فن تعمیر کانمونہ قرار دی گئیں ریاست کے مختلف حصوںمیں صدیوں قبل قائم کی گئی عمارات زبوں حالی کاشکار بن کر رہ گئی ہیں اور ان میں سے کچھ توکھنڈرات بن چکی ہیں لیکن کچھ کی حالت انتہائی خراب اور خستہ ہے ۔ اگرچہ چند ایک عمارتوں کو تحفظ دے کر انہیں سیاحوں کیلئے جاذب نظر بنایاگیاہے تاہم زیادہ تر قلعہ نماعمارتیں ایک ایک کرکے تباہ ہوتی جارہی ہیں ۔مغلیہ دور حکومت کے دوران اور اس کے بعد پورے برصغیر کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی جگہ جگہ قلعے اور دیگر عمارتیں تعمیر ہوئیں جو ایک عرصہ تک قابل دید رہیں مگر حکام کی مسلسل عدم توجہی کے سبب ان کی حالت دن بدن بگڑتی گئی اور آج حالت یہ ہے کہ ان عمارتوں میں سے کئی کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ تاریخی مغل شاہراہ پر راجوری کے نوشہرہ سے لیکر پیر مرگ تک درجنوں ایسی عمارتیں یا قلعے تعمیر کئے گئے جنہیں صدیوں سے کئی مقاصد کیلئے استعمال کیاگیا تاہم یہ تمام عمارتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور ان کی مرمت یا بحالی کیلئے کوئی اقدام نہیں کیاجارہا۔جہاں تھنہ منڈی کا قلعہ محکمہ دفاع کی تحویل میں رہ کرتباہ ہوگیا وہیں پیر گلی میں واقع سرائے دیکھتے ہی دیکھتے اجڑ گئی اور اسی طرح سے دیگر عمارتوں کا بھی کیا حشر ہوا یہ سب آنکھوں کے سامنے ہے ۔اسی طرح سے پونچھ قلعہ اور دیگر تاریخی عمارتیں جو پہلے سے ہی زبوں حالی کاشکار تھیں ، 2005میں آئے زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت نہ کرسکیں اورآج صورتحال یہ ہے کہ ان کو دیکھنے کا شوق رکھنے والے اندر پہنچ کر خوف کھاجاتے ہیں کیونکہ دیکھ ریکھ اور صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمارتیں کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ بن گئی ہیں اور دن کےاُجالے میں بھی رات کی تاریکی کا منظر پیش کرتی ہیں۔اگرچہ عوامی اور سیاسی مطالبات پرکچھ عمارتوں کی مرمت کاکام ہاتھ میں لیاگیاتاہم کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی ان کی حالت میں ذرا بھر تبدیلی نہیں آئی ۔ کبھی ان کی دیکھ ریکھ محکمہ سیاحت کو سونپی گئی تو کبھی محکمہ آثار قدیمہ کو، مگر دونوں محکمہ جات ان نادر نمونوں کو تحفظ دینے میں ناکام ثابت ہوئے ۔بدقسمتی سے ان دونوں محکمہ جات کی سرگرمیاں محدود سطح کی ہوکر رہ گئی ہیں ۔ ایک جانب جموں میں واقع تاریخی عمارات کابھرپور خیال رکھاجارہاہے اور انہیں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے میں شب و روز محنت کی جارہی ہے تو دوسری جانب خطہ پیر پنچال یا خطہ چناب اور اسی طرح سے ریاست کے دیگر دور دراز علاقوں میں ان تاریخی عمارتوں کو کیوںمکمل طور پر نظرانداز کردیاگیاہے ؟جس طرح سے باہو فورٹ اور ریاسی قلعہ یا راجہ کے محل کو آج تک قابل توجہ رکھاگیاہے اسی طرح سے دیگر اضلاع میں موجود تاریخی عمارات کوبھی مقامی اور غیر مقامی سیاحوں کی توجہ کامرکز بنایاجاسکتاہے ،جس سے نہ صرف سیاحتی سرگرمیاں فروغ پائیں گی بلکہ روزگار کے امکانات بھی پیدا ہوں گے لیکن ایساجبھی ممکن ہوسکتاہے جب حکام کی طرف سے اس حوالے سے سنجیدگی سے اقدامات کئے جائیں اور ہر ایک علاقے کو اس کا حق دیاجائے ۔یہ عمارتیں ریاست جموں وکشمیر کا ایک قیمتی ورثہ اوراس کی پہچان بھی ہیںجن کو تحفظ دینے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