پچھلی ٹانگوں کو باندھ کر رسی کی گانٹھ اگلی ٹانگ میں پھنسا دی، اس کا دوسرا بل دوسری ٹانگ کے گرد لپیٹ کر رسی پچھلی ٹانگوں کی بیچ سے گذار کر جو اسے کس کے کھینچا، تو ٹانگین سکڑگئیں ۔۔ گرن نیچے کی طرف جھکنے لگی۔ ۔ ۔ رسی کواور کھینچا تو گٹھنے ٹیک دیئے۔۔۔ پھر ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ بھینسا چت۔۔۔ تاجو نے جلدی جلدی رسی کو ایک ہاتھ میں لیکر دُم ٹانگوں میں پھنساکے اپنے گھٹنے بھینسے کی پیٹھ پر دبا دیئے۔ جب تک جبار قصائی نے گردن موڑ کر نرخرا کاٹ دیا ۔۔۔ بررررر کر کے خون کا پھوارہ نکلا۔ یہ وقت ہوتا ہے جب گردن کٹے بھینسے میں دس ہارس پاور سے بھی زیادہ طاقت آجاتی ہے۔ اور کھینچ کر بھاگنے کی کوشش میں پکڑنے والے کوگھسیٹ کر مار بھی سکتا ہے۔ تاجو ایک مشاق قصابن کی طرح رسی کھنچ کر زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے دونوں پائوں بھینسے کی پشت پر دبا دیئے۔ جبار قصائی نے چھری نرخرے کے اندر ڈال دی، کوئی اورنس کٹ گئی ۔ خون کا ایک ہلکا سا بھبکا نکلا ، بھینسے نے آخری جھر جھری لی ۔۔۔ اور تاجو نے آہستہ آہستہ رسی ڈھیلی چھوڑ دی۔۔۔
تاجو جبار قصائی کی بیٹی تھی ۔ ہرنی جیسی پھرتی اور ناک نقشے کی تیکھی۔ باپ کے کام میں مجبوراََ ہاتھ بٹاتی تھی۔اصل میں اس کام سے ہی سے متنفر تھی۔نہ ہی قصائی کا کام پسنداور نہ ہی کسی قصائی سے شادی کرنے کی متمنی۔وہ کسی خیالی شہزادے کی چاہ میں بھی آہیں بھرنے کی قائل نہیں تھی ۔ بس ایک ایسا شوہر چاہتی تھی جو اسے پیار کرے، اس کا خیال رکھے۔چاہے وہ مزدور یا ٹھیلہ والا ہی کیوں نہ ہو۔ پر ایسا کیسے ہوسکتا تھا۔ قصائی کی بیٹی قصائی کے گھر نہ بیاہی جاتی ، تو کیاراجہ کے گھر کی رانی بنتی ۔ تاجو کی شادی بھی آخر قصائی کے گھر ہی ہوگئی۔ گھر بھرا پڑا تھا، مگر گھر کے مکیں بڑی کس مپرسی کی زندگی کاٹ رہے تھے۔ اس کا شوہر کریم قصائی دکھنے میں کمزور اور کام کاج میں سست تھا ۔ اب تاجو سمجھ گئی تھی کہ اسے اس گھر میںبیاہ کرکیوں لایا گیا تھا۔ تاجو کو کریم قصائی کی بیوی بناکر اس کے لئے کمائو نوکرانی لائی گئی تھی۔ اب یہاں ا ٓکر تاجو کو بھینسے گرانے کے ساتھ ساتھ ان کو حلال بھی کرنا پڑتا تھا۔
گائو کشی کا معاملہ طول پکڑتا جارہا تھا۔ شہر کا شہر قصاب برادری کا دشمن ہوگیاتھا ۔ ان کے خلاف زہر اگلا جا رہا تھا ۔ شاطر ذہنوں میں ان پر حملہ کرنے کی سوچ بھی پل رہی تھی۔ لیکن قصاب برادری کاجو ڈر اور خوف عام لوگوں کے دلوں پر ویسے بھی چھایا رہتا ہے۔ وہی خوف حملہ آواروں کو بھی حملہ کرنے سے روک رہا تھا۔ پھر بھی اکا دُکا حملے ہورہے تھے ۔پر وہ ان ہی لوگوں پر ہوتے تھے جن کی دکانیں اپنے محلے سے دور دوسری جگہوں پر تھیں۔ پہلے پہل یہ حملے قصابوں کے لئے اتنے تشویش ناک نہیں تھے، لیکن ایک دن جب شہر کے بھرے بازار میں کریم قصائی پر حملہ ہوا اور اسے بڑی بے دردی کے ساتھ مار ڈالا گیا تو پوری برادری میں تشویش پھیل گئی۔ پوری برادری ہاتھوں میں چھریاں اور ٹوکے لیکر سڑکوں پر آگئی۔ کریم قصائی کی لاش کندھوں پر اٹھاکر شہر کی گلی کوچوں میں گھماتے رہے۔ لوگ ان کے ہاتھوں میں چھریاں اور آنکھوں میں اتر آئے خون کو دیکھ کر بہت زیادہ ڈرگئے تھے۔ بچے اور عورتیں خوف کے ما رے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے۔۔۔حکومت حرکت میں آگئی ۔ قصائی برادری پر جم کر لاٹھی چارج ہوا، ان پرٹیرگیس کے گولے دھاگے گئے۔۔ دنگے میں دو پولیس والے زخمی کیا ہوگئے پوری کی پوری سرکار حرکت میں آ گئی۔ پولیس نے گولی چلائی ۔ تین اور جواں لڑکے مارے گئے۔ جب وہ خون میں لت پت اپنے بچوں کی لاشیں اُٹھانے لگے، تو پولیس کا بھر پور حملہ ہوا۔ کئی لوگ زخمی ہوئے ۔ بہت سارے گرفتار کر لئے گئے۔ محلوں اور علاقوں میں سخت کرفیو لگادیا گیا۔ ان کے خلاف سخت قانوں جاری کئے گئے۔ کوئی قصائی گائے، بیل ، بھینس نہیں مارے گا۔ کسی سڑک کے قریب گوشت کی دکان نہیں ہونی چاہئے۔ وہ اپنے گھروں میں صرف چھوٹے جانور یعنی بکرا یا بھیڑ ہی حلال کرسکتے ہیں ، اپنے گھروں میں ایک چھری سے زیادہ ’’ ہتھیار‘‘ نہیں رکھ سکتے ہیں۔
جبار قصائی اب بوڑھا ہورہا تھا لیکن اسے اپنی لاڈلی بیٹی کی فکر کھائے جارہی تھی۔اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو دوسری جگہ نئے گھر بنا کر دیئے۔ پراناگھر بیٹی کو دیا او ر گلی کی طرف ایک چھوٹی سی دکان بھی بنا کردے دی۔ اس کے دونوں بچوں کا پاس والے سکول میں داخلہ کرادیا ۔ اور خود جب تک زندہ رہا ۔بیٹی کے ساتھ ہی رہا۔۔۔
تاجو کا بیٹا احمد پڑھ لکھ کراسکول ٹیچرہوگیا تھا، اور بیٹی سلمیٰ کالج میں پڑھ رہی تھی۔ تاجو کی گلی والی دکان اچھی خاصی چل رہی تھی۔ جس میںکھوپریل رسی سے لٹکتے کیلے ، سیب اور سنتروں کے ڈبے ،کئی قسم کی سبزیوں کے علاوہ ضروریات کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی رکھی رہتی تھیں۔ دکان میں بچوں کے لئے رکھی ٹافیاں اور بسکٹ بھی خوب چلتے تھے۔ آج کل شہر کے حالات پھر بگڑے ہوئے تھے۔ کرفیو کی مدت اور پولیس کی گشت بڑھا دی گئی تھی۔ دوردی پوش کبھی کبھار گلی کے بھی چکر لگاتے تھے اورتاجو کی چھوٹی سی دکان سے سگریٹ، بسکٹ وغیرلے جاتے تھے۔ کبھی کبھار دو چار گالیاں دے کر اس کی دکان بند کرا دیتے تھے اور کبھی اسے خود بلاکر دکان کھلواتے تھے اور اپنے مطلب کی چیزیں لے جاتے تھے۔سردیوں کے دن تھے اور دو چار دنوں سے کچھ زیادہ ہی سردی پڑرہی تھی۔ کل سے احمد کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ شام تک اس کا بخار بہت زیادہ بڑھ چکا تھا۔
’’ نہیں ماں باہر کرفیو لگا ہے۔ اور رات کا وقت ہے ۔ ہم ہسپتال نہیں جا سکتے ہیں۔‘‘
’’ ارے بیٹا تم چلو میرے ساتھ ۔ ابھی رات تھوڑی نا ہوگئی ہے۔ شام کا ہی تو وقت ہے۔‘‘
’’ ــ ماں کیسی باتیں کررہی ہو۔ قانون سب کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے ‘‘
احمدپتر یہ کون سا قانوں ہے، جو بیمار آدمی کو ہسپتال جانے سے روک دیـ‘‘
