Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ اطفال

تابناک مستقبل اور تربیتِ اولاد فہم وفراست

Mir Ajaz
Last updated: April 18, 2024 12:18 am
Mir Ajaz
Share
12 Min Read
SHARE
حمیرا فاروق۔ شوپیان
 دنیا اگر مستقبل کو بہتر بنانے کی فکر میں ہے تو قوم کو ایسی عورتیں پیش کرنی ہوگی جو باصلاحیت ،تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہونگی ۔تب اس خواب کی تعبیر ممکن ہے ،جو خواب دنیا مدّتوں سے دیکھتی ہے ۔کیونکہ وجود نسل کی بقا کے لیے عورت کا کلیدی کردار ہے ۔یہ نسلوں کو آگے بڑھانے والی اور ان کی پرورش کرنے کا پہلا باب ہے جیسا کہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ بچے کا پہلا درسگاہ ماں کی گود ہوتا ہے اور اگر اسی درسگاہ میں اس کا نقص رہ جائے تو پھر پوری زندگی وہ ٹیڑھا پن ختم نہیں ہو پاتا ۔اگر قوم  بہترین مستقبل کے متلاشی ، ترقی یافتہ اور امن و امان کی زندگی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اولاً اُن کو بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرنی ہوگی تب جا کے وہ اپنے قوم کے لیے مشعلہ راہ اور فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ جہاں دنیا ان کے ساتھ ساتھ انکے والدین کو دعائیں دینے پر مجبور ہو جائے ۔
اولاد تو اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں ایک عظیم نعمت ہے اور والدین کی ذمہ داری ہے کہ اس نعمت کی قدر کریں ۔اس کو صحیح کاموں میں لگائے کیونکہ بچے کو جس ڈگر اور کی اور لیا جائے، وہ اسی راہ کا مسافر بن جاتا ہے۔ صحیح راہ پر لے جاؤ گے تو والدین کے لیے صدقہ جاریہ اور آخرت  کے لیے باعث راحت و نجات بن جائے گا۔ ورنہ اگر غلط تربیت کر کے اس کو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے عاری رکھا اسکو حق وناحق میں تفریق کرنا نہ سکھایا تو وہ نہ صرف وہ اپنے والدین کے لیے وبال بن جائے گا بلکہ وہ پوری امت کو اپنے ساتھ غرق کر کے آیندہ نسلوں کے لیے بھی  بگاڑ کا سبب بن جائے گا۔ اس لیے والدین کو اپنے بچوں پر یہ حق ہے کہ ان کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی آراستہ کریں تاکہ بچے کے اندر معرفت الہٰی پیوست ہو جائے اور جب انسان میں معرفت الہٰی آجاتی ہے تو وہ کبھی بھی غلط کاموں کا ارتکاب نہیں کرتا اور نہ ہی کسی غلط چیز کی اس سے توقع کی جاتی ہے ۔انسان تو مرد آزاد نہیں کہ جو چاہے کر بیٹھے بلکہ اسے ایک حدود کے تحت زندگی گزارنے کی تلقین کی گئی ۔اگر انسان انسانی حدود کو پار کر کے غیر اخلاقی کام کا پروردہ بن جائے تو وہ جانور سے بھی بدتر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر کچھ چیزیں ودیعت کر رکھی پھر انسانوں کو خود تک ہے کہ اس کو کیسے پہچانے اللہ کی دی گئی صلاحیتوں کو کہاں اور کس طرح استعمال کرنا ہوگا، اسکے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سے نوزا ۔
اولاد والدین کی پہچان قوم کا تابندہ سورج اور مستقبل کا روشن ستارہ جس سے قوم کو روشن کرنے کی توقع کی جاتی ہے ۔لیکن اگر وقت پہ اس کی صحیح تعلیم و تربیت نہ کی جائے تو یہ بکھر کر مستقبل کو تاریک کر دے گا ۔ پھر اس سے کسی اچھائی اور مستقبل کی تعمیر نو سے تعبیر نہیں کر سکتے ۔اگرچہ نسل نو سے دنیا کی ارتقا ہوتی ہے لیکن اس کے لیے سب سے پہلے تربیت یافتہ بچوں کی ضرورت ہوتی ہے اور تربیت یافتہ بچے دنیا کو تب نصیب ہوں گے جب تربیت یافتہ ماں ان کی پرورش کرے گی، ان کو غلط اور صحیح میں ممیز کروائے گی، غیروں اور اپنوں سے بات کرنے کا سلیقہ ، محرم اور غیر محرم سے آشنائی۔ غرض ہر اس چیز سے واقف کرے گی جس کی انسانیت کو ضرورت ہے ۔
