سرینگر// قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی جانب سے تجارتی انجمن کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن صدر حاجی محمد یاسین خان کو نئی دہلی طلب کئے جانے کے خلاف وادی کشمیر میں پیر کو جزوی ہڑتال رہی۔ اس دوران شہر میں تاجروں نے احتجاجی دھرنا دیا جبکہ وادی میں ریل خدمات احتیاطی اقدامات کے طور پر معطل رکھی گئیں۔ اس کے علاوہ ضلع انتظامیہ سری نگر کے احکامات پر پائین شہر کے پانچ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر بندشیں عائد رہیں۔ چند تجارتی انجمنوں نے دو روز قبل ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران تاجر لیڈر کی این آئی اے ہیڈکوارٹرس طلبی کو بلاوجہ ہراسانی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف 25 ستمبر کو ہڑتال کی کال دے دی تھی۔ علیحدگی پسند قیادت اور بار ایسو سی یشن کی حمایت یافتہ تجارتی انجمنوں کی ہڑتال پر سرینگر کے سیول لائنز میں پیر کے روز بیشتر دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے۔ تاہم سڑکوں پر نجی اور مسافروںگاڑیوں کی ایک بڑی تعداد چلتی ہوئی نظر آئیں۔ اگرچہ بیشتر تعلیمی ادارے بند رہے، تاہم سرکاری دفاتر اور بینکوں میں کام کاج معمول کے مطابق جاری رہا۔ تاریخی لال چوک، بڈشاہ چوک، ریگل چوک، مائسمہ، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ، بٹہ مالو، مولانا آزاد روڑ اور ڈلگیٹ میں بیشتر دکانیں بند رہیں۔ سرینگر میں تاجر لیڈروں نے محمد یاسین خان کو دہلی طلب کرنے کے خلاف دھرنا دیا۔احتجاجی تاجر پیر کو قریب12بجے پرتاپ پارک میں جمع ہوئے اور دھرنا دیکر احتجاج کیا۔کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن کے جھنڈے تلے اس احتجاجی مظاہرے کی قیادت فیڈریشن کے نائب صدر منظور احمد بٹ اور جنرل سیکریٹری بشیر احمد کنگپوش کر رہے تھے،جبکہ دھرنے میں دیگر تجارتی انجمنوں کے لیڈروں اور نمائندوں نے بھی شرکت کی۔مظاہرین نے ہاتھوں میں بینر اٹھا رکھے تھے،جبکہ اپنے بازو پر سیاہ رنگ کی پٹیاں باندھیں تھیں،اور وہ نعرہ بازی بھی کر رہے تھے۔بعد میں یہ مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہوئے۔ہڑتال کے دوران تشدد کے خدشے کے پیش نظر پائین شہر کے پانچ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں شہریوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر بندشیں عائد رہیں‘۔ نوہٹہ، ایم آر گنج، صفا کدل، خانیار اور رعناواری کے تحت آنے والے علاقوں میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت پابندیاں نافذ کی گئی ہیں‘۔ تاہم اس دعوے کے برخلاف پائین شہر کی صورتحال بالکل مختلف نظر آئی اور سیکورٹی فورسز نے بیشتر سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کردیا تھا۔ نالہ مار روڑ ایک بار پھر خانیار سے لیکر چھتہ بل تک متعدد مقامات پر خاردار تاروں سے بند رکھا گیا۔ صفا کدل، نواب بازار، نوا کدل، رانگر اسٹاف، خانیار، راجوری کدل اور سکہ ڈافر میں بھی متعدد سڑکوں کو خاردار تار سے بند رکھا گیا تھا۔ تاریخی جامع مسجد کے علاقہ میں امن وامان کی صورتحال کو بنائے رکھنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری جمعیت تعینات کی گئی تھی۔جنوبی کشمیر کے چار اضلاع اننت ناگ، شوپیاں، کولگام اور پلوامہ سے مکمل جبکہ شمالی کشمیر سے جزوی ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ جنوبی کشمیر میں بیشتر دکانیں بند رہیں، تاہم سڑکوں پر اکا دکا نجی و مسافر گاڑیاں چلتی رہیں۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج جزوی طور پر متاثر رہا جبکہ تعلیمی اداروں میں طلباء کی حاضری بہت کم رہی۔سید اعجاز کے مطابق ٹریڈ یونین ترال نے محمد یاسین خان کی دلی طلبی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے جبکہ قصبے میں مکمل ہڑتال رہی ۔ ٹریڈ یونین ترال نے سوموار کی صبح بس اسٹینڈ ترال میں جمع ہوکراحتجاجی مظاہرہ کیا ۔ یونین کے صدر اشفاق احمد کار نے میڈیا کو بتایا کہ ایک حربہ ہے کشمیری عوام کو تنگ کرنے کا جہاں پہلے حریت پھر وکلا اور اب تاجروں کو غیر ضروری تنگ طلب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے گذشتہ دنوں پیش آئے ترال واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں مارے گئے عام شہریوں کو باضابطہ سرکاری ریلیف اور واقعے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئے ۔شمالی کشمیر کے تین اضلاع بارہمولہ، کپواڑہ ، بانڈی پورہ ، وسطی کشمیر کے دو اضلاع بڈگام اور گاندربل سے جزوی ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں۔عازم جان کے مطابق بانڈی پورہ ضلع میں مکمل ہڑتال رہی، دفتروں میں حاضری بہت کم رہی، ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہا، البتہ اکا دکا چھوٹی پرائیویٹ گاڑیاں چلتی رہیں۔ اجس، حاجن، نائدکھے ،صدر کوٹ بالا ،کلوسہ وٹہ پورہ ،آلوسہ، اشٹنگو ،کہنو سہ میں مکمل ہڑتال رہی ، سکول اور کالج بھی بند رہے۔