھیں اور فارسی کے ساتھ ساتھ انہیں عربی زباں پر بھی کافی دسترس تھی۔ مجموعہ شیواؔ رسالتہ الطرفہ ’’ عجیب منظر ‘‘ اور کراماتِ اولیا ان کی مشہور و معروف تصانیف ہیں ۔ مولوی غلام رسول نے خود اپنے بیٹے حسن شاہ کو تعلیم سے آراستہ کیا اور اس سے علمی لحاظ سے بالکل اپنے ہم پایہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔مولوی حسن شاہ بھی اپنے والد کی طرح ہی علم دوست اور علم پرور ثابت ہوئے اور بڑی جلدی اپنے میں عالمانہ شان پیدا کرکے شہرت یافتہ ہوئے ۔ انہوں نے بھی اپنے والد کی طرح تصانیف کی طرف جلد ہی توجہ کی اور تین کتابیں لکھ ڈالیں جنہیں کشمیر اور کشمیر سے باہر بھی زبردست پذیرائی ملی ۔ گلستانِ اخلاق اور اعجازِ غریبہ ، ان کی مشہور تصانیف ہیں،جنہیں عوامی سطح پر بھی سراہا گیا اور اس طرح سے پیر حسن شاہ کشمیر میں دور و نزدیک شہرت پاگئے۔
1875سے1878تک مہیب اور بھیانک قحط سالی کا زمانہ تھا ۔کہا جاتا ہے کہ کشمیر کی ایک بڑی آبادی مفلسی اور بھوک کی نذر ہوئی ۔حسن شاہ نے اس قحط سالی سے متاثر ہوکر ایک پمفلٹ بزبانِ فارسی منظوم تحریر کیا جس میں قحط سالی سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ بھی تھا اور پھر اس عفریت کے اثرات کو کم کرنے کے لئے کچھ تجاویز بھی تھیں۔حسن شاہ نے یہ پمفلٹ تب کے وزیر اعظم اننت کول کی و ساطت سے مہاراجہ رنبیر سنگھ تک پہنچایا جس سے پذیرائی حاصل ہوئی او رمہاراجہ نے ان کی علمی خدمات اور تجاویز کو سراہتے ہوئے حسن شاہ کو خلعت شاہی عطا کی۔ اسی دوران حسن شاہ کا جانا راولپنڈی ہوا جہاں اُس سے کہیں سے پتہ چلا کہ (پنڈوری گاؤں میں ایک شخص ُملا غلام محمد کے نام سے جانے جاتے ہیں اور اسی شخص کے پاس ُملااحمد کی فارسی میں لکھی ہوئی تاریخ ہے ۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ سنسکرت میں لکھی ہوئی رتنا گر پُرانا ہی کا ٹرانسلیشن تھا، جس میں ۳۵ راجگان کے حالات و واقعات ہیں جنہوں نے کشمیر میں پانچ ہزار برس پہلے حکومت کی ہے اور اس کیساتھ اُن سات بادشاہوں کے حالات بھی درج ہوئے ہیں جنہوں نے دوسری صدی سے چھٹی صدی کے اوائل عیسوی تک یہاں راج کیا ہے جو تاریخ دانوں کی نظروں سے اوجھل رہے تھے ۔اس لحاظ سے ا س تاریخ کی ایک اور اہمیت بنتی تھی کہ کلہن کی راج ترنگنی میں ان پنتیس راجگان کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ کلہن کی تاریخ میں اس سا ڑھے تین سو سال کی مدت تک ایک ہی راجہ کی حکومت کا ریکارڈ تھا جو کسی بھی طرح قرین قیاس ہی نہیں۔ رتناگر پرانا، زین العابدین کے زمانے میں دریافت ہوئی تھی جو 1422 سے 1474 حکمراں رہے اور بڈ شاہ کے نام سے اب تک کشمیری دلوں میں دھڑک رہے ہیں ۔بڈشاہ کی فر مائش پر ہی ُملااحمد نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا ۔ رتنا گر تاریخ اب پھر زمانے کی نظروں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس لئے اس کا یہ ٹرانسلیشن ہی بہت بڑی اہمیت اور افادیت کی حثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ پنڈوری سے اس کتاب کے ساتھ لوٹ کر حسن شاہ نے تاریخ کشمیر مرتب کی جس میں مُلا احمد کی اس کتاب سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خلاء کو پر کیا گیا تھا جو راج ترنگنی میں موجود تھا ۔بدقسمتی سے ایسا کہا جاتا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے حسن شاہ کہیں کشتی میں سوار ہوئے اور یہ کتاب اس کے ساتھ تھی ،کشتی کہیں اُلٹ گئی اور حسن شاہ معہ کتاب کے دریا میں ڈوب گئے ، کسی طرح انہیں تو بچایا گیا لیکن کتاب سیلاب میں بہہ گئی۔یا کسی دوسری وجہ کی بنا پر یہ اوریجنل کتاب کھو گئی ۔ بہر حال اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ راج ترنگنی میں جو خلا پورے ساڑھے تین سو سال کا اور دوسرا خلا دوسری صدی سے چھٹی صدی عیسوی تک کا تھا، پورا ہوگیا اور یہ غائب سلسلے تاریخ دانوں کی نظروں میں آگئے تھے ۔ سر والٹر لارنس جو مہاراجہ کے زمانے میں ریاست جموں وکشمیر کے کمشنر سٹلرتھے ،کو بھی حسن کھویہامی کے وسیع مطالع اور جغرافیائی معلومات کا اعتراف تھا، جس نے لارنس کو کشمیری سمجھنے اور جاننے میں زبردست مدد کی تھی اور اس کا بھر پور اعتراف لارنس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب (ویلی آف کشمیر) کے صفحہ 454 پربھر پور انداز میں یوں کیا ہے ’’ میں نے جو بھی کشمیری سیکھی اور اس زباں سے واقفیت حاصل کی ہے اس کے لئے میں پیر حسن شاہ کا ممنون ہوں، جس کا سارا کام ہی کسانوں اور گاؤں والوں کے درمیان ہی رہا ہے۔ ‘‘پیر حسن شاہ کو سر والٹر لارنس کے ساتھ مہاراجہ کے زمانے میں کام کرنے کا موقعہ ملا ہے۔کہا جاتا ہے کہ حسن کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام غلام محمد تھا ۔ غلام محمد عین شباب یعنی ۳۵ سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ ان کے دو بیٹے تھے ،ایک کا نام غلام مصطفیٰ اور دوسرے کا نام غلام محمد تھا۔منظور فاضلی نے حسن شاہ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے سرینگر میں کہیں دوسری شادی بھی کی تھی جو غیر مسلم تھی لیکن ازدواجی زندگی میں آنے سے پہلے ہی مسلم ہوگئی تھی۔ اس کے بارے میں تفصیلات موجود نہیں ،لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حسن شاہ کو علمی اور سماجی شخصیت اور دوسرے بہتر اوصاف کی وجہ سے مہاراجہ کی طرف سے گاندربل علاقے میں زمینیں (چک ) ملی تھی جو آج بھی ان کے خاندان کی ملکیت میں ہیں۔
رابطہ۔9419514537
rashid.parveen48@g mail.com