تعلیم و تربیت ایک دوسرے کے لیے لازمی ملزوم ہیں جس طرح والدین آج کل بچوں کو اعلی معیار کی تعلیم فراہم کر کے اس کو بڑے عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ اعلی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا معیار بھی من وعن ویسا رکھ لیں تو شاید یہ دنیا آج سزا نہیں بھگت رہی ہوگی ۔نسل کشی، غلط امور، جہالت، قتل و غارت، فتنہ و فساد اور نوجوانوں میں منشیات کا استعمال ان سب غلط کاموں سے انسان آج پاک و منزہ ہوتا ۔عموماً بچے کا پہلا درس ماں کی گود ہے، اسی ماں تک ہے کہ وہ چاہے اپنے بچے کو اعلی مفکر، دیندار سائنسدان بنا سکتی ہیں، اگر ماں بچوں کی حق ادائیگی کر دے تو اس کا بچہ اخلاقِ حسنہ کا مجسمہ بن سکتا ہے۔آٹھ سال تک بچہ اپنی گھر والوں سے جو سیکھتا ہے یا آنکھوں سے دیکھتا ہے ،وہ پھر اسی کو اپنی زندگی میں اپناتا ہے، اگر والدین ان کو چیزوں میں تفریق کرنا سکھائیں تو وہ کبھی جھوٹ کے قریب بھی نہ جا سکتے ورنہ اگر ان کے والدین غلط کاموں میں ملوث ہوں گے ،خود بچوں سے اچھائی کی توقع رکھلیں تو وہ چیز ممکن نہیں ۔گھر کے افراد اگر ایک دوسرے سے عزت و احترام سے پیش آتے ہوں گے تو بچے بھی اسی چیز کی عکاسی کر کے ان صفات عالیہ کو خود میں پیوست کر دیتے ہیں ۔ارشاد ربانی ہے،’’بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے۔‘‘
والدین خود کو بری الزمہ نہ جانے بلکہ ان کو اپنی رعایا کے بارے میں ضرور باز پرسی ہوگی ۔کیونکہ بچہ ایک عظیم تحفہ اور نعمت ہے، ان کی قدر ان کو ہوگی جو ان سے محروم ہوں گے اگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اولاد دی تو ان پر حقوق بھی مقرر کیے ہیں اور والدین کا بچوں کے لیے سب سے بڑا تحفہ بھی یہی ہے کہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی جائے۔
آج کل اگر دیکھا جائے تو والدین کی اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ بچے نافرمان ہو گئے ہیں لیکن ان کے پیچھے کیا وجوہات کارفرماں ہیں، اس کی اور کوئی توجہ نہیں دیتا ،اس کی قصوروار سب سے پہلے والدین ہی ہیں جو بچوں کی تعلیم کا تو خیال رکھتے ہیں لیکن جہاں تربیت کی بات کی جائے وہاں اس سے محرومی ملتی ہے ۔
یہ والدین تک ہی ہیں وہ چاہے تو آپ نے اولاد کو نمازی بنا سکتے ہیں چاہے تو ڈاکو بنا سکتے ہیں ۔تواریخ میں نہ جانے ایسے کتنے واقعات ملتے ہیں، جن سے تربیت اولاد کا ثبوت ملتا ہے ۔کوئی بھی دین اس بات کی نفی نہیں کرتا ہے کہ آپ اولاد کو دنیا و مافیہا کی تعلیم سے محروم رکھلیں کیونکہ حصول علم سے ہی انسان اشیاء میں تفرق کرپاتا ہے ۔لیکن حصولِ تربیت سے انسان انسانیت کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ پیش کرتا ہے اور یہ انسان کی ترقی کا سب سے بڑا باب کھول دیتا ہے، جس سے ہر ایک داخل ہونے کا منتظر رہتا ہے ۔لہٰذا والدین بالخصوص ایک ماں کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی اولاد کی اور دھیان دے، اس کی بنیادی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت کا خاص خیال رکھ لیں تاکہ قوم کا مستقبل روشن ہو جائے اور انسان ایک مثالی کردار دنیا میں ادا کرے۔کیونکہ اس کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ۔اس لیے ایک ماں کو ازل سے یعنی حاملہ ہونے سے ولادت تک کےسفرمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہے کہ مجھے دنیا کو ایک ایسا ہیرا دینا ہے جو نہ صرف ایک شخص ہو کر بلکہ شخصیت بن کر زیست گزارے کہ دنیا اس کو تا عمر بھلانے سے قاصر رہے ایسی فاتحانہ اور عاجزانہ صلاحیت بچوں میں پیوست کریں ۔ اور دنیا میں اس کا نام فخر سے لیا جائے گا ۔
