تاج محل،قطب مینار، لال قلعہ وغیرہ سلطنت مغلیہ کی شاندار یاد رگایں ہیں ۔ انھیں مسلم حکمرانوں نے بنوایا تھا اور اب یہ آثار قدیمہ ہیں جن کی شہرت اور سیاحتی اہمیت سے دنیا جہان واقف ہے ۔ ان سے حاصل ہونے والی خطیر آمدنی وغیرہ سے بھارت کا خزانہ عامرہ بھرا جا ہا ہے مگر سنگھ پریوار نا شکری کر تے ہوئے ان تاریخی عمارات سے خار کھائے بیٹھا ہے ۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ یوپی میں براقتدار فائر بینڈ زعفرانی لیڈ یوگی آدیتہ ناتھ نے یونیسیف کے تسلیم کردہ دنیا کے آٹھویں عجوبے کو انڈین کلچر پر بد نما داغ قراردیا ۔ اس سے قبل ریاستی حکومت نے تاج محل کو اپنے سیاحتی کتابچے سے ہٹایا۔ اس پر بھارت سمیت دنیا بھر میں یوگی اور سنگھ کے خلاف تنقید کی لہر چلی تو یوگی نے ڈمیج کنٹرول کے طور یہ بیان دیا کہ تاج کی تعمیر میں بھارتیہ مزدوروں کا خون پسینہ شامل ہے ۔ وہ ۲۶؍ اکتوبر کو تاج گئے ، تیس منٹ تک یہاں قیام کیا اور اس کے بعد تاج کے ایک دروازے سے سوچھ ابھیان کے طور وہاں جھاڑو مارا۔ یہ ڈرامہ بازیاں اس عیاں حقیقت کو چھپا نہیں سکتیں کہ بھاجپا مسلمانوں کے خلاف اپنے بغض وعداوت پر مبنی دیر ینہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور بھارت میں موجود مختلف تاریخی آثار و باقیات جومسلم شناخت کا حوالہ رکھتے ہیں ،انہیں ڈھانے ،گرانے اورزمین بوس کرنے کے جنون میں مبتلاہے۔بھارت کے شہر آگرہ میں واقع سنگِ مرمر سے تعمیر شدہ مقبرہ تاج محل دنیا کے عجائب میں سے ایک ہے، جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی محبت میں17 ویں صدی میں تعمیر کیا تھا۔تاج محل مغل طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کی تعمیراتی طرز فارسی، ترک، بھارتی اور اسلامی طرز تعمیر کے اجزا کا انوکھا ملاپ ہے۔ 1983 ء میں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثے میں شمار کیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی بہترین عمارات میں سے ایک بتایا گیا۔ تاج محل کو بھارت کے مسلم فن کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا گیا ہے۔ یہ تقریباً 1648 میں مکمل تعمیر کیا گیا۔ استاد احمد لاہوری کو عام طور پر اس کا معمار بتایا جاتا ہے۔
مغل بادشاہ شاہجہان کی بیوی ممتاز محل کا مقبرہ جو بھارت کے شہر آگرہ میں واقع ہے۔کہا جاتا ہے کہ عیسی شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، لیکن بادشاہ نامے میں لکھا ہے کہ خود شاہ جہاں نے اس کا خاکہ تیار کیا۔ یہ عمارت 1632 سے 1650 تک کل25 سال میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے۔ عمارت کی مرمری دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے۔ مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے سات میٹر اونچا ہے ، سنگ سرخ کا ہے۔ اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف ، کرسی کے نیچے ایک حوض ہے۔ جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے ۔اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہجہان کی قبریں ہیں۔ہر سال اس تاریخی یادگار کو 30 لاکھ افراد دیکھنے آتے ہیں۔ یہ تعداد بھارت کے کسی بھی سیاحتی مقام پر آنے والے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے ۔تاج محل مغلیہ دور کے فن تعمیر کا وہ عظیم شاہکار ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ محبت کی یہ لازوال نشانی مورخوں ، شاعروں، ادیبوں، مصوروں اور فنکاروں کے لئے بھی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ 1874 ء میں برطانوی سیاح ایڈورڈ لئیر نے کہا تھا کہ دنیا کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جنہوں نے تاج محل کا دیدار کیا اور دوسرے جو اس سے محروم رہے ۔ 