لمبی بحث کے بعد بیٹی سلمیٰ کو اپنا خیال رکھنے کی تلقین کرکے دونوں ماں بیٹے ہسپتال جانے کے لئے نکل گئے ۔
ان کے جانے کے بعد سلمیٰ کتاب کھول کر بیٹھی ہی تھی کہ دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی ۔۔ وہ یہی سمجھی شایدماں اور بھائی واپس آگئے ہیںیا کوئی پڑوسی کسی چیز کے لئے آیا ہے۔ اس نے دروازہ کھولا تو باہر اندھیرے میں کوئی کھڑا تھا ۔
’’ کون ہے ۔ دکان بند ہے ‘‘ سلمیٰ نے جلدی سے کہا۔
’’ کیوں بند ہے‘‘ اندھیرے سے آواز آئی
ــ’’ کرفیو ہے ۔بھائی اور ممی بھی گھر میں نہیں ہیں ‘‘
’’کہاں گئے ہیں ۔ بازار میں بم پھینکنے یا کہیں آگ لگانے ـ‘‘
’’ بھائی بیمار ہے، ماں اس کو لے کر ہسپتا ل گئی ہے ‘‘ سلمیٰ نے اس کی بات کو نظرانداز کرکے کہا۔ ـ
’’ مطلب ۔ گھر میں تیرے سواکوئی اور نہیں ہے ‘‘
’’ جی ۔۔۔ جی ہاں ‘‘ سلما نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا ۔ آدمی نے کوئی چیز کندھے سے اتار کر دکان کے تھڑے کے ساتھ رکھ دی اور چہرے پر مفلر لپیٹ کر آگے بڑھ گیا۔
’’ چل اندر ‘‘ آدمی نے دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا ۔
ـ’’ جی ۔۔وہ گھر میں ۔۔۔‘‘ سلمیٰ نے جلدی سے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔لیکن مفلر پوش نے دروازے میں اپنا پیراُڑس دیا۔
’’چل نا اندر‘‘ مفلر پوش نے سلمیٰ کو اندر کی طرف دکھ دیا ۔۔ خود بھی اندر گیا اور پیر کی ٹھوکر سے اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔ سلمیٰ ڈری سہمی بھاگ کر کمرے کی دوسری دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئی۔ وہ تھر تھر کانپ رہی تھی اور ساتھ میں روئے بھی جا رہی تھی۔ مفلر پوش تیزی کے ساتھ سلمیٰ کی طرف بڑھ گیا۔ سلمیٰ دوسرے کونے کی طرف بھاگی۔ مفلرپوش نے جست لگا ئی اور سلمیٰ کو بازووں کے حلقے میں دبوچ لیا۔ وہ رو رہی تھی، چلا رہی تھی، پر مفلر پوش بہت جلدی میںلگ رہا تھا۔ سلمیٰ کے چہرے پر دو تھپڑ مار کر اس کے بدن سے کپڑے کھرچنے شروع کردیئے۔ سلمیٰ نے پھر بھاگنے کی کوشش کی ۔ مفلر پوش کو غصہ آگیا۔ اس نے سلمیٰ کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور خود اس کے اوپر آگیا ۔۔۔
دروازہ دڑھام کے ساتھ کھل گیا۔ لیکن مفلر پوش کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ کون آیا اور کون گیا۔ اس نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔۔۔ کھوپریل رسی کا پھندا اس کی ٹانگ میں پھنسا۔اور ایک لمحے میں رسی کی دوسری گانٹھ اس کی دوسری ٹانگ میں پھنس گئی۔ اسے کھنچ کر کمرے کے بیچ تک گھسیٹا گیا۔۔۔ جب کھپریل رسی کی چبھن اس نے اپنی کلائیوں پر محسوس کی، تواس کے ہوش کچھ کچھ ٹھکانے آ گئے۔ ابھی وہ حالات کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں پایا تھاکہ تاجو نے ایک ہاتھ سے اس کا مفلر اُتارا۔ ۔گردن موڑ دی اور چھری نرخرے پر رکھ دی ۔۔۔۔
’’ نہیں ماں نہیں ‘‘ اچانک کمرے میں احمد کی تیز آواز گونجی ۔
���
رابطہ؛ اسلا م آباد(اننت ناگ)،فون نمبر9419734234