آج کل کی ماں اتنی لاپروہ بن گئی ہیں کہ بچوں کو چھپ کرانے کے لیے اس کو پیار و محبت سے محروم رکھ کر کے اس کے ہاتھ میں موبائل فون دیتے ہیں جو کہ سب سے خطرناک اور انسانی صحت اور انسانی ذہن کے لیے مہلک اور بگاڑ کا سبب ہے ۔بظاہر ماں بچوں سے چھٹکارا پانے کے لیے اس کے ہاتھ میں موبائل تو دیتی ہے لیکن اس کے نتائج کیا نکل آتے ہیں ہم سب اس سے باخبر ہیں ۔بچے کو والدین پیار و محبت سے محروم  رکھتے ہیں تو انکے کے دلوں میں والدین کا عزت و احترام ختم ہوجاتا ہے اور وہ نافرمان بن جاتا ہے کیونکہ اس کی تربیت موبائل فون سے ہوتی ہے اور وہاں سے وہ کون سے خرافات کو دیکھ رہا ہوتا ہے جو کہ اس کی عمر کا تقاضا نہیں ۔منشیات کا استعمال ،بدکاریاں ،عریانی ،ناچ گانا،  دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔بظاہر ان کو لگتا ہے کہ ہم کچھ وقت کے لیے مبّراہوگئے، لیکن مابعد اسکے غلط نتائج نکل آتے ہیں ۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی ضرورتوں اور ان کے مسئل و مسائل کو سنیں اور ان کا حل نکال دیں، اپنے بچوں کے صحیح رہبربنیںاور اپنے بچوں کے تئیں جو رب العزت نے حقوق ہمیں بتائے ان کو بجا لا کر ایک تو اپنے اور کل کائنات کے لیے اپنے بچوں کو سود مند بنائیں ،یہی چیز دنیا اورآخرت کی فلاح ہے اور مستقبل کی مائیں ہم ہیں اور ہمیں نہ صرف دوسروں کو اس کام کے لیے درس دینا ہے بلکہ خود کو آج سے ہی تربیت یافتہ بننے کی کوشش کرنی ہے تاکہ ہمارا مستقبل شادماں رہے ۔اگر ہم اس کام میں کامیاب رہ گئے تو قوم کو وہ مواد بصورت انسان فراہم ہو جائے گا جس میں دنیا کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہو ، جو وسیع نظریہ اور اعلی مفکر و مدبر ہونگے جو ایک ایسے دنیا کا وجود بخشیں گے جو آیندہ نسلوں کے لیے راحت و آرام کا ذریعہ بن جائے گا ۔بس  ہمیں اپنے اندر تفہیم وتعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ ہونا لازمی ہے۔ ا ن شاء اللہ ہمارا مستقل تابناک و تابندہ تربیت اولاد سے ہی بن جائے گا ۔
[email protected]
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
پونچھ کے سرکاری سکولوں میں تشویش ناک تعلیمی منظرنامہ،بنیادی سرگرمیاں شدید متاثر درجنوں سرکاری سکول صرف ایک استاد پر مشتمل
پیر پنچال
فوج کی فوری طبی امداد سے مقامی خاتون کی جان بچ گئی
پیر پنچال
عوام اور فوج کے آپسی تعاون کو فروغ دینے کیلئے ناڑ میں اجلاس فوج نے سول سوسائٹی کے ساتھ سیکورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا
پیر پنچال
منشیات کے خلاف بیداری مہم بوائز ہائر سیکنڈری سکول منڈی میں پروگرام منعقد کیاگیا
پیر پنچال

Related

تازہ ترینصفحہ اولگوشہ اطفال

ڈوڈہ کے بھرت علاقہ میں دلخراش سڑک حادثہ ،5افراد لقمہ اجل،17زخمی

July 15, 2025
گوشہ اطفال

پردھان منتری آواس یوجنا ! پانچ ہزار کانذرانہ بھی دیامگر گھر نہ ملا

January 26, 2023

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?