26 مارچ2015کو آگرہ کے چھ وکلاء نے ضلعی عدالت میں ایک پیٹیشن دائر کی،جس میں دعوی کیاگیا کہ تاج محل دراصل شیومندر تھا،جس کا نام تیجو مہالیہ تھا؛لہذا ہندووں کواس کے اندر پوجا کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ پیٹیشن میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ بارہویں صدی میں راجا پرمردی دیو(Paramardi Dev)نے تیجومہالیہ مندر کی تعمیر کروائی تھی،جسے آج عام طورپر تاج محل کے نام سے جانا جاتا ہے،اس کے بعد اس مندر کے وارث راجہ مان سنگھ ہوئے،جو اس وقت جے پور کے مہاراجا تھے،ان کے بعد اس کا نظم و انتظام راجہ جے سنگھ کے ہاتھ آیا،مگرپھر شاہجہاں نے اپنے دورِ اقتدار میں اس پر قبضہ کرلیا۔عدالت نے اپنی صوابدید پر اس پیٹیشن کو قبول کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ،وزارتِ ثقافت اور آرکیالاجیکل سروے آف انڈیا (ASI)کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا ۔وزارتِ ثقافت نے تو نومبر2015میں ہی لوک سبھا میںکہہ دیا تھا کہ تاج محل ایک مقبرہ ہے،مندر نہیں ہے،جب کہ اے ایس آئی نے اگست2017ء میں آگرہ کورٹ کو بتایا کہ انسانی ہاتھوں سے بنایا گیا یہ عجوبہ ’’تاج محل‘‘ کبھی بھی مندر نہیں تھا،یہ شروع سے ایک مسلم مقبرہ ہے۔ بہرصورت اترپردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ تاج محل کو غیر ہندوستانی تصور کرتے ہیں اور ان کے خیال میں انڈیا کی یہ حسین عمارت بھارت کے ماضی کی ثقافت کی عکاسی نہیں کرتی کیونکہ یہ حملہ آوروں کی بنوائی ہوئی ہے۔آدتیہ ناتھ ایک ہندو سادھو ہیں، وہ ہندوتوا کی تحریک سے بہت عرصے سے وابستہ ہیں۔ وہ پانچ بار پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو ئے اور ریاست اُترپردیش کا وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے وہ مسلمانوں کے خلاف اپنے نفرت انگیز بیانوں کے لیے مشہور رہے۔یوگی ہندوتوا کے اس بنیادی فلسفے میں یقین رکھتے ہیں کہ انڈیا صرف انگریزوں کے زمانے میں ہی غلام نہیں تھا بلکہ ہندو یہاں ایک ہزار برس قبل یعنی مسلم سلاطین کی حکمرانی کے وقت سے غلام ہیں۔وہ افغانستان، ایران اور وسط ایشیا سے آئے ہوئے ان سلاطین کو حملہ آور اور لٹیرا قرار دیتے ہیں اور صدیوں تک اس ملک میں رہنے اور یہاں کی ثقافت اور مٹی میں رچ بس جانے کے باوجود انھیں غیر ملکی حملہ آور ہی تصور کرتے ہیں۔ہندوقوم پرستی کی نئی لہر میں مغل بادشاہ اور ان کی یادگاریں بھی نفرتوں کی زد میں ہیں۔ دہلی میں اورنگ زیب روڑ کا نام تبدیل کر نا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ نصابی کتابوں میں بادشاہ اکبر کے نام ساتھ’’ اعظم‘‘ کا لاحقہ لکھا جاتا، وہ بھی ہٹا دیا گیا ہے۔اتر پردیش حکومت ریاست کے ایک شہر مغل سرائے کا نام تبدیل کرنے والی ہے کیوں کہ اس میں مغل نام لگا ہوا ہے۔اسی پس منظرکے ساتھ تاج محل بھی ایک عرصے سے ہندوتوا کے پیروکاروں کی نفرتوں کی زد میں آیاہے۔ چونکہ یہ عالمی ورثے کی ایک اہم عمارت ہے ،اس لیے اس سے منسوب تنازعہ زیادہ زور نہیں پکڑ سکا۔ آدتیہ ناتھ کایہ بھی خیال ہے کہ غیر ملکی سیاحوںا ور مہمانوں کو مسلم میناروں اورتاج محل کے جو ماڈل تحفتا دیے جاتے ہیں وہ ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی نہیں کرتے۔ کوئی ان عقل سے پیدل لوگوں سے پوچھے کہ اگر یہ ہندوستان کی تہذیب اور ثقافت کی نمائندگی نہیں کرتے تو کیا قطب مینار اور تاج محل قطب جنوب اور انٹارکٹکا کی تہذیب کے عکاس ہیں؟ مغلوں نے برصغیر کو تاج محل جیسی حسین عمارت ہی نہ دی بلکہ دلی، لاہور اور فتح پور سیکری جیسے شہر بنائے، آگرہ، لاہور، الہ آباد اور لال قلعہ جیسے قلعے تعمیر کیے اور ریاست کشمیرمیںنشاط، شالیمار، پری محل، اچھ بل، ویری ناگ اور چشمہ شاہی جیسے باغوں کی تعمیر کی۔ اس خطے کی تہذیب، تمدن، موسیقی، زراعت، نظم و نسق اور تجارت کو اتنا فروغ دیا کہ ساری دنیا کو اس سے رشک ہوتا تھا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا نے اپنی ساری طاقت و قوت ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف منظم و برانگیختہ کرنے میں ہمیشہ صرف کیالیکن خود کو جدوجہد آزادی سے قطعی الگ تھلگ رکھا جس میں مسلمانوں کی قربانیاں پیوست ہیں۔آر ایس ایس کیڈر کی نسلیں در اصل پرشوتم ناگیش اوکے متشددانہ نظریات کے زیر اثرپلی بڑھی ہیں ،جو ایک خود ساختہ مورخ تھا،اس نے 1964ء میں ہندوستانی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی غرض سے ایک ادارہ قائم کیا تھا ،اس نے بہت سے مفروضات گڑھے،جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جزیرہ عرب دراصل وکرماجیت کی سلطنت کا حصہ تھااور اس نے کئی کتابیں بھی لکھیں،جن میں سے ایک کتابSome Blunders of Indian Historical Research کوغیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔اس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’’قطب مینار دراصل مشاہدہ فلکیات کے لیے بنایاگیا ٹاور تھا اوراس کا وشنودھوج یا وشنواستمبھ تھا،جب کہ لال قلعہ بھی ایک ہندو راجا کے ذریعے تعمیر کروایا گیا تھا ‘‘اس نے اپنے نظریہ تاریخ کی تلخیص ان الفاظ میں پیش کی کہ:’’عہدِ وسطی میں وجود پذیر ہونے والے تمام مساجد و مقابر کو ہندووں کے محلات ومنادر پر قبضہ کرکے تعمیر کیا گیا،چنانچہ بقول اس کے گوالیار میں محمد غوث کا مقبرہ ،فتح پور سیکری میں سلیم چشتی کا مزار،دہلی میں نظام الدین اولیاؒ کا مقبرہ اور اجمیر میں معین الدین چشتیؒ کا مزار سب پہلے ہندوعمارتیں تھیں ، جن پر مسلمانوں نے قبضہ کر کے ان پر مزار اور مساجد بنادیں‘‘۔یہی وہ بے سروپا نظریہ ٔ تاریخ ہے جس کے تحت دسمبر 1992ء میںتاریخی بابری مسجد کو شہید کیاگیا۔
سنگھ پریوار نے پہلے تواورنگ زیب کو ایک ظالم حکمران قراردیا،اور اب سارے ہی مسلم حکمراں ان کے خاص نشانے پر ہیں، جن میں شہید ٹیپو سلطان بھی شامل کیاگیا ہے ۔ پریوار پوری زہریلی منصوبہ بندی کے ساتھ انڈیا کے شاندار مسلم ماضی کی مٹی پلید کر رہا ہے۔حیرت ہے کہ ان بادشاہوں میں اب آزاد خیال جہانگیر و شاہجہاں بھی شامل ہو گئے ہیں،جن کی مائیں، ہندو راجپوت تھیں،یہ لوگ تو انھیں بھی باہری،ظالم اور ہندو مخالف قراردے رہے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی تاریخ اب سیاست اور سیاسی پارٹیوں کی لونڈی بن گئی ہے،جسے سب اپنے اپنے حساب سے نچوارہے ہیں۔ آر ایس ایس نے ان آثار و باقیات کی تحقیر و تخفیف کرکے براہِ راست مسلمانوں کی ہندوستانی تپر ہی دھاوا بول دیا جائے۔ اس کی شروعات اپنے زہرناک مسلم مخالف بیانات کے لیے مشہور یوپی کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دربھنگہ میں16؍جون2017 ء کو یہ کہہ کر کی کہ تاج محل ہندوستانیت کی علامت نہیں ہے۔بہر کیف اگر تاج محل کو اس وجہ سے تاریخی و سیاحتی مقامات کی فہرست سے خارج کردینا چاہیے کہ اسے ایک باہریبادشاہ نے بنوایا تھا،توپھر مودی کے لئے بھی یوم ِ آزادی کے موقع پراس لال قلعہ سے خطاب کرنے کا جواز نہیں رہتا کیونکہ اسے بھی اسی شحص نے بنوایا تھا۔یہ بھی توبتائیں کہ کیا پارلیمنٹ اور قصرِ صدارت کوباہری حکمرانوںنے نہیں بنوایا؟توکیا ان کا بھی بائیکاٹ ہونا چاہیے؟تاج محل آج سے 364 برس پہلے مکمل ہوا تھا، ہر 20 ؍برس میں ایک پشت کا حساب لگایا جائے تو تاج کی تکمیل سے آج تک 18 ؍پشتوں تک یہ فن سینہ بہ سینہ منتقل ہوا ہے اور آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔مغل ’’لٹیرے ‘‘ہوتے تو کیا تاج کو آگرے میں بناتے یاغزنی یا کابل میں بناتے؟ ’’لٹیرے ‘‘تھے تو یہاں سے کیا لوٹ کے لے گئے اور کہاں؟ ہمایوں سے لے کر اکبر شاہ ثانی تک سب تو یہیں دفن ہیں، سب یہیں پیدا ہوئے، بڑھے ، جیے اور مرے۔ جب آخری مغل کو انگریزوں نے جلاوطن کر دیا تھا تو اپنی آخری سانس تک مہرولی کی اس دو گز زمین کے لیے ترستا رہا جو اپنے لیے چھوڑ آیا تھا۔ اور یہ کہتے ہیں کہ مغل ’’لٹیرے ‘‘تھے۔ویسے شاہجہاں کو ’’لٹیرا‘‘ کہنے کے اس حالیہ سلسلے کی شروعات اُترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ نے کی اور پھر طوطے کی رٹ کی طرح اسے دہرانے کا کام اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے کیا۔ ایک بھگت نے جو سبق رِٹ لیا وہ سب کو جلدی یاد ہو جاتا ہے۔بھارت کے سادھارن لوگوں کو تاریخ ہند کا ذرا بھی علم نہیں ہے اور ان کی سوچ کو اپنی نفرتوں کا یرغمال بنا نے میں آرایس ایس کی مرتب کردہ فرضی تاریخ نصابوں میںداخل کی گئی ہے۔ایک بھاجپا نیتا نے اپنی ’’تاریخ دانی ‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئے اورنگزیب اور شاہجہاں کو آپس میں خلط ملط کردیا اور کہا کہ تاج محل کو بنوانے والے نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا تھا،ساتھ ہی یوپی کے ہندووں کو برانگیختہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے شخص کو ہندوستانی تاریخ میں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔ہندوتواطاقتوں نے ہمیشہ تاریخ کے استعماری اسکول کی پیروی ہے اور آپ غورکریں تو پتہ چلے گاکہ برطانوی مورخین نے بڑی چالاکی سے ہندوستانی تاریخ کو تین حصوں میں منقسم کررکھا ہے،پہلے دو حصوں کو ہندواور مسلم عہدکا عنوان دیتے ،جب کہ تیسرے حصے کو برطانوی عہدکا نہ کہ عیسائی ودر کا نام دیا۔اسی خیانت آمیز تقسیم کی وجہ سے ماقبل برطانوی عہد کو ہندو مسلم دشمنی کے چشمے سے دیکھنے کا رجحان پیدا کیا۔ بنابریں ہندوتوا طاقتیں شروع سے مسلم مخالف تورہی ہیں،مگر برطانیہ یا استعماریت مخالف کبھی نہیں رہیں۔
دینا ناتھ بترا جو تاریخ کی ساری کتابوں کو بزعم خود از سر نو تحریر کرنے پر کمر باندھ چکے ہیں، ان کے بارے میں تو یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ انھوں نے کہاں تک تعلیم پائی ہے اور کن مضامین میں۔ اس قبیلے کے سب سے معروف تاریخ داں پی این اوک نے کبھی تاریخ نہیں پڑھی تھی۔ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ شاہجہاں نے تاج محل کی زمین مہاراجہ جے پور سے چھینی تھی اور وہاں بنے شیو مندر کو توڑ کر تاج محل بنایا تھا۔اب ان نادانوں جاہلوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ آگرہ جے پور والوں کی ملکیت کب ہوا؟ بابر نے اسے لودیوں سے جیتا، ان کے قلعے پر قبضہ کیا، اسی قلعے سے اکبر نے راج کیا، جہانگیر نے کیا، شاہجہاں نے دارالحکومت دِلی سے جانے سے پہلے وہاں سے راج کیا، اکبر کے وقت سے جے پور والے مغلوں کے دربار میں حاضری دیتے رہے، ان کے منصب دار تھے، ان کی اتنی بساط کب ہو گئی کہ مغلوں کی راجدھانی میں زمین پر قبضہ کر لیں، اور اگر انھوں نے ایسا کر لیا تھا اور مغلوں نے زبردستی کی تھی تو اب واپس مانگ لیں، جے پور والوں نے تو انگریزوں کی سرپرستی خوشی خوشی قبول کر لی تھی، ان کے بڑے وفادار تھے، ان کے وقت میں کیوں اپنی زمین حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ نہیں کی، اور ابھی بھی کیا گیا ہے، اب تو راجستھان میں انگریزوں کے وفادار سندھیاؤں کی حکومت ہے، آپ کی اپنی پارٹی کے لوگوں کی حکومت ہے۔ اب دعویٰ ٹھوک دیں۔ سی ایم نہیں ٹھوکتیں دعویٰ تو آپ ٹھوک دیجیے!