پورے محلے میں خوف و دہشت کا عالم تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد جب طاہر گھر لوٹا تو خلاف معمول بنا کھانا کھائے اور امی سے پوچھے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔وہ عجیب بے چینی میں مبتلا تھا۔ طاہر نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا ۔ فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی لیکن اس نے فون کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ کمرے کی بتیاں بجھاکر نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور وہ چونک پڑا ،دروازے پہ امی تھی۔ " بیٹا کیا ہوا ۔ طبعیت ٹھیک ہے نا"۔
ہا امی ۔ سب ٹھیک ہے ۔ وہ کیا ہے کہ بھوک نہیں ہے اور سر بھی تھوڑا بھاری ہے ۔ " طاہر نے ماں سے کہا۔
امی نے سونے کو کہا اور یاد دلایا کہ کل کالج کا پہلا دن ہے ۔ پھر وہ بھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ طاہر کو اسکے دوست کی یاد تڑپا رہی تھی جو کچھ دن پہلے شہید ہوا تھا۔ خوف و دہشت کا عالم بڑھتا جارہا تھا ۔ وہ خوفناک دن اسے بار بار یاد آرہا تھا جب اسکا دوست مظاہرین کی بھیڑ میں گولی کا شکار ہوا تھا۔ کمرے کی کھلی کھڑکی سے وہ ابر آلود آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے نہ جانے کیا تلاش کر رہا تھا۔ آسمان پر بادل گرجنے لگے اور موسلا دار بارش ہونے لگی، جیسے آسمان زار زار رو رہا ہو۔ ایسا ہی ایک طوفان تو طاہر کے سینے میں بھی تھا مگر وہ بہہ نہیں پایا۔ اس نے کھڑکی بند کرلی۔
رات کا ایک ایک پہر اسی حالت میں گزرا۔ صبح موسم نے کروٹ لی۔ سورج اپنی کرنیں بکھیر چکا تھا۔ جہاں محلے کا ہر ایک لڑکا کالج جانے کی تیاری میں مشغول تھا ، وہیں رات کی تاریکی طاہر کی آنکھوں سے صاف جھلک رہی تھی۔ طاہر بے دلی سے تیاری کرکے امی کی اجازت لے کر گھر سے نکلا۔ گاڑی میں سوار ہوا۔ ابھی گاڑی سے اترنے والا ہی تھا کہ بازار میں لوگوں کا ہجوم دیکھا ۔ اس نے ہجوم کے قریب جانے کی کوشش کی کہ اچانک گولہ باری شروع ہوئی ۔لوگوں کا ہجوم بکھر گیا ہر ایک اپنی جان بچانے کی کشمکش میں تھا ۔جس کو جو راستہ ملا وہ اُدھر کو بھاگا۔ طاہر یہ منظر دیکھتا رہ گیا۔ گولہ باری اور تیز ہونے لگی ۔
طاہر سنبھل گیا اور کالج کے گیٹ کی طرف دوڑنے لگا ۔ اس نے ابھی گیٹ پار بھی نہ کیا تھا کہ ایک گولی اسکی پیٹھ چیر کر اسکے جسم میں پیوست ہو گئی۔ اسے اسپتال منتقل کیا گیا۔ گھر والوں کو اطلاع ملتی کہ اس سے پہلے ہی طاہر کو موت کی ہچکی لگی اور وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ امی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور فورا اسپتال پہنچی ۔ وہاں طاہر کی ادھ کھلی آنکھیں ان سے کچھ کہہ رہی تھیں ۔ وہ اپنے بیٹے کو پکارتی رہی اور اچانک گر کر بے ہوش ہو گئی۔
شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
بارہمولہ ،رابطہ ؛ 9